ہمارے معاشی مسائل کا ذمے دار کون؟

جبار قریشی  جمعـء 18 اگست 2017
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

انسانی زندگی میں معاشی مسئلے کو اولین اہمیت حاصل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو رب العالمین یعنی پالنے والا کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ بچے کی دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اس کی ماں کے سینے میں اس کی خوراک کا بندوبست کر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین ہے۔ یہ انسان ہے جس نے اپنے مفادات کے تحت دوسرے انسان کے لیے اس کی خوراک کے حصول کو ناممکن اور مشکل بنا دیا ہے۔

انسان کا یہی رویہ ہمارے اقتصادی اور معاشی مسائل کی بنیاد ہے۔ انسان اپنے لالچ اور خودغرضی کی وجہ سے اپنے اس رویے کو تبدیل نہ کر سکا۔ مغرب نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو جو معاشی مسائل کی بنیاد ہے اس کو سائنسی طریقے سے کنٹرول کر کے اپنے اقتصادی اور معاشی مسائل کافی حد تک حل کر لیے۔

اس کے برعکس ہم نے نہ ہی اپنے رویے کو تبدیل کیا اور نہ ہی اس کے حل کے لیے آبادی پرکنٹرول کے حوالے سے کوئی اقدامات کیے۔ آبادی پرکنٹرول کے حوالے سے ہمارے یہاں ایک غلط تصور رائج ہے ہمارے یہاں آبادی پر کنٹرول کا مطلب بچوں کی پیدائش کے عمل کو روکنا سمجھا جاتا ہے، جب کہ آبادی پر کنٹرول کا مطلب بچوں کی تعداد کو محدود رکھنا ہے تاکہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ اپنے حصے کی خوشیاں دنیا میں حاصل کر سکے۔ یہ ایک نکتہ نظر ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے یہاں معاشی مسائل کے حل کے ضمن میں وسائل کے اضافے کی بات کی جاتی ہے۔ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وسائل میں اضافہ ایک دو تین اور چار کے حساب کے تناسب سے ہوتا ہے اس کے برعکس آبادی میں اضافہ دو، چار، آٹھ اور سولہ کے تناسب سے ہوتا ہے۔ اس طرح آبادی میں اضافے کی صورت میں اس تناسب سے وسائل میں اضافہ ناممکن ہے۔

اس تصورکا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کی اکثریت کی غذا غیر متوازن ہے ان کا لباس بوسیدہ ہے۔ غربت، جہالت، بیروزگاری عام ہے۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے ان اقتصادی مسائل کی جڑ ہے۔ ہمیں غیر جذباتی طرز فکر کو اپناتے ہوئے اس پر غور ضرورکرنا چاہیے اقتصادی مسائل کے حوالے سے ہماری زراعت کے لیے قلت آب ایک قومی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ڈیم نہ ہونے کے باعث کروڑوں گیلن پانی سمندر میں گر کر ضایع ہو رہا ہے۔ ہم اقتصادی وسائل میں اضافے کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کے دماغ کی ضرورت نہیں۔ اس طرز عمل کی بدولت زراعت کا شعبہ تباہ حالی کا شکار ہے۔

زراعت کے شعبے کی تباہ حالی کی وجہ سے زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کی شہروں کی جانب نقل مکانی نے شہروں بالخصوص کراچی میں آبادی کے دباؤ کو بڑھا دیا ہے جس سے شہری مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ منصوبہ بندی کے بغیر آبادی کے غیر فطری اضافے نے شہر میں بدامنی، جرائم، بیروزگاری اور نسلی تصادم جیسے سنگین مسائل کو جنم دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق شہر کی آبادی کے اس تیز رفتار اورغیر فطری بہاؤ پر قابو نہ پایا گیا تو یہ شہر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے گا اور ایک آتش فشاں پہاڑ کا روپ دھار لے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اہم ایشوز پر پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ایسا کیوں ہے اس کا بہتر جواب تو سیاست کے طالب علم ہی دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک قومی مسئلہ ہے ہمیں اس پر بات ضرور کرنی چاہیے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث شہروں میں بیروزگاری کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروغ کے عمل کو بڑھایا جائے۔ کراچی میں سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ زمین کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے۔ ایک درمیانی درجے کے تاجر کے لیے زمین کے حصول کے بعد یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔

دوسری بڑی رکاوٹ انفرااسٹرکچر کا فقدان ہے جس میں پانی، بجلی، گیس کی فراہمی میں تعطل، ذرایع نقل و حمل کا غیر معیاری ہونا شامل ہیں۔ اگر دستیاب ہیں بھی تو مہنگے داموں جس کی وجہ سے ہماری صنعت زبوں حالی کا شکار ہے۔ کراچی میں صنعتوں کی ضرورت کے لیے 80 فیصد پانی ٹینکر کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ اس سے ٹینکر مافیا کی تو چاندی ہوجاتی ہے لیکن صنعت کار کے منافعے کا بڑا حصہ پانی کی نظر ہوجاتا ہے اور یہ پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ سرکاری اداروں کے افسران کی غیر ضروری مداخلت نے بھی صنعتی اداروں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ یہ پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

پیداواری لاگت میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے حل کے لیے تنخواہ میں اضافے کی بات کی جاتی ہے تنخواہ اور اجرتوں میں اضافہ بھی پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ عوام کی قوت خرید نہ ہونے کی صورت میں تیار اشیا مارکیٹ میں رکھی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مزید پیداواری سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔ جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر تاجر ہے تو پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کے باعث اس کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ عالمی سطح پر دنیا کے دیگر ممالک سے مقابلہ کرسکے نتیجے میں وہ عالمی مارکیٹ سے باہر ہو جاتا ہے۔

اس سے کاروباری سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔ جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان اقتصادی مسائل کا ذمے دار کون ہے۔ روایت پسند قوتیں یا سیکولر جماعتیں (جو حکومتوں میں بھی شامل رہی ہیں) یا افسر شاہی اس کا بہتر جواب اقتصادیات کے ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ ان مسائل کے ذمے دار کوئی بھی ہوں ہمیں ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق غربت، بیروزگاری کا جرائم اور لاقانونیت سے گہرا تعلق ہے۔ اگر ملک سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ نہ کیا گیا تو معاشرے میں پائیدار امن، بھائی چارہ، اخوت، قومی یک جہتی خوشنما نعرہ اور خواب بن کر رہ جائیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں بھوک اور افلاس انقلاب کا باعث بنے گا وہ غلطی پر ہیں۔ اقتصادی بدحالی سے انقلاب نہیں آیا کرتے بلکہ جرائم فروغ پاتے ہیں۔ انقلاب کے لیے افکار اور خیالات ضروری ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسی کوئی فضا نہیں اس لیے انقلاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔