70 سالوں کی دھول

راؤ سیف الزماں  جمعـء 18 اگست 2017

کوئی بھی ٹکراؤ صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ایک چیز اپنا متعین رستہ چھوڑکر ایک ایسے راستے پر آجائے جو اس کا نہ ہو، یعنی کسی اور کے راستے پر آجائے تو ٹکراؤ ہونے کا عین امکان ہوگا۔ ہم ملک میں اداروں کے ٹکراؤکی بات کر رہے ہیں، جو اکثر و بیشتر دیکھنے آیا بلکہ ملک معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے جو یہ ٹکراؤ شروع ہوا توکبھی کم نہیں ہوا، لیکن ختم کیوں نہیں ہوتا وجہ آخرکیا ہے؟

مجھے آج اسی پر بات کرنی ہے،کیونکہ اس ٹکراؤ نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا، قوم کو ترقی نہیں کرنے دی اس کے باعث کوئی نظام مستحکم نہیں ہو پایا، پڑوسی ممالک جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے وہ ترقی کی شاہراہ پر ہم سے اب بہت آگے ہیں۔

میں ابتدا میں اس ٹکراؤکی ایک بڑی وجہ بیان کر چکا، یعنی کسی ادارے کا دانستہ یا غیردانستہ ایک راستے پر آ جانا جو اس کے لیے بنا ہی نہیں،آئین و قانون کی رُو سے اس کے لیے سخت ممانعت ہے اُس راستے پر جانے کے لیے لیکن وہ جا رہا ہے اور مستقل جا رہا ہے، اب وہ راستہ جس دوسرے ادارے کے لیے مخصوص ہے اور آئین وقانون کے حوالے سے مختص ہے وہ اس پر گامزن ہے، دونوں کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے۔

اس میں غلطی ظاہر ہے راستے کا غلط انتخاب کرنے والے ادارے کی ہے، لہٰذا قصور وار اسے ٹھہرایا جائے گا، لیکن معاملہ جب کسی مجاز عدالت کے پاس بغرضِ تشریح جاتا ہے کہ آپ اس معاملے میں معاونت فرمایے تو وہاں سے جو جواب یا جواب الجواب آتا ہے وہ قانون اورآئین کے مطابق نہیں ہوتا یا کم ازکم اب تک تو نہیں رہا ۔ انھوں نے کبھی کہا کہ جو ادارہ غلط راہ چلا وہ نظریہ ضرورت تھا اس کا چلنا جائزقرار دیا،کبھی فیصلہ آیا کہ اس کی کوئی غلطی ہی نہیں۔

قارئینِ کرام! اس طرح یہ معاملہ حل نہ ہوسکا اور ہمارے پیارے ملک میں اداروں کا ٹکراؤ معمول کی بات بن گیا۔بلکہ اب تو یہ اداروں کے ٹکراؤ کا ملک کہلاتا ہے، جہاں قانون اورآئین کی تشریح عجیب انداز میں کی جاتی ہے جہاں جنگل کا قانون بھی یہ کہہ کر نافذ کیا جاتا ہے کہ اسی نکتے پر تو ملک آزاد ہُوا تھا۔

یہی تو آپ کی منزل ہے، آپ دیکھیے جنرل ضیاء جو جدید مارشل لاء کے موجد بھی ہیں کو آج تک کچھ لوگ نجات دہندہ قرار دیتے ہیں اورکہتے ہیں ملک کو انھی جیسے کسی رہنماء کی ضرورت ہے، جس نے قانون توڑا، آئین کی دھجیاں اُڑا دیں، کسی بے قصورکو پھانسی پر لٹکا دیا وہ مسیحا کہلائے جاتے ہیں۔ تب آپ ووٹ انھی کو دیں، انتخاب انھی کا کریں، الیکشن کی کیا ضرورت؟ سیاستدان کیوں آپ کے گندے کپڑے دھوئیں؟

بنگلادیش میں جو کیا آپ نے کیا، بھگتیں سول لوگ ۔آخر عدالت ایک ایسا حکم جاری کیوں نہیں کر دیتی جس کی رُو سے الیکشن کا انعقاد ہی نہ ہو بلکہ عدالت کو جب اس قدر اختیارات حاصل ہیں جن کی اطلاع کسی کو چند ماہ پہلے تک نا تھی لیکن اب ہے تو وہ ایک نیا آئین بنادے اور ضرورتًا اس میں تبدیلی بھی جاری رکھے یعنی جو حکم ملا بدل دیا جو بدلنے کے لیے کہا جائے، پھر ٹھیک ہوجائے گا کم ازکم اس تماشے سے تو جان چھوٹ جائے گی جو ستر سالوں سے ملک میں جاری ہے اوراب ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے، یعنی ایسی جہالت جس کا کوئی تصور اب مہذب دنیا میں نہیں ملتا۔

ہمارے وطنِ عزیز میں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے اور اسے باقاعدہ قانون قرار دیا جاتا ہے، قیدوبند کی ایسی گھٹی ہوئی فضاء جہاں اب سانس لینا دوبھر ہوگیا، جینا محال نظر آتا ہے۔کس قدرشرم کی بات ہے کہ جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہی نہیں تھا وہ نہ صرف ملک میں وزیرِاعظم رہے بلکہ الیکشن تک کروا کے گئے اور آپ محافظ بنے رہے۔ یہی محافظت ہوتی ہے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے۔گویا امریکا کہے گا تو آپ اسے بھی وزیر اعظم بنا دیں گے جو انڈیا کا رہنے والا ہو، بس نہیں بنتی توپاکستانیوں سے۔

میری رائے میں اب سیاستدانوں کو چاہیے کہ الیکشن میں اس وقت تک حصہ نہ لیں جب تک انھیں امریکی آشیرباد حاصل نہ ہو، کیا فائدہ ایسی حکومت کا ایسی جمہوریت کا جو سر تا پیر خارجیوں کی مرہونِ منت ہو کیونکہ ہمارے محافظ ان کے احکامات کے تابع ہیں اور میں نے غلط کہا تو آپ بتایئے آپ نے افغان وارکیوں لڑی؟ وہ لڑائی آپ کی تھی کسی طور آپ سے تعلق رکھتی تھی؟ گرم پانی، ٹھنڈے پانی تک رسائی، جھوٹ سب جھوٹ صاف بات ہے کہ آپ ڈرتے ہیں۔

امریکا سے اس کے اتحادیوں سے اور اپنی قلعی کھل جانے سے خوفزدہ ہیں، پورا ملک افغان وارکے نتیجے میں برباد ہوا جو آپ کی مہم جوئی تھی، پھر 32 جرنلز بمعہ صدر ایک طیارہ حا دثے کا شکارہوئے یعنی امریکا نے آپ کو بھی نہیں چھوڑا اس کی کوئی رپورٹ کہاں ہے؟ کوئی سچ بول دے تو ایجنسیز اسے اُٹھا لیتی ہیں۔

ایسے چلتے ہیں ملک، ایسے بنتی ہیں قومیں؟ کیوں آپ سسٹم کو چلنے نہیں دیتے کیوں اس ملک پر اپنے جبر کو مسلط کر دیا ہے؟ کب تک ہم سنتے رہیں گے، سوچتے رہیں گے کہ یہ ملک آخرکس کے لیے آزاد ہوا تھا؟ اس لیے کے یہاں آپ کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں؟ عام آدمی جو اس ملک کا سرمایہ ہے اُس کے حقوق کہاں ہیں،کون اسے جینے کا، رہنے سہنے کا،اس کی آزادی کا حق دے گا؟ 70 سال ہوگئے،سوچتے ہوئے،کڑہتے ہوئے، اپنے آپ سے اُلجھتے ہوئے،آج جس ایم کو ایم پر پابندی ہے،اُسے کس نے بنایا تھا اورکس کے خلاف؟

اس وقت بھی جمہوریت پر شبِ خون مارا گیا تھا،آج بھی مارا گیا تو بدلا کیا؟ اس کا مطلب ہے ان 70 سالوں میں ہم دھول جھونک رہے تھے۔دنیا ترقی کر رہی تھی ہم آپ کی مہم جوئی کی قیمت ادا کر رہے تھے، لیکن کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا یہ قوم کو سوچنا ہوگا۔

یہ ہمارا قومی فریضہ ہے ہمیں معاملات اپنے ہاتھ میں لینے ہوں گے، ہمیں نکلنا ہوگا،ہمیں جاننا ہوگا، چھیننا ہوگا،کیونکہ جب ادارے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں انصاف دینے والے ہاتھ ہی ناانصافی میں ملوث ہوںتو انسان کہاں جائے اورکیا کرے؟ ویسے بھی ہم طویل عرصہ انتظارکر چکے۔ مزیدکتنا اورکہاں تک کریں؟ آپ معیشت کو دیکھ لیجیے، ریاست، حکومت، تجارت، سیاست، طرزِ معاشرت کو دیکھ لیجیے،کہیں کچھ بہتر نہیں، بلکہ ابتری، ابتری، ابتری کی جانب گامزن ہے اوربہت تیزی کے ساتھ ہے۔

اب یا تو خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچالیا جائے یا ان مہم جُو اداروں کو مزید من مانی کی اجازت دے دی جائے۔ان میں سے کوئی ایک راستہ چننا ہوگا ہرقیمت پر ہر صورت میں … ایک طرف انڈیا جیسا پڑوسی ہے دوسری طرف آپ کا حاکم امریکا،جو ہر صورت ملک کی تقسیم پر تلے ہیں،آپ پچھلے کچھ دنوں کے واقعات پر نظر ڈالیے،اندازہ ہوگا کہ دہشتگردی پھر سے اور تیزی سے سر اُٹھا رہی ہے۔

ہر شہر میں فورسز پر خودکُش حملے، ملک میں جدید اسلحے کی بھرمار۔ حیرت ہے …کیا یہی وقت تھا حکومت کو فارغ کرنے کا، اپنی من پسند حکومت کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا؟ سوچنے کی بات ہے یہ کون لوگ ہیں جو ملک کی سالمیت سے کھیلنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ تباہی ہوچکی بہت تباہی ہوچکی اورکتنی ہوکہ آپ کا دل بھرجائے، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا ،ملک آدھا تقسیم ہوچکا اور یہ حادثہ کیونکر رونماء ہوا یہ تفصیل اب اظہرمن الشمس ہے اس پرکیا بحث ہو۔ آخر ہم اب کس حادثے کے انتظار میں ہیں ؟کیونکہ مہم جُوئی رکی نہیں، جاری ہے اور اس میں شدت ہے۔

کیا یہ تفصیل بیان کرنے میں کم ہے کہ 18وزرائے اعظم مدت پوری ہونے سے قبل گھر بھیج دیے گئے۔ کیا ان میں سے کوئی بھی صادق وامین نہیں تھا؟کیا یہ تفصیل کافی نہیں کہ قوم آپ کے عزائم کی مکمل جانکاری رکھتی ہے،کیا آپ لیبیا، مصر، عراق، ایران کی تاریخ کو یہاں بھی دہراتے ہوئے دیکھنا پسند فرمائیں گے؟ بقولِ شاعر۔

یہ آب بڑھتا چلا آرہا ہے، بہتا ہُوا
کوئی تو آگے بڑھے سینہ سامنے کردے

میں جانتا ہوں کہ انجام کارکیا ہوگا؟
اکیلا پتا اگر رات بھر ہوا سے لڑے

اندھیرے کمرے میں سب لوگ اب برہنہ ہیں
کسی کا ہاتھ بڑھے اور روشنی کردے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔