مجھے کیوں نکالا؟

عابد محمود عزام  جمعـء 18 اگست 2017

سپریم کورٹ سے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد سے ایک بار پھر پاکستانی عوام اسی طرح دو انتہاؤں میں بٹ گئے ہیں، جس طرح اسلام آباد میں سربراہ پی ٹی آئی عمران خان اور سربراہ پی اے ٹی ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے وقت بٹ گئے تھے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے رہنما ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔ کوئی نواز شریف کی رخصتی کو قانون کی حکمرانی توکوئی اسے جمہوریت کے خلاف سازش سے تعبیر کر رہا ہے۔  سیاستدانوں کے طفیل ملک کے گلی کوچوں، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور عوامی پلیٹ فارم سوشل میڈیا پر جانبین کے افراد میں آپس میں بحث و تکرار جاری ہے۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیانات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نااہلی کے قانونی معاملے کو سیاسی بنا رہے ہیں اور عوام کے بیچ قومی اداروں کو گھسیٹ رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم  نے ریلی کے دوران عوام سے بارہا یہ سوال پوچھا کہ مجھے کیوں نکالا؟ حالانکہ عوام سے یہ سوال کرنے کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ ان کو نہ تو عوام نے نکالا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے نکالا ہے۔ ان کو عدلیہ نے نااہل قرار دیا ہے، اس کا جواب بھی عدلیہ ہی دے سکتی ہے اور یہ سوال بھی عدلیہ سے ہی کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 معزز ججوں نے مجھے ایک منٹ میں نااہل کر دیا۔ انھوں نے مجھے نہیں، بلکہ 20 کروڑ عوام کو نااہل کیا۔ ججوں نے مجھے نااہل قرار دے کر عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی ہے اور عوام کو ان سے پوچھنا چاہیے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ ان کا عوام سے یہ بھی کہنا تھا کہ آپ ووٹ دے کر حکومتیں بناتے ہیں، لیکن آپ کی توہین کی جاتی ہے۔ کیا یہ سب آپ کو برداشت ہے، کیا آپ اس کا حساب نہیں لیں گے؟

نواز شریف کا عوام کے سامنے ملک کے ایک معزز ادارے سے متعلق اس قسم کے بیانات سے عوام کے دلوں میں معزز ادارے کے احترام میں کمی آنا ایک فطری امر ہے، کیونکہ جب ایک لیڈر اپنے چاہنے والوں کو برملا یہ کہتا ہے کہ میرے خلاف فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے تو یقینی بات ہے کہ عوام کا اعتماد بھی ان اداروں سے اٹھ جائے گا۔ میاں صاحب کی ان باتوں سے عوام میں اداروں کے خلاف نفرت جنم لے سکتی ہے، کیونکہ ان کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ کو قائل کرنے کے لیے ریاست کے 6 اداروں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے 60 دنوں تک مسلسل کام کیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے۔

ایسے میں عوام کے سامنے ایک لیڈر کی طرف سے عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنا عدالت کا احترام عوام کی نگاہ میں کم کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے حالات میں میاں صاحب ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کی خاطر پورا نظام داؤ پر لگانے کی بجائے فیصلے کو دل سے تسلیم کر کے تاریخ میں زندہ رہنے کا فیصلہ کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔ حالانکہ جمہوریت تو ابھی بھی قائم ہے، حکومت ختم نہیں ہوئی اور نیا بننے والا وزیر اعظم بھی ان کی ہی جماعت کا ہے تو پھر کیا جمہوریت فرد واحد کی کرسی کا نام ہے؟

اگر میاں صاحب دیانت داری کے ساتھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تو یہ معاملہ بھی اسی طرح متعلقہ ادارے میں لے کر جائیں، جس طرح اسلام آباد میں دھرنے کے وقت پی ٹی آئی سربراہ عمران خان سے کہا جاتا تھا کہ ان کو دھرنا دینے کی بجائے متعلقہ ادارے سے رابطہ کرنا چاہیے۔

میاں صاحب کو مکمل اعتماد کے ساتھ اداروں کا سامنا کر کے قوم اور دنیا کے لیے ایک روشن مثال قائم کرنی چاہیے، تا کہ آیندہ احتساب کے نام پر کوئی سیاست نہ کر سکے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ جس طرح وہ خود عدالت کے سامنے پیش ہو چکے ہیں، اسی طرح دیگر سیاست دانوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے اور اس صورت میں میاں نواز شریف ایک مثال بن کر سامنے ہوں گے۔ اب احتساب کا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے، بلکہ اس کی لپیٹ میں سب آنے چاہیئں۔

سب کا احتساب ہونا چاہیے اور سب کو اس احتساب کو قبول بھی کرنا چاہیے اور ان قومی اداروں کا احترام بھی کرنا چاہیے۔ سیاست ضرور کی جائے اور سیاست کو مضبوط بھی کرنا چاہیے، لیکن سیاست کی خاطر ریاست اور ریاستی اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔ میاں صاحب کو تو عوام کے سامنے ملکی اداروں کے احترام کی تلقین کرنی چاہیے، تا کہ بطور قومی لیڈر وہ دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ ہمیں اپنے اداروں پر مکمل اعتماد ہے اور اہم اپنے اداروں کے پیچھے ہر حال میں کھڑے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں اور اس جنگ کو سیاسی جنگ بنا دیتے ہیں تو اس سے ملک کا نقصان ہو گا اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بھی خراب ہو گا۔

جب پی ٹی آئی سربراہ عمران خان اور پی اے ٹی سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا، اس وقت ان پر خود میاں نواز شریف، حکومت اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو یہی اعتراض تھا کہ اس سے اداروں کے احترام میں کمی آئے گی اور ملک کو نقصان ہوگا۔

اب میاں صاحب خود اسی راستے پر چل پڑے ہیں، جس راستے پر چلنے سے عمران خان کو منع کرتے رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ اصول سب کے لیے ایک نہیں ہوتا، بلکہ جہاں اپنا مفاد ہو، وہاں اصول بدل جاتے ہیں۔ جب پیپلزپارٹی کے منتخب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ کی جانب سے نااہل کیا گیا تھا، اس وقت میاں نواز شریف  نے عدالت کے اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی تھی، لیکن اب جب خود نااہل ہوئے ہیں تو بار بار یہی سوال دہرائے جا رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟

حالانکہ جس عدالت نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نکالا تھا، جس کی حمایت میاں نواز شریف صاحب نے کی تھی، اسی عدالت نے میاں نواز شریف صاحب کو نکالا ہے، اب بھی اسی عدالت کے فیصلے کو بھی دل سے تسلیم کرنا چاہیے اور یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ مجھے کیوں نکالا؟ اور اسی طرح جب پیپلزپارٹی نے آئین کی دفعہ 62،63 صادق و امین میں ترمیم کی بات کی تھی، اس وقت تو میاں نواز شریف صاحب نے اس کی مخالفت کی تھی اور اب جب خود اسی شق کی وجہ سے نااہل ہوئے ہیں تو اب کہہ رہے ہیں کہ اس میں ترمیم ہونی چاہیے۔ یہ کوئی اچھا رویہ نہیں ہے کہ جو بات اپنے فائدے کی ہو، اسے تو تسلیم کر لیا جائے اور جو اپنے فائدے کی نہ ہو، اسے مستردکردیا جائے۔

اصول سب کے لیے ایک ہی ہونا چاہیے۔ بات یہ نہیں کہ کون صحیح ہے اورکون غلط ہے، بلکہ فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ملک کے لیے کیا ٹھیک ہے اور کیا ٹھیک نہیں؟ جو اقدام ملک، ملکی اداروں اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے، وہ چاہے کوئی بھی جماعت کرے، اس کی مخالفت کرنی چاہیے، اگر حکمران ہی عدالتی فیصلوں کی مخالفت کریں گے تو آئین و قانون کی بالاستی کیسے ہو گی؟ اگر سب سیاست دان ملک و قوم سے مخلص ہیں تو انھیں آئین و قانون کے مکمل احترام پر اتفاق کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔