ہڈی کے گودے کی پیوند کاری کے لیے 200 اداروں کی ضرورت ہے، ڈاکٹر طاہر شمسی

رضوان طاہر مبین / اشرف میمن  اتوار 20 اگست 2017
تھیلیسمیا کی دوا سے سالانہ چھے ارب روپے بچ سکتے ہیں، ممتاز ماہر امراض خون اور پاکستان میں بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کے بانی کی گفتگو۔ فوٹو : فائل

تھیلیسمیا کی دوا سے سالانہ چھے ارب روپے بچ سکتے ہیں، ممتاز ماہر امراض خون اور پاکستان میں بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کے بانی کی گفتگو۔ فوٹو : فائل

اسکول میں براہ راست چھٹی جماعت میں داخلہ ہوا۔۔۔پیلے اسکول میں تو پھر بھی رنگ ہوا ہوتا ہے، وہاں تو دیواروں پہ پلاستر بھی پوری طرح نہ تھا، کھڑکیوں کے پٹ تھے، نہ پنکھے بتیاں۔ قدرتی روشنی اور ہوا پہ انحصار ہوتا، ماجرا یہ تھا کہ اسکول میں تعمیرات جاری تھیں کہ اِسے قومیا لیا گیا اور یوں یہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔ نویں میں آئے تو طلبہ نے چندہ کر کے پنکھے لگوائے۔ یہ ذکر ہے پاکستان میں ’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ (ہڈی کے گودے کی پیوند کاری) کے بانی ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کا۔۔۔ جب اُن کا اسکول میں داخلہ ہوا تو 1971ء اور میٹرک کیا، تو 1977ء کے غیرمعمولی برس تھے، یعنی سقوط ڈھاکا اور فوجی آمریت کا نفاذ!

ماضی کے دریچے وا کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر شمسی بتاتے ہیں کہ میٹرک کیا، تو اُن دنوں صدر کے علاقے میں شہر قائد کا پہلا شاپنگ مال ’پنوراما سینٹر‘ قائم ہوا، جہاں اُن کے دادا نے گھڑیوں کی دکان کھولی اور انہیں وہاں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ اُن کا ماننا تھا کہ جب نوکری نہیں کرنی، تو پھر آج کل کی تعلیم بے سود ہے۔ یہ شاپنگ مال ناکام ہوا، جسے وہ اپنے لیے نیک شگون قرار دیتے ہیں، اُسے جواز بنا کر انہوں نے عرضی داخل کی کہ یہاں کام اتنا ہے نہیں اور بازار ویسے بھی ساڑھے 12 بجے کھلتا ہے، تو انہیں کالج میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی جائے، یوں تقریباً ایک سال کے وقفے کے بعد وہ ڈی جے کالج کے طالب علم ہوئے، لیکن کالج سے سیدھا دکان آنے کی تاکید کی گئی، ہدایت تھی ’جو پڑھائی کرنی ہے۔

اس کے لیے دُکان کے سوا وقت نکالیں۔ کالج میں انہیں انگریزی ذریعۂ تعلیم سے واسطہ پڑا، اس دشواری کے باوجود بھی انہوں نے ٹیوشن لیے بغیر پڑھا اور اتنے نمبر حاصل کر لیے کہ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا، اس دوران دادا کے انتقال کے بعد خسارے میں چلنے والی دکان سمیٹ لی گئی۔ انٹر کے امتحانات سے فارغ ہوئے، تو نتائج کے انتظار کو ایک فارماسیوٹیکل کمپنی سے جُڑ کر کارآمد بنایا، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ بھی سیکھی، جو آج بھی کام آتی ہے۔

میڈیکل کالج میں تھے کہ 1983ء میں جنرل ضیا الحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگا دی، جس کے نتیجے میں کالج اور یونیورسٹیوں کے حالات خراب ہو گئے، پھر طلبہ تنظیموں کا تصادم ہوگیا، کئی طلبا جان سے گئے اور یوں پونے دو سال ڈاؤ میڈیکل کالج اور سندھ میڈیکل کالج بند رہے، جس کے سبب اُن کی پانچ سال کی تعلیم ساڑھے سات سال میں مکمل ہوسکی۔

کہتے ہیں کہ میٹرک کے بعد ضایع ہونے والے ایک سال کا گھاؤ آج بھی تکلیف دیتا ہے، پھر جب کالج میں ڈھائی سال تعلیم کا حرج ہوا، ایسا محسوس ہوا، جیسے سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کی لگام سختی سے کھینچ لی گئی ہو۔ میڈیکل کالج کا تیسرا سال تھا، اس دوران اپنے سے نئے طلبا کو پڑھانا شروع کردیا۔ میڈیکل کالج کے آخری برس تک وہ ہر مضمون پانچ ، پانچ بار پڑھا چکے تھے، اس کے ساتھ ہی میڈیکل میں تخصیص (Specialization) کے حوالے سے معلومات اکٹھی کیں۔ اسی دوران 1986ء میں اپنی تشخیصی لیبارٹری قائم کی، جو ’ڈاکٹر طاہر شمسی لیب‘ کہلائی اور اب ’این آئی بی ڈی‘ کے نام سے فعال ہے۔

میڈیکل کے نتائج کے بعد پہلا امتحان کالج آف فزیشنز اینڈ سرجن کا تھا، جس میں پوری جانچ ہوتی ہے کہ آپ کو کتنا آتا ہے۔ تب اس امتحان کے لیے ہاؤس جاب اور کام کرنے کی پابندی نہ تھی، وہ چوں کہ دس دفعہ اپنا نصاب پڑھا چکے تھے، اس لیے 1988ء میں ہونے والے امتحانات میں وہ بہ آسانی سرخرو ہوئے۔ پھر تخصیصی مہارت کا مرحلہ درپیش ہوا، کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں ہر ایک کا مقصد سرجن یا فزیشن بننا ہوتا تھا، شہر میں دو ہی میڈیکل کالج تھے، اس میں بھی ٹریننگ کا انتظام صرف ایک جگہ تھا، کسی نجی ادارے کا دور درو تک پتا نہ تھا۔ اسپیشلسٹ بننے کے بعد کام کرنے کے لیے جناح اسپتال یا پھر مجبوراً سول اسپتال جانا ہوتا۔

یہ وہ مرحلہ تھا جب ڈاکٹر طاہر شمسی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی نئی راہ کا چناؤ کریں اور کسی ایسے شعبے میں جائیں جس کے خصوصی ماہر یہاں موجود نہ ہوں۔ پہلے امراضیات (Pathology) کی طرف متوجہ ہوئے، مگر اس میں انسانوں سے کوئی رابطہ نہیں، سو اسے ترک کر دیا، لیکن یہاں انہیں امراض خون کی سمت چلنے کا خیال آیا۔ جس کی تدریس کی سہولت یہاں موجود ہی نہ تھی، مختلف ممالک میں جامعات کو خطوط لکھے، یہ 1988-89ء تھا، جب وہ سول اسپتال میں میڈیسن اینڈ سرجری میں ہاؤس جاب کر رہے تھے کہ برطانیہ کے ’رائل کالج آف پتھالوجسٹس‘ میں اگلے امتحان دینے کے لیے بلا لیا گیا۔

1989ء میں لندن چلے گئے، کہتے ہیں کہ سوچا بھی تھا کہ کبھی باہر جاؤں گا، دل چسپ بات یہ تھی کہ اُس امتحان کی اہلیت کے لیے میڈیکل گریجویشن اور ہاؤس جاب کے ساتھ دو ڈھائی سال کا تجربہ ضروری تھا، مگر ان کی تو ہاؤس جاب بھی پوری نہیں ہوئی تھی، لیکن پتا نہیں کس بنیاد پر انہوں نے امتحان کی اجازت دے دی، مگر مشکل یہ تھی کہ سارے امیدوار یہ مرحلہ دو ڈھائی سال کی تربیت کے بعد گزار رہے تھے اور وہ ایسے ’امتحان گزار‘ تھے جو تجربےکے میدان کورا تھا۔

وہاں ایک مہربان کی وساطت سے 12 ہفتے ایک اسپتال میں صرف کیے اور امتحان میں پورے اترے۔ کہتے ہیں کہ اس طرح 1983ء میں ہنگاموں کی بنا پر ضایع ہونے والے ڈھائی برس کی کسر نکال لی۔ امتحان میں کام یابی کے بعد لندن میں جنرل میڈیکل کونسل نے رجسٹریشن دے دی، جس سے وہاں ملازمت کی راہیں آسان ہوئیں، مگر تجربے کا خانہ خالی تھا، جس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اب اُن سے جس درجے کے کام کی توقع کی جاتی تھی، ناتجربے کاری کی بنا پر اس میں دشواریاں پیش آئیں۔ اسسمنٹ کا امتحان پانچ برس بعد ہوتا ہے، اس کے لیے مطلوبہ تجربہ ہفتے کے 40 گھنٹے کے حساب سے پانچ برس میں مکمل ہوتا ہے، لیکن انہوں نے ہفتے کے 80 گھنٹے کام کیا اور دو سال بعد ہی امتحان کام یاب کرلیا۔

اُن کی غیرمعمولی کارکردگی کے بعد انہیں وہاں ملازمت کی پیش کش کی گئی، لیکن انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ مجھے واپس جانا ہے، جس پر وہ حیران ہوئے کیوں کہ انہوں نے شروع میں ہی کہا تھا پاکستان اور ہندوستان سے آنے والے سب کہتے ضرور ہیں، لیکن ہم نے کسی کو بھی واپس جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ 1993-94ء کی بات ہے، جب کراچی میں فوجی آپریشن ہو چکا تھا، اور روزانہ بوریوں میں بند لاشیں ملا کرتی تھیں، ہفتے میں دو، تین دن کراچی بند ہوتا تھا، انہی حالات کو دیکھتے ہوئے اُن سے دریافت کیا گیا، تو انہوں نے بتایا کہ وہ اب بھی اپنے ارادے پر قائم ہیں، تاہم وہاں انہوں نے مزید ایک برس صرف کیا اور اس پر غور کیا کہ وہ لندن میں تو بنے بنائے نظام میں کام کر رہے ہیں، لیکن ایک ایسی جگہ جہاں نہ اس کی مہارت ہے اور نہ ٹیکنالوجی، جہاں انہیں سب کچھ بنانا پڑے، تو وہاں وہ کام کیسے کریں گے۔ تمام متبادل اور بہتر طریقوں کا جائزہ لیتے رہے۔

دسمبر 1994ء میں کراچی لوٹے اور یہاں سات مختلف اداروں میں اپنی درخواستیں ارسال کیں، جن میں سے صرف تین جگہ سے کوئی نہ کوئی جواب موصول ہوا۔ ابھی لاہور کاشوکت خانم کینسر اسپتال بن رہا تھا، انہوں نے کہا کہ ہم امریکی تربیت یافتہ لوگوں کو رکھ رہے ہیں۔ آغا خان اسپتال نے ایک سال بعد معذرت کی کہ ہم تقرر کر چکے ہیں۔ بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں بلایا گیا، جہاں پانچ چھے رکنی پینل نے ان کا انٹرویو کیا، جب انہوں نے بتایا کہ وہ ’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ کا شعبہ قائم کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں کہا کہ 1981ء سے ملٹری جیسا ادارہ بھی ابھی اس پر کام ہی کر رہا ہے، تو تمہاری کیا اوقات ہے۔ اگر تمہاری اگلی نسل بھی یہ کام کرلے تو بہت بڑی بات ہوگی۔

انہیں وہاں تدریس کی پیش کش کی، جو انہوں نے قبول نہیں کی۔ بعد میں ضیا الدین اسپتال نے ازخود انہیں بلایا اور کہا کہ اس کام کے لیے جو سہولیات درکار ہوں، بتا دیں۔ یوں جنوری 1995ء میں وہ ضیا الدین اسپتال کا حصہ بن گئے، جہاں انہوں نے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لیے مطلوبہ نظام بنایا اور عملے کو تربیت دی۔ وہ جانتے تھے کہ محدود وسائل میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، لیکن وہ شروع سے ہی تمام کٹھنائیوں کا سامنا کرنے کے لیے پرعزم رہے، یوں 13 ستمبر 1995ء کو پاکستان کی تاریخ کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ اس وقت سنگاپور میں بھی یہ سہولت موجود نہ تھی، البتہ سعودی عرب، ایران میں یہ سہولت آچکی تھی، جب کہ ہندوستان میں یہ سہولت 1983ء سے تھی۔

ڈاکٹر طاہر چار برس ضیا الدین اسپتال سے منسلک رہے، انہیں محسوس ہوا کہ ان کے اہداف زندگی ایک نجی ادارے سے کچھ میل نہیں کھاتے، چناں چہ اسے بطور خدمت عام کرنے کے لیے وہاں سے الگ ہوکر سرگرم ہوئے، تاہم اس کام کے لیے یہ اُن کی پہلی سیڑھی تھی۔ کہتے ہیں کہ میرے مقاصد میں کبھی پیسے کمانا شامل نہیں رہا، انہیں یقین ہے کہ جو رزق میرے لیے لکھا ہے، وہ ضرور ملے گا، اسی لیے انہوں نے خلاف روایت جگہ جگہ پریکٹس کرنے یا کلینک بنانے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم گھر چلانے کے لیے جُزوقتی طور پر ’ایس آئی یوٹی‘ (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن) سے منسلک ہو گئے۔

چار برس تک معمولات یہ رہا کہ صبح آٹھ تا دوپہر ایک بجے ایس آئی یوٹی (SIUT) میں ہوتے اور باقی وقت اپنے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے دامے درمے سخنے جت جاتے۔ اس کام کے لیے ضروری سہولیات اور مہارت سے آراستہ نظام کے ساتھ ہی اسے دیگر شہروں تک وسعت دینے کے حوالے سے کام کیا۔ تشخیص سے لے کر مکمل علاج تک تمام مراحل کے لیے فرداً فرداً لوگوں کی تربیت کی۔

یوں 2000ء میں بسم اللہ تقی فاؤنڈیشن کے ساتھ ایک بون میرو انسٹی ٹیوٹ کی داغ بیل ڈالنے میں کام یاب ہوگئے۔ سات آٹھ برس یہ سلسلہ جاری رہا، پھر جب فاؤنڈیشن کی ترجیحات بدلیں، تو پھر خوش اسلوبی سے انہیں خیر آباد کہا اور یکم جولائی 2008ء کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن (این آئی بی ڈی) کا قیام عمل میں آیا، جس نے گذشتہ چھے سات برسوں میں اسلام آباد، پنڈی ، پشاور اور لاہور تک اس سہولت کو پھیلایا۔

ڈاکٹر طاہر شمسی بتا تے ہیں کہ پاکستان میں تھیلیسمیا (Thalassemia) کے شکار بچوں کی زندگی کا اوسط دورانیہ آٹھ برس ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن (Bone Marrow Transplantation) کے ذریعے خون کے سرطان، تھیلیسمیا سمیت خون کی مختلف بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریض بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد بالکل نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ جس شخص سے یہ Bone Marrow (ہڈی کا گودا) لیا جاتا ہے، وہ 24 گھنٹے میں ریکور ہو جاتا ہے۔ تھیلیسمیا کے مریضوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کی کام یابی کا تناسب 70 سے 80 فی صد ہے، لیکن اگر صورت حال گمبھیر ہو اور جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسے بچوں میں اس کا تناسب لگ بھگ 60 فی صد ہے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ رواں برس اب تک ایک سال میں سب سے زیادہ 250 بون میرو کیے جائیں گے۔ پاکستان میں 1995ء سے اب تک کُل 1800 بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوئے ہیں، جب کہ ہر سال 10 ہزار افراد کو اس کی ضرورت پڑتی ہے، 99 فی صد اس سہولت سے محروم ہیں۔ ملک بھر میں 10ہزار بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لیے 200 ادارے درکار ہیں، جہاں سالانہ 50 مریضوں کا بون میرو ہو۔ اوسطاً ایک مریض کا علاج چھے ہفتے میں ہوتا ہے، یا پھر 500 بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنے والے 20 بڑے ادارے بنالیے جائیں۔

ابھی تک سرکاری سطح پر اس علاج کی سہولت موجود نہیں، حکومت پنجاب نے 2015ء میں کچھ بون میرو کے اخراجات اٹھائے، جب کہ وفاقی حکومت نے جولائی 2016ء سے فنڈ مختص کیے اور 22 مریضوں کے بون میرو کے اخراجات برداشت کیے۔ اس ضمن میں وفاق نے سندھ اور بلوچستان کے لیے ’این آئی بی ڈی‘ جب کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے ’سی ایم ایچ‘ راولپنڈی کو منتخب کیا ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے رواں برس مارچ میں بون میرو کے حوالے سے تفصیلات حاصل کی گئیں، جس کے بعد گزشتہ دنوں یہ خبر شایع ہوئی کہ وہ ہم سے معاہدہ کرنے والے ہیں، انہیں یقین ہے کہ آیندہ کچھ دنوں میں معاہدہ ہو جائے تو یہ ایک بڑی خوش خبری ہوگی۔

ڈاکٹر طاہر شمسی امراض خون میں اضافے کا ایک بڑا سبب اس کی تشخیص ہوجانا بتاتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ بیماریاں پہلے بھی ہوتی تھیں، لیکن مرض کا پتا ہی نہیں چلتا تھا اور مریض موت کے منہ میں چلا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں بہت سی خون کی بیماریوں کی تشخیص کی سہولت چند سال پہلے ہی میسر ہوئی۔ بلڈ کینسر مکمل قابل علاج ہے، اس کی بروقت اور درست تشخیص ضروری ہے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی اینیمیا (خون کی کمی) کے حوالے سے صورت حال کو بہت زیادہ تشویش ناک قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ 15 سے 40 برس کی ہر تین میں سے دو خواتین اس کا شکار ہیں، جس کے سبب ان کی صحت اور معیار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ چکر آنا، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاجانا، کمزوری، چڑچڑاپن اور سانس پھولنا اس کی علامات ہیں۔ بچوں میں ہر دس میں سے چار بچے اس کا شکار ہیں، جب کہ مردوں میں ہر تین میں سے ایک اس میں مبتلا ہے۔ اس بیماری کا سبب موروثی نہیں ہے۔ خواتین میں اس کی وجہ غذا کی کمی، زچگی اور خون کا زیادہ اخراج ہے۔

اس کے علاوہ آلودہ پانی کے سبب پیٹ میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں، جو آنتیں زخمی کرتے ہیں اور خون چوستے ہیں۔ آج کل بوتلوں میں بند پانی میں بھی شکایات ہیں۔ اس لیے پانی ابال کر پیئیں۔ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ لڑکیوں کی غذائی ضروریات کو لڑکوں کی طرح کے مساوی طور پر پورا کیا جائے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ تھیلیسمیا میں مبتلا بچوں کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ ماں اور باپ اگر تھیلیسیمیا مائنر کے حامل ہوں، تو ان کے بچوں میں تھیلیسمیا میجر ہونے کے خدشات ہوتے ہیں، جس میں بار بار خون لگوانا پڑتا ہے۔

اس مرض کی روک تھام کے لیے تھیلیسمیا مائنر کے حامل دو افراد کو شادی نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں سالانہ تقریباً دس ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ تھیلیسمیا اور دیگر موروثی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ہماری صوبائی اسمبلیوں نے قانون سازی تو کرلی ہے کہ شادی سے پہلے ٹیسٹ کرائے جائیں، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور یہ نہ ہم کرسکتے ہیں اور نہ تنہا حکومت کے بس کا کام ہے، اس کے لیے پورے سماج کو حصہ ڈالنا ہوگا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اس پر تاحال قانون سازی بھی نہ ہو سکی۔

دنیا بھر میں تھیلیسمیا کا علاج خون کی تبدیلی یا بون میرو ٹرانسپلانٹیشن ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر شمسی کے زیر نگرانی دس سالہ تحقیق کے بعد 2012ء میں بہ ذریعہ دوا تھیلیسیمیا کا علاج بھی دریافت کیا گیا۔ اس تحقیق میں ڈاکٹر ثاقب انصاری نے اہم کردار ادا کیا۔ اس بیماری کا سبب پیدائش کے بعد ہیموگلوبن کا نہ بننا ہے۔ انہوں نے 1960ء کی دہائی میں سرطان کے علاج کے لیے بنائی جانے والی دوا ’ہائیڈروکس یوریا‘ (Hydroxyurea) کی خفیف مقدار کے ذریعے بچے میں قبل ازپیدائش بننے والے ہیموگلوبن کے سلسلے کو فعال کرنے میں کام یابی حاصل کی۔ ڈاکٹر طاہر کی اس تحقیق پر پر بین الاقوامی جریدوں میں مقالے بھی شایع ہوتے رہے۔

اس موضوع پر پر ان کے زیرنگرانی جامعہ کراچی کے دو طلبا پی ایچ ڈی، جب کہ تین افراد فیلو شپ ٹریننگ پوری کرچکے ہیں۔ مزید چار طلبا کی پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اس دوا کا استعمال پیدائش کے بعد جوں ہی تھیلیسیمیا کی تشخیص ہو، شروع کیا جا سکتا ہے اور پھر مستقل استعمال کرنا ہوتا ہے، تاہم پھر خون نہیں لگوانا پڑتا۔ کہتے ہیں ابھی یہ دوا چند ہزار بچوں میں استعمال کی جا رہی ہے، ہر گزرنے والا دن اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس میں کام یابی کا تناسب 40 فی صد ہے۔ اس ضمن میں وہ ڈاکٹر ثاقب انصاری کی محنت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

تھیلیسمیا کے حوالے سے اعدادوشمار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ ملک میں ایک لاکھ بچے اس کا شکار ہیں، جنہیں اوسطاً ایک ماہ بعد خون لگتا ہے، یوں سالانہ 12 لاکھ خون کی بوتلوں اور سالانہ ڈیڑھ لاکھ روپے کی دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تمام اخراجات جمع کیے جائیں، تو سالانہ 15 ارب روپے تھیلیسمیا کے بچوں کی نگہ داشت پر صرف ہورہے ہیں۔

تھلیسیمیا کی دوا کے ذریعے علاج میں کام یابی کا تناسب 40 فی صد ہے، اس تناسب سے تقریباً سالانہ چھے ارب روپے اور پانچ لاکھ خون کی بوتلیں بچیں گی۔ خون کی یہ دست یابی دوسرے مریضوں کے کام آئے گی۔ تھیلیسمیا کے شکار دیگر ممالک ہندوستان، سعودی عرب، ایران اور بنگلادیش میں ان کے اس طریقۂ علاج سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر امراض خون کی دو نئی دواؤں کی تیاری میں بھی ڈاکٹر طاہر اور ان کی ٹیم کا حصہ ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں جب بھی کوئی نئی دوا بنتی ہے، تو اس کی پرکھ مختلف مراکز پر کی جاتی ہے، تاکہ نتائج کسی بھی شک وشبہے سے بالاتر ہوں۔

ڈاکٹر طاہر شمسی نے اپنے خوابوں کی تکمیل کے حوالے سے اظہارخیال کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی پہلی خواہش یہ ہے کہ ایسے لوگ تیار کیے جائیں، جو اُن کے بعد بھی اُن کے کاموں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھیں۔ اِس خدمت کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانا وہ ایک اہم مقصد زیست گردانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ابھی تک یہ سارا کام کسی بھی حکومتی مدد کے بغیر کیا ہے۔

بون میرو ٹرانسپلانٹ کے اخراجات کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر کہتے ہیں کہ 1995ء میں اس پر 10 لاکھ روپے لگتے تھے، جو آج 30 لاکھ تک جا پہنچے ہیں، یہ کھاتے پیتے لوگوں کی دسترس سے بھی باہر ہے۔ میرے اور میری ٹیم کے ذریعے 80 فی صد علاج بلامعاوضہ کیا جا رہا ہے۔ یہ اخراجات بغیر کسی ٹرسٹ یا فلاحی تنظیم کے کچھ مخیر افراد اٹھا رہے ہیں۔ باقی 20 فی صد مریض بیمہ، قرض یا جمع پونجی کے ذریعے بندوبست کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں تحقیق سے دوری بہت فکرمند کرتی ہے، کہتے ہیں کہ ہم جدید تحقیق کی بلندی سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں، اس لیے وہ تحقیق کا بھولا بسرا سبق یاد دلانے کے خواہاں ہیں اور اب تحقیق کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔

’’زندگی میں صرف دو فلمیں دیکھیں‘‘
ڈاکٹر طاہر شمسی 18 فروری 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، وہ تین بہنیں اور تین بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ خاندانی پس منظر میں اعلیٰ تعلیم کے رجحان کے باوجود کاروبار کا رواج تھا، یہاں تک کہ اُن کے تایا نے بھی ’رائل فارن سروس‘ میں ملازمت کی پیش کش قبول نہیں کی۔ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید مکمل کیا، جس میں دس ماہ صرف ہوئے، آیندہ دوسال اور دو ماہ کے عرصے میں کلام پاک حفظ کر لیا، اس وقت عمر آٹھ برس تھی۔

1974ء میں پہلی بار اپنے محلے کی ’چھوٹی مسجد‘ کی دوسری منزل پر تراویح پڑھائی، یہ سلسلہ 2012ء تک بلا تعطل جاری رہا، حتیٰ کہ انگلستان میں بھی اس سلسلے میں کوئی رخنہ نہ پڑا، لیکن اس کے بعد مصروفیات آڑے آئی، کہتے ہیں اس کا سبب یہ بھی ہوا کہ رمضان اُن دنوں میں آنے لگے، جب سفر زیادہ درپیش رہتا ہے۔ اس لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ انہوں نے پرائمری اسکول تک تدریس غیررسمی طور پر حاصل کی۔ والد نے چچا کے ساتھ مل کر اسٹیشنری کا کام کیا، مگر یہ اس قدر وسیع نہ تھا کہ آگے ہم بھی اس کا حصہ بنتے، اس لیے خود ہی بھاگ دوڑ کر کے تعلیمی اخراجات پورے کیے۔

رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر بتاتے ہیں کہ 1990ء میں انگلستان میں تھے کہ والدہ کا فون آیا کہ ہم تمہاری منگنی کر رہے ہیں، اور دسمبر میں شادی ہے، آجانا۔ شادی سے پہلے تصویر میں بھی اپنی شریک حیات کو نہیں دیکھا تھا۔ اُن کی نصف بہتر خاتون خانہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گھر بنانا اور چلانا بے حد اہم اور محنت طلب کام ہوتا ہے۔

شادی کے بعد ولایت پلٹ گئے، ایک بیٹے اور بیٹی کی ولادت انگلستان میں ہوئی، جن کی اب شادی ہو چکی اور اب وہ صاحب اولاد ہیں، جب کہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں  نے کراچی میں آنکھ کھولی، چھوٹے بیٹے کا اسکول مکمل ہو رہا ہے ، جب کہ دونوں صاحب زادیاں بالترتیب ساتویں اور پانچویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ بڑے صاحب زادے ہاسپٹل مینجمنٹ کے شعبے میں ہیں، جب کہ چھوٹے بیٹے اپنے والے کے نقش پا کے تعاقب کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر شمسی صبح ساڑھے چھے بجے ناشتا اور رات کا کھانا بچوں کے ساتھ کھاتے ہیں۔ روزانہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتے ہیں اور پانچ، ساڑھے پانچ بجے گھر لوٹتے ہیں۔ ’این آئی بی ڈی‘ کے قیام اور تعمیر کے زمانے میں گھر سے نکلنے کا تو وقت مقرر تھا، لیکن واپسی کا نہیں۔ دفتر سے گھر جا کر اپنے لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں۔

تحقیقی مقالوں یا لیکچروں کی تیاری کے سارے مراحل علی الصبح چار بجے اٹھ کر کرتے ہیں۔ جب خاص کام نہیں ہو، تو کچھ تاخیر سے اٹھتے ہیں۔ صبح سویرے ہی اپنے موبائل پر تازہ اخبار پر نگاہ ڈال لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تفصیلات نہیں پڑھتا، کیوں کہ اب تو سرخیاں ہی دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ آگے کیا کہا گیا ہوگا۔‘ ٹی وی دیکھنے میں زیادہ دل چسپی نہیں۔ زندگی میں دو بار سینما میں فلمیں دیکھیں، ایک انٹر کے امتحان کے جنگ عظیم دوم کے موضوع پر بننے والی فلم The Guns of Navarone، جب کہ دوسری فلم لندن میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رابن ہڈ کی تھی۔

کہتے ہیں ہماری تربیت یہ تھی کہ چھپ کر ہمیشہ غلط کام ہوتا ہے ، اس لیے کبھی چھپ کر کوئی کام نہیں کیا۔ گھر میں ہوں تو سفید کاٹن کی شلوار قمیص یا کرتا پاجاما زیب تن کرنا پسند کرتے ہیں، رنگوں میں وہ فیروزی زیادہ پسند ہے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی دنیا بھر میں بہ یک وقت کئی مراکز میں آن لائن لیکچر بھی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے پڑھانے کا انداز دو طرفہ ہوتا ہے، طلبہ کو کوئی بھی مسئلہ دے دیا جاتا ہے، پھر انہیں راہ نمائی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف جامعات کے گروپس اور ’ایچ ای جے‘ جامعہ کراچی میں ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی ان کے پاس آتے ہیں۔

مغرب پر انحصار نہیں کر سکتے، خود تحقیق کرنا پڑے گی
ڈاکٹر طاہر شمسی کا خیال ہے کہ تحقیق سے دوری مسلمانوں کی بربادی کی ایک اہم وجہ ہے، اس لیے انہوں نے ’این آئی بی ڈی‘ میں باقاعدہ تحقیق کا شعبہ قائم کیا ہے، جہاں بنیادی سائنس سے کلینکل سائنس تک مختلف تحقیقی شعبہ جات ہیں۔ وہ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن اور دیگر امراض خون کے حوالے سے اب تک 30 ڈاکٹروں کو تربیت دے چکے ہیں۔ انہوں نے یہ کام آن جاب ٹریننگ کے دوران بلامعاوضہ کیا۔

ان کے اب تک 150 تحقیقی مقالے دنیا بھر کے مختلف جرائد میں شایع ہوچکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ نویں صدی عیسوی میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی مراکش میں مسلمان خاتون نے بنائی، جو آج بھی موجود ہے۔ دنیا کا پہلا انفیرمری (Infirmary) بھی مسلمان ماہرین کے دیے گئے تصور پر بنا۔ ہمارے یہاں جیسی تیسی تحقیق کر کے الماریوں میں بند کر دی جاتی ہے، اسے سماج کی فلاح یا ترقی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحقیق کو مفید عملی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ ہم ہر راہ نمائی کے لیے مغرب کی طرف دیکھتے ہیں، وہاں تحقیق ہوئی کہ تپ دق (ٹی بی) کم ہونا شروع ہوگئی، جب ہم یہ تحقیق پڑھاتے ہیں، تو طلبہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے حساب سے تو یہ مرض بڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی اس صورت حال کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمیں اپنے سماج میں بیماریوں کی درست شرح کا ہی نہیں پتا، بہت سی بیماریاں مغرب کا نہیں، ہمارا مسئلہ ہیں، اس کے لیے ہمیں خود ہی تحقیق کرنا پڑے گی۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی وجۂ موت حرکت قلب بند ہونا لکھ دی جاتی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دل بند ہوگا، تو موت واقع ہوجائے گی، یہ کھوج نہیں لگائی جاتی کہ دل بند ہوا کیوں؟

سات پیڑھیوں کا شجرہ ہے!
ڈاکٹر طاہر شمسی یوں تو طبی تحقیق کے شہ سوار ہیں، لیکن وہ اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے بھی گہری آگاہی رکھتے ہیں اور انہوں نے ذاتی دل چسپی سے اپنی آٹھ پشتوں کا شجرہ بھی مکمل کیا ہے، یہی نہیں، بلکہ وہ اپنے جد امجد لکشمین داس گابا کے بارے میں بھی بتاتے ہیں، جنہوں نے جناب شمس الدین ولی سبزواریؒ کی دعوت پر اسلام قبول کیا اور پھر عبداللہ گابا کہلائے۔

ان کے نام کے ساتھ ’شمسی‘ کا لاحقہ اسی نسبت سے ہے۔ ڈاکٹر طاہر کے آباؤ اجداد پنجاب سے دلی آئے، پرکھوں کا مسکن دریائے جہلم کے دوسرے کنارے پر واقع پرانا بھیرہ تھا۔ وہاں سے پہلے سعد اللہ جان آئے اور شاہ جہاں کے وزیراعظم بنے، جس کے بعد کچھ لوگ پرانی دلی کے ریلوے اسٹیشن کی جگہ آکر بسے۔ انگریزوں کے دور میں بَلّی ماران اور کِشن گنج آگئے، جب کہ بٹوارے کے بعد کراچی اُن کا مستقل مسکن ہوا۔

’’انگریزی نہیں پڑھی جاتی‘‘
ڈاکٹر طاہر شمسی اِن دنوں روزانہ آدھا پونا گھنٹا دیگر کتب کے مطالعے پہ صرف کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنے شعبے میں سب کچھ انگریزی میں لکھنے، پڑھنے اور بولنے کے باوجود اب بھی وہ کہتے ہیں کہ ’انگریزی نہیں پڑھی جاتی‘ اگرچہ چھے کتابوں کے مصنف ہیں، جو دنیا بھر میں پڑھائی جاتی ہیں، لیکن مطالعہ وہ ہلکی پھلکی اردو نثر کا ہی کرتے ہیں۔ کسی قسم کے افسانے یا ناول وغیرہ ان سے نہیں پڑھے جاتے۔ سب سے پہلے شوکت تھانوی اور الطاف حسین حالی کو پڑھا، گھر میں چچا اور دیگر بزرگ ابن صفی کو پڑھتے تھے، اس لیے بچپن میں اردگرد ان کی کتب موجود رہتی تھیں، اب بھی جو کتاب دکھائی دے خرید لیتے ہیں، پورے پورے سیٹ ان کے ذخیرے میں شامل ہیں، جو ان کے بچوں نے بھی پڑھے۔

کہتے ہیں کہ اس سے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی نشست وبرخاست اور چناؤ اور برتاؤ کی تمیز آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خان، شفیق الرحمن کو بھی بچپن میں پڑھا، جن کی وجہ سے اردو کی سمجھ آئی، مستنصر حسین تارڑ کے کچھ سفرنامے بھی پڑھے۔ ایسی تمام کتابوں سے گھر میں دو تین الماریاں بھری ہوئی ہیں۔ اپنے شعبے سے متعلق کتب وہ دفتر میں ہی رکھتے ہیں۔ چوں کہ اندرون وبیرون ملک سفر درپیش رہتے ہیں، اس لیے کتابوں کی خریداری ایئرپورٹ سے ہی کرتے ہیں، اور دوران سفر یا جب بھی فرصت ہو، پڑھ ڈالتے ہیں۔

تخلیق کائنات کا موضوع زیر مطالعہ ہے
ڈاکٹر طاہر شمسی گذشتہ کچھ سالوں سے تخلیق کائنات کے حوالے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش رہے ہیں۔ ’بگ بینگ تھیوری‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ قرآن پاک کے سترہویں سپارے میں ہے کہ زمین وآسمان شروع میں ایک تھے، پھر ہم نے انہیں الگ کیا اور پھیلایا۔ کلام پاک یہ بھی کہتا ہے کہ ہم نے زندگی کی شروعات پانی میں کی (پانی سے نہیں)۔ اس تجسس نے انہیں پڑھنے پر مجبور کیا، کہ یہ کائنات اور اجرام فلکی پر کلام پاک میں کیا لکھا ہے اور ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ قرآن ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے، لیکن ہمیں بچپن سے آج تک جزا وسزا اور انبیا کے حالات کے سوا اور کچھ نہیں سمجھایا گیا۔ انہوں نے اپنے دنیا بھر کے سفر کے دوران بھی اپنی اس تشنگی کو دور کرنے کے لیے مختلف جگہوں کا دورہ کیا اور ان چیزوں پر کام کرنے والے ماہرین سے ملے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد قرآن زیادہ بہتر سمجھ میں آنے لگا۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کی زمین پر آمد لگ بھگ 10 ہزار برس پرانی بات ہے، لیکن اب دنیا میں 10 سے 50 لاکھ سال پرانے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے محفوظ اجسام ملے ہیں، جن کا ڈی این اے مختلف ہے، لیکن بناوٹ میں کوئی فرق نہیں۔ آخر یہ مخلوق کون تھی؟ ان سولات کے جواب کی کھوج لگاتے ہوئے وہ مختلف فلسفیوں کو پڑھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔