سورج یا چاند گرہن

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 18 اگست 2017
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علمائے احناف کی رائے ہے کہ اس موقع پر دو رکعات عام نماز کی طرح پڑھی جائے۔ فوٹو: اے ایف پی

خلاصہ کلام یہ ہے کہ علمائے احناف کی رائے ہے کہ اس موقع پر دو رکعات عام نماز کی طرح پڑھی جائے۔ فوٹو: اے ایف پی

سورج یا چاند گرہن کیوں ہوتا ہے؟

اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ زمین کے گرد چاند گردش کرتا ہے اور چاند زمین کی طرح تاریک ہے، وہ سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے، جب وہ سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے تو سورج کی روشنی زمین پر پہنچنے سے رک جاتی ہے جس سے سورج گرہن واقع ہوتا ہے۔ اور جب زمین درمیان میں آجاتی ہے اور وہ چاند پر روشنی نہیں پڑنے دیتی تو چاند گرہن واقع ہوتا ہے۔

زمانۂ جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا کہ کسی شخص کی موت یا کسی بڑے حادثے پر سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے۔ برصغیر میں لوگوں کا خیال ہے کہ اس موقع پر حاملہ خواتین چھری وغیرہ کا استعمال نہ کریں کیوں کہ سورج یا چاند کے گرہن ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ میں موجود بچے کا ہونٹ وغیرہ کٹ جاتا ہے، حالاں کہ حقیقت سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے، نہ شرعی اعتبار سے اور نہ ہی سائنس کے اعتبار سے، یہ صرف لوگوں کا وہم و گمان اور جہالت ہے۔

ہمارا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اگر واقعی اس موقع پر حاملہ عورت کے لیے چھری وغیرہ کا استعمال کرنا نقصان دہ ہوتا تو پوری کائنات کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ اﷲ کے حکم سے اس کے متعلق احکام ضرور بیان فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں جب سورج گرہن ہوا، اسی دن آپؐ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ کی وفات ہوئی اور بعض لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ گرہن ان کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، تو آپ ﷺ نے اس کی تردید کرکے بیان کیا کہ سورج اور چاند اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کی موت کی وجہ سے یہ گرہن نہیں ہوتے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر لمبی نماز پڑھی۔ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق آج تک پوری امت مسلمہ کا یہی معمول ہے کہ اس موقع پر نماز پڑھی جائے، اﷲ کا ذکر کیا جائے اور دعا کی جائے۔

دنیا میں ایسا عظیم الشان نظام ہے کہ وقت پر سورج کا طلوع ہونا، غروب ہونا، چاند اور کروڑوں ستاروں کا خلا میں موجود ہونا، ہواؤں کا چلنا، سورج اور چاند سے روشنی کا ملنا، زمین کے اندر بے شمار خزانے اور زمین میں بڑے چھوٹے پہاڑوں کا موجود ہونا، بادلوں سے بارش کا ہونا، زمین میں پیداواری صلاحیت کا ہونا، پھلوں میں ذائقے کا پیدا ہونا، پانی اور آگ کا موجود ہونا، اسی طرح چرندوں، درندوں اور پرندوں کی بے شمار مخلوقات کا موجود ہونا سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کو پیدا کرنے والی کوئی نہ کوئی ذات ہے، ورنہ یہ سارا نظام کیسے اور کیوں قائم ہوگیا ؟ آج ہم ایک چھوٹا سا کام بھی کرتے ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، نیز اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے اور پھر وہ ایک نہ ایک دن ختم بھی ہوجاتا ہے۔

عظیم بادشاہ زمین میں دفن کردیے گئے۔ مضبوط قلعے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے اور حویلیاں ویران ہوگئیں۔ یقیناً وہ اﷲ تعالیٰ کی ہی ذات ہے جو نہ صرف انس و جن کا خالق ہے بل کہ پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اور صرف وہی اس پوری کائنات کے نظام کو چلانے والا ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں۔ دنیا کی بے شمار چیزیں نہ سمجھنے کے باوجود ہم تسلیم کرلیتے ہیں، اسی طرح بات سمجھ میں آئے یا نہیں ہمارا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ اتنی بڑی کائنات خود بہ خود نہیں بن سکتی اور اتنا بڑا نظام خود بہ خود قائم نہیں رہ سکتا۔ سورج و چاند کا کیسا عجیب وغریب نظام ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں آیا۔

جس طرح وقتی طور پر اﷲ کے حکم سے سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے، ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ یہ سورج اﷲ کے حکم سے مشرق کے بہ جائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ آج کے سائنس دانوں نے بھی اس کے امکان کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا ختم ہوجائے گی اور پھر دنیا کے وجود سے لے کر تمام انسانوں کو ان کے کیے ہوئے اعمال پر جزا یا سزا دی جائے گی۔ غرض یہ کہ سورج یا چاند کے گرہن لگنے میں کسی مخلوق کا نہ دخل ہے اور نہ ہی پوری کائنات مل کر سورج یا چاند کے گرہن کو روک سکتی ہیں۔ اس لیے سورج یا چاند کے گرہن کے وقت صرف اﷲ تعالیٰ کی ہی پناہ مانگی جائے، اسی کے سامنے جھکا جائے اور اسی کے در پر جاکر پیشانی ٹیکی جائے کیوں کہ وہی اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک و رازق بھی۔

نبی اکرم ﷺ سورج گرہن لگنے پر مسجد میں داخل ہوکر نماز میں مصروف ہوئے تھے، اس لیے اگر ایسے موقع پر باہر نکلنے سے بچا جائے اور بہ راہ راست سورج کو نہ دیکھا جائے تو یہ عمل احتیاط پر مبنی ہوگا، کیوں کہ سائنسی اعتبار سے بھی اس نوعیت کی احتیاط مطلوب ہے، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہمارا تو ایمان ہے کہ جو تکلیف یا آسانی اﷲ تعالیٰ کی جانب سے مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گی، اگرچہ تکلیف سے بچنے اور آسانی کے حصول کے لیے تدابیر و اسباب ضرور اختیار کرنے چاہییں۔

لہذا جب بھی سورج گرہن ہوجائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ خالق کائنات کی طرف متوجہ ہوں، دو رکعت نماز اذان و اقامت کے بغیر باجماعت ادا کریں اور اﷲ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ دو رکعت سے زیادہ بھی ادا کرسکتے ہیں۔ قرأت آہستہ پڑھنی چاہیے، اگرچہ بعض علماء کی رائے میں بلند آواز کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ چاند گرہن کے موقع پر انفرادی نماز پڑھنی چاہیے، اگرچہ بعض علماء کی رائے کے مطابق جماعت کے ساتھ بھی پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اُن اوقات میں یہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے جن اوقات میں نماز پڑھنا منع ہے، اگرچہ بعض علماء کی رائے ہے کہ اوقات مکروہہ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔

سورج گرہن کے موقع پر پڑھی جانے والی نماز کو صلاۃ الکسوف، جب کہ چاند گرہن کے موقع پر پڑھی جانے والی نماز کو صلاۃ الخسوف کہتے ہیں۔ اس نماز میں قرأت، رکوع اور سجدہ وغیرہ کو اتنا لمبا کرنا چاہیے کہ نماز پڑھتے پڑھتے ہی گرہن ختم ہوجائے، کیوں کہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح ثابت ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ علمائے احناف کی رائے ہے کہ اس موقع پر دو رکعات عام نماز کی طرح پڑھی جائے اور سورج گرہن کے موقع پر جماعت کے ساتھ لیکن آہستہ قرأت سے، جب کہ چاند گرہن کے موقع پر انفرادی نماز ادا کی جائے۔ ہاں اگر کسی جگہ مثال کے طور پر سعودی عرب میں جماعت کے ساتھ ادا ہورہی ہو تو اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اِن دونوں نمازوں میں لمبے قیام و رکوع اور سجدے کیے جائیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ذکر بھی کیا جائے اور خوب دعائیں مانگی جائیں۔

حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا۔ آپ ﷺ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے (تیزی سے) مسجد پہنچے۔ صحابۂ کرامؓ آپؐ کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ ﷺ نے انھیں دو رکعت نماز پڑھائی اور گرہن بھی ختم ہوگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سورج اور چاند اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کی موت کی وجہ سے یہ گرہن نہیں ہوتے (بل کہ زمین اور آسمان کی دوسری مخلوقات کی طرح ان پر بھی اﷲ تعالیٰ کا حکم چلتا ہے اور ان کی روشنی و تاریکی اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے) اس لیے جب سورج اور چاند گرہن ہو تو اس وقت تک نماز اور دعا میں مشغول رہو جب تک ان کا گرہن ختم نہ ہوجائے۔ چوں کہ رسول اﷲ ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اﷲ عنہ کی وفات (اسی دن) ہوئی تھی اور بعض لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ گرہن ان کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ (بخاری۔ باب الصلاۃ فی کسوف القمر)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ سورج اور چاند اﷲ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے گرہن نہیں ہوتے۔ اے لوگو! جب تم کو یہ موقع پیش آئے تو اﷲ کے ذکر میں مشغول ہوجاؤ، دعا مانگو، تکبیر و تہلیل کرو، نماز پڑھو اور صدقہ و خیرات کرو۔‘‘ (مسلم ۔ باب صلاۃ الکسوف)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔