پریشان حال دماغ صرف جسم ہی نہیں سماجی رشتوں کو بھی تباہ کر دیتا ہے

نیاز عاطف (میڈیکل پامسٹ)  اتوار 20 اگست 2017
خوشحال اور آ سودہ زندگی کا ہماری ذہنی حالت سے گہرا تعلق ہے۔ فوٹو : فائل

خوشحال اور آ سودہ زندگی کا ہماری ذہنی حالت سے گہرا تعلق ہے۔ فوٹو : فائل

ڈپریشن،اینگزائٹی اور سٹریس کا جدید دور کے مہلک ،موذی اور خطر نا ک عوارض میں شمار ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثریت کسی نہ کسی حوالے سے ذہنی تناؤ، اعصابی دباؤ، نا اْمیدی اور تشویش میں مبتلا ہے اور افسوسسناک امر یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر افراد اس کے ادراک سے قاصر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مْطابق ہر سال ڈپریشن اینگزائٹی اورسٹریس جیسے امراض کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 10 سال کے دوران پاکستانی شہریوں میں ذہنی امراض میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان دماغی امراض کی وجہ سے نفسیاتی و سماجی مسائل میں بھی زیادتی ہو رہی ہے۔

خوشحال اور آ سودہ زندگی کا ہماری ذہنی حالت سے گہرا تعلق ہے۔ مثبت اور تعمیری سوچ کوآسودہ حال زندگی کی دلیل خیال کیا جاتا ہے۔ ماحول کی غیر موزونیت، حالات کی نا موافقت اور معاشی و سماجی الجھنیں زندگی کو اس قدر پیچیدہ نہیں بناتیں جس قدر ہم منفی و تخریبی سوچ کے انداز سے خود اپنے لئے زندگی کو مشکل اور تکلیف دہ بنا لیتے ہیں۔

علاوہ ازیں بدمزاجی، چڑچڑا پن، دوسروں کو کمتر خیال کرنا اور روپے پیسے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ طب ِ قدیم کی رو سے انسانی جسم میں پائے جا نے والے اخلاط صْفراء ، سوداء، بلغم اور خون میں سے کسی ایک کی کمی یا زیادتی بالخصوص سوداء کی زیادتی اور خون کی کمی دماغی و ذہنی امراض کا باعث بنتی ہے۔

سوداء کا غلبہ ہو جانے سے دماغی جھلیوں میں خشکی بڑھ جاتی ہے اور خلیات کو خون کی رسد باہم نہ ہوپانے کی وجہ سے ذہنی صلاحیتوں میں کمزوری واقع ہونے لگتی ہے، کیوں کہ انسانی دماغ پورے جسم کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے اور بدنِ انسانی کی تمام تر صلاحیتوں کا دارو مدار بھی دماغی کار کردگی پر ہو تا ہے۔ عضلات کے ذریعے جسم کے تمام نظام دماغ کے زیرِ انتظام افعال سر انجام دیتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دماغی آسودگی،صحت مندی اورمضبوطی پورے بدنِ انسانی کی درستگی، صحت اور مضبوطی کی دلیل ہے۔

خلط سودا کی زیادتی پریشان خیالی ،وسواس،وہم مایوسی ،افسردگی ناامیدی ،بے یقینی کی کیفیت اور خوف کی حالت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ہر وقت سوچوں میں غلطاں رہنے کی عادت اورچہرے پر بارہ بجے رہنے کی کیفیت دماغی کمزوری اور ذہنی بے چینی کی علامات میں زیادتی کا باعث بنتی ہیں۔ علاوہ ازیں نفرت، ناکامی، انتقام اور حرص و ہوس جیسے قبیح جذبات بھی ذہنی بیماریاں بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عشق، محبت میں مایوسی ہونا، کاروباری معاملات میں نقصانات اٹھانا بھی دماغی و نفسیاتی امراض کی وجہ بنتے ہیں۔

جدید طبی تحقیقات کی رو سے دماغی میٹابولزم میں خرابی پیدا ہو جانے سے دماغی پیغام رساں خامرات نیورو ٹرانس میٹرزکی کار کردگی متاثر ہو نے کی وجہ سے دماغی امراض رو نما ہو نے لگتے ہیں۔ علاوہ ازیں نیورو پائین فرائن اور سیروٹونن کے افراز میں کمی واقع ہونے یا دماغی خلیوں تک مناسب رسائی نہ ہو نے کی وجہ سے بھی ذہنی عوارض پیدا ہونے لگتے ہیں۔

انسانی جسم میں وٹامن بی 12 اور فولک ایسڈکی مطلوبہ مقدار میں کمی واقع ہونے اور سکون آور ادویات کے متواتر اور بے دریغ استعمال کرنے سے دماغی شرائن تک خون کے سرخ ذرات کی باقاعدہ رسد میں رکاوٹ پیدا ہونا،بلڈ پریشر،ذیا بیطس،دائمی قبض،اچانک حادثات،ذہنی صدمات، طویل عرصے تک نیند پو ری نہ ہو سکنا،مقاصد میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہونا اورازدواجی الجھنوں میں گھرے رہنا بھی ذہنی اور دماغی امراض کا سبب بنتے ہیں۔

متواتر اور لگاتار سوچتے رہنے سے اعصابی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔تفکرات میں گھرے رہنے سے نظامِ انہضام بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات بھوک کی کمی و اقع ہو جانے سے مریض کئی کئی روز کچھ کھاتا پیتا نہیں جس کی وجہ سے جسمانی عوارض پئدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر ذہنی مسائل کا بر وقت تدارک نہ کیا جائے تو مریض مایوسی،تشویش اور نا امیدی میں مبتلا ہو کر سکون آور ادویات کی طرف مائل ہو نے لگتا ہے۔وہ کسی بھی ایسے ذریعہ کی تلاش کرتا ہے جو اسے اس بے چینی،اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت سے نجات دلائے۔

اس مقصد کے لئے وہ جائز اور ناجائز ہر دو طریقے اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ایسا کرنا مریض کی صحت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔بد نصیبی سے ہمارے ملک میں صحت کے حوالے سے لوگوں میں پوری طرح سے شعور اجاگر نہیں ہو پایا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی ذہنی کیفیات معالج اور اپنے دوست و احباب سے بیان کرنے میں قباحت محسوس کرتے ہیں۔ اگر ابتداء سے ہی ذہنی مسائل کے متعلق ادراک حاصل کرلیا جائے تو بعد ازاں کئی ایک نفسیاتی اور سماجی الجھنوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔