آپؐ کا عطا کردہ اعتدال پسند معاشرہ

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 18 اگست 2017
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں کہ جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی زندگی کی اصلاح کا خواہاں ہو اور چند محدود اعمال اور رسوم پر مشتمل ہو بلکہ ایسا دین ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی پر مشتمل ہے اور ہر شعبہ زندگی کے متعلق رہنمائی کے اصول متعین ہیں جو دونوں جہانوں میں کامرانی کراتے ہیں۔ اسلام تمام شعبہ ہائے زندگی کی اصلاح کرتا ہے خواہ یہ شعبہ انفرادی ہو یا اجتماعی، روحانی ہو یا مادی، معاشی ہو یا معاشرتی، غرض زندگی کے ہر شعبے سے متعلق اپنے احکامات کے ذریعے حیات انسانی کو امن کا گہوارہ بنادیتا ہے۔ اسلامی نظام کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کا قانون جاری و نافذ ہو۔

اسلام امن کا داعی، صداقت کا علمبردار اور انسانیت کا پیغمبر ہے، اس کی نگاہ میں نبی نوع انسانی کا ہر فرد مساوات و مرتبہ کا مستحق ہے وہ رنگ و نسل کے عیوب سے پاک ہے۔ اسلام سارے طبقات انسانی کے لیے رحمت بن کر آیا اس نے غیر مسلم رعایا کو بھی اس سے محروم نہیں رکھا اور ان کو اتنے حقوق دیے جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔

سرور کائنات، رسول رحمت، مذہبی رواداری کے علمبردار اور اعلیٰ ترین معلم انسانیت کی سیرت ایک مکمل سیرت ہے۔ آپ کا کردار اور طرز عمل ایک بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کاطرز عمل پوری دنیا کے انسانوں کے لیے باعث تقلید اور بہترین ماڈل ہے۔ اللہ رب العزت قرآن عظیم میں فرماتا ہے کہ:

ترجمہ: ’’تمہارے لیے رسول اﷲؐ کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے‘‘

اسلام تہذیبی اور جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے ایک پسماندہ ترین خطے میں آیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہل عربوں کو دنیا کی اعلیٰ ترین قوم بنادیا۔

اسلام دنیا کا ایک عظیم مذہب ہے۔ اس نے بے کیف اور افلاس زدہ زندگیوں کو وقار اور معنویت دی ہے۔ اس نے مختلف نسلوں کے لوگوں کو بھائیوں کی طرح جینا اور مختلف عقائدکے لوگوں کو باہمی رواداری کے ساتھ پہلو بہ پہلو رہنا سکھایا۔ اس نے ایک عظیم تہذیب عطا کی جس سے اسلامی معاشرے کی تشکیل ہوئی جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی تخلیقی اور سودمند زندگی بسر کی اور جس نے اپنے حالات اور (Achievements) کے ذریعے پوری دنیا کو ثروت مند بنایا۔

اسلام کی تعلیمات اپنے حقوق کے حصول کے لیے استحصالی قوتوں سے نبرد آزما مسلمانوں کو اپنی جد وجہد انسانیت کی حدود کے اندر رکھنے کا پابند بناتی ہے اور انھیں یہ اجازت ہرگز نہیں دیتی کہ وہ اس شرعی جد وجہد میں معصوم اور نہتے لوگوں کی جانیں لیں، انھیں دہشت زدہ کریں، ان کی املاک کو نقصان پہنچائیں اور ان میں خوف و ہراس پھیلاکر اس کائنات میں فتنہ فساد اور تباہی و بربادی کا موجب بنے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور زمین پر فساد مت پھیلاؤ، بے شک اللہ فساد کا موجب بننے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ اس لیے فساد امن کا دشمن ہے اور اسلام امن عالم کا داعی ہے۔

عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ پوری دنیا میں امن و سکون قائم ہو اور امن و سکون اسی وقت قائم ہوگا جب فساد ختم ہو دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور فساد و دہشتگردی اسی وقت ختم ہوگی جب اس کے اسباب ختم ہوںگے۔ اسباب کیا ہیں؟ بے انصافی، معاشی و مذہبی استحصال، لاقانونیت، ظلم، سیاسی استحصال، سازش، طاقت کی یلغار، تہذیب کی یلغار، من پسند خیالات و افکار کا تسلط وغیرہ۔

انسان کیا جانور کی بھی فطرت ہے کہ جب کوئی اس کے گھر پر قبضہ کرتا ہے اس کی بل میں سے گھستا ہے تو وہ مقابلہ کرتا ہے، دشمن سے اپنے گھر کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کارروائی کرتا ہے کیا ظلم ہے کہ اس فطری مزاحمت کرنے والے کو دہشتگرد کہا جاتا ہے اور کئی سو میل سے آکر گھر پر قبضہ کرنے والے کو امن کا پیامبر قرار دیا جاتا ہے اور جب تک یہ الٹی تعریف کی جاتی رہے گی یاد رکھیے الٹی گنتی بھی جاری رہے گی۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ عصر حاضر کے تقاضے کو سمجھا جائے اور حکمت کے ساتھ اونٹ کو نکیل ڈالی جائے۔ نکیل ڈالنے کی ذمے داری صرف یورپ کی نہیں ایشیا اور چین کی بھی ہے بلکہ ساری دنیا کی ہے۔

عصر حاضر میں بین الاقوامی ذمے داری کے ساتھ مذہبی و ملی ذمے داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے کہ رد عمل کا شکار ہو کر اسلامی تعلیمات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، اگر دشمن ہمارے خلاف غیر اخلاقی انداز میں طاقت، قانون، اسلحہ میڈیا کا استعمال کر رہا ہے تو پھر بھی ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم ملک میں رہنے والی اقلیت اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنائیں یا سویلین کا قتل کریں۔ ہمارے سامنے سیرت طیبہ میں روشن خیالی کی دو بہترین نمونے ہیں۔

1…میثاق مدینہ

2…صلح حدیبیہ

ہمیں انھیں آئیڈیل بناکر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

عہد حاضر کا تقاضا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر قومی و ملی تحفظ کے لیے کوشاں ہوں اور ایمان کا سب سے آخر درجہ یہ ہے کہ ظلم کو ظلم سمجھیں اور حکمت کے ساتھ اپنی نفرت کا اظہار کریں تاکہ دشمن کی توپوں کے دھانے سے بچتے ہوئے اپنے موقف کو اقوام عالم سے منوائیں اور یہ اسی وقت ہو گا جب ہم خود فساد کا ایندھن بننے کے بجائے فساد کے اسباب کو ختم کرنے کے لیے اقوام عالم کو متوجہ کریں۔

اسلام کے حوالے سے اس کی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا علمی جواب دیں اور ثابت کریں جنگ اور جہاد الگ الگ ہیں۔ جہاد اور دہشتگردی الگ الگ ہیں، اسلامی رواداری کی تعلیم کو اجاگر کریں بعض افراد کے انفرادی عمل کا دفاع کرنے کے بجائے اسلام کا دفاع کریں۔ ناموس رسالت کے قانون کے حوالے سے اپنا موقف عالمی زبانوں میں پیش کریں اور ان سے مطالبہ کیا جائے کہ جس طرح ہمارا مذہب حکم دیتا ہے ولا تسبوالذین یدعون من دون اللہ فیسیواللہ عدواً بغیر علم کہ کسی کے معبود کو کسی کی مقدس ہستی کو برا نہ کہو۔

جب ہم کسی کو برا نہیں کہتے تو کسی کو یہ حق بھی نہیں دیا جاسکتا ہے کہ وہ ہماری مقدس ہستی کو برا کہے، گالی دے اور عیسائیوں کے اس تخریبی ذہن کو جو صلیبی جنگ کے اثرات کا ثمر ہے ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے باقاعدہ سیمینار و کانفرنسیں منعقد کرکے دنیائے عیسائیت پر واضح کرنا چاہیے کہ ہم خود عیسائیوں سے بھی زیادہ ان سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی شان میں گساخی کرنے والے کی بھی وہی سزا تجویز کرتے ہیں جو اپنے ہمارے پیارے نبیؐ کے گستاخ کے لیے ہے۔

ہمیں احساس کمتری سے نکلنا ہوگا ہمیں اپنی بنیادیں مغربی تہذیب و ثقافت اور ان کی خوشنودی میں تلاش کرنے کے بجائے قرآن اور اسوۂ حسنہ میں تلاش کرنا ہوگا۔ کم از کم زبان سے حق کو حق، سچ کو سچ کہنا ہوگا، ہمیں اپنی قوم و ملت کا ترجمان بننا ہوگا۔ اگر بنیاد صحیح ہو تو عمارت صحیح کھڑی ہوتی ہے اگر بنیاد غلط ہو تو عمارت بھی غلط تعمیر ہوگی اور معمولی سے صدمے سے منہدم ہوجاتی ہے۔

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے کو آباد کیا

آج ہم ہر وقت مغرب کی طرف دیکھنے کے قائل ہیں جب کہ مغرب تو ڈوبنے کی جگہ ہے۔ مغرب میں تو سورج ڈوبتا ہے جب کہ مشرق وہ جگہ ہے جہاں سے سورج ابھرتا ہے، مشرق روشن ہے اس کا افق روشن ہے یہ ابھرنے کی جگہ ہے مغرب کی نہ صرف تہذیب اندھی بلکہ یہاں کی انسانیت بھی اندھی ہے۔ آپؐ مشرق وسطیٰ میں پیدا ہوئے اگر مغرب اللہ کو اتنا ہی پیارا ہوتا ہے تو یقینا وہاں پر کچھ نہ کچھ کرشمے ضرور ہوتے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔