کرپشن، احتساب

جاوید قاضی  ہفتہ 19 اگست 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہم جس ملک میں رہتے ہیں، آج کے دور کے حوالے سے اسے اگر ہم پوسٹ پاناما پاکستان کہیں تو شاید موزوں ہوگا۔ یہ اصطلاح شاید سب سے پہلے میں نے ہی متعارف کروائی تھی کسی کالم کے ذریعے۔ اس کے بعد یہ اصطلاح انگریزی اخباروں کے کالمز کی بھی زینت بنی۔ قصہ مختصر یہ کہ اب بہت وقت گزرنے کے بعد کرپشن کے خلاف کچھ نہ کچھ حقیقتاً ہونے جا رہا ہے۔

اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ احتساب کے بہانے ٹریس پاس کیا جاتا تھا۔ اب جو ادارہ بنیادی طور پر صرف احتساب کے لیے ہی بنا ہے، وہ خود ہی صحیع معنوں میں فعال نہ ہو سکا۔ یوں تو اس ادارے کا سربراہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ میں بیٹھے لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کی رضامندی سے منتخب ہوتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو نہ پیپلز پارٹی اس سے راضی ہے، نہ مسلم لیگ (ن)۔ اور دونوں پارٹیاں، پارلیمنٹ میں حزب اقتدار بھی ہیں اور حزبِ اختلاف بھی۔ سندھ حکومت تو جیسے نیب سے خوفزدہ سی ہے۔

میں پہلے بھی نیب کے قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کی قانون سازی کے حوالے سے حالیہ واقعات پر ایک Academic (علمی) کالم لکھ چکا ہوں۔  لیکن سندھ اسمبلی کا نیب کے خلاف قانون سازی کرنا نہیں بنتا تھا۔ خیبر پختونخوا نے بھی نیب کی حدود کو محدود نہیں کیا۔ پنجاب اور بلوچستان بالکل خاموش رہے۔ جنرل راحیل کے دور میں جب سندھ حکومت کو پریشرائز کیا گیا اور سندھ حکومت نے بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیے، ٹپی ہو یا شرجیل میمن، مفرور ہوئے۔ خود زرداری صاحب بھی بڑے عرصے تک Scene سے غائب رہے۔ وہ شاید اس لیے بھی کہ میاں صاحب اور جنرل راحیل شریف حکومت کے خلاف ایک ہی Page پر تھے۔

لیکن جب سے ڈان لیکس اور کچھ مزید وجوہات کی بنا پر  فوج اور میاں صاحب میں ان بن ہوئی، تو یہ مفرور صاحبان واپس لوٹنا شروع ہوئے اور جب میاں صاحب کی کشتی بالکل ہی ڈوبنے لگی، یہ صاحبان اور زیادہ خود اعتماد ہونے لگے۔ انھوں نے نیب کی جڑوں کو ہی اکھاڑ دیا۔ اور آخر کرتے بھی کیا، کرپشن ان کے رگوں میں جو بسی ہوئی ہے۔ یہی ان کا کاروبار ہے۔ بڑی غور طلب بات ہے کہ ان کی نو سالہ حکمرانی میں سندھ کی بدحالی کی شاید کوئی مثال ہی نہیں۔ 90 فیصد پینے کا پانی آلودہ ہے، 20 فیصد لوگ یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔

سندھی بحیثیت قوم Mal Nutrition  ہیں۔ مگر اب وہ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان غریبوں کے لیے، غربت اور بیماریوں سے بچنے کے لیے بنیادی طور پر صرف دو ہی راستے ہیں، ایک تعلیم، دوسرا صحت۔ اور سندھ میں یہ دونوں ہی ادارے مفلوج ہیں۔ ان دونوں اداروں کو کرپشن کے سرطان نے معذور بنا دیا ہے۔ پورے ساؤتھ ایشیا میں بدترین گورننس اگر ہے تو وہ سندھ کے صوبے میں ہے۔ سندھ کا کون سا ادارہ ہے جو اس سرطان سے محفوظ ہے؟ پولیس ڈپارٹمنٹ، ایری گیشن، لوکل باڈیز وغیرہ، یہ تمام ادارے کرپشن کے مرض میں جکڑے ہوئے ہیں۔

کرپشن کی Accountbility کے لیے سندھ میں ادارہ Anti Corruption Department ہے، وہ خود کرپشن کی زد میں ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ نیب ایک مکمل ادارہ ہے، لیکن صرف ایک یہی ادارہ پاکستان میں ہے جو کرپشن کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ بہتر یہی تھا کہ سندھ حکومت KPK کی حکومت کی طرح قانون سازی کرتی۔ پہلے کرپشن کیAccountibility کے لیے ایک فعال ادارہ بناتی، جب وہ ادارہ اپنی کارکردگی میں پورا اترتا، تب سندھ حکومت سندھ سے نیب کے قانون کو رخصت کرتی۔ تب سندھ ہائی کورٹ کو حکم امتناعی دینے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔

اب آتے ہیں میاں صاحب کی طرف، جہاں تک ان کو نااہل قرار دینے کا تعلق ہے، اسے اگرچہ مان بھی لیا جائے کہ   EPZ Technically اتنی وزنی Evidence نہیں تھی، لیکن اب تو آپ کے پاس ایک بھرپور موقع ہے کہ نیب کے ٹرائلز میں آپ ثابت کریں کہ آپ بے قصور ہیں۔ اگر نیب ٹرائل کے دوران کوئی زیادتی کرے تو سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ جج موجود ہیں، جہاں آپ درخواست گزار ہو سکتے ہیں۔ یعنی جو چار ریفرنسز نیب کو بھیجے جا رہے ہیں اس کی نگرانی خود سپریم کورٹ کر رہا ہے۔

میاں صاحب کے لیے یہ عرض کرتا چلوں کہ ہمارے ملک میں جو بھی ہے بالآخر سپریم کورٹ ہی ہے، اور ہمارا آئین، قانون کی اتنی واضح صورت بنا چکا ہے کہ کوئی بھی ادارہ آسانی سے ناانصافی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے میاں صاحب نے جو الزامات سپریم کورٹ پر لگائے ہیں عوام ان الزامات کو قبول نہیں کر رہے۔

نیب ہو، FIA ہو، FBR ہو یا SECP، اپنے آپ میں اگر میرٹ پر کام کریں تو اس ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اب سوال یہ آتا ہے کہ ان اداروں کو فعال کس طرح بنایا جا سکتا ہے، آیا کہ مزید قانون سازی کی جائے یا یہ کہ ان کو سپریم کورٹ کے زیر نگرانی کر دیا جائے۔ نیب کے سربراہ قمر زماں کچھ مہینوں میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ SECP کے سربراہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ FBR کو نیا چیئرمین مل گیا ہے۔ اگر ان اداروں کو سپریم کورٹ کی زیر نگرانی کیا جائے تو یہ عمل Judicial Activism کے زمرے میں آئے گا اور چوہدری افتخار کے زمانے میں ہم اس کی سزا بھی بھگت چکے ہیں۔ اور اگر یہ کام قانون سازی پر چھوڑا جائے تو پارلیمنٹ کا حال آپ کے سامنے ہے۔ اس کو انگریزی میں کہتے ہیں ”Judge of his own cause”، جو کہ فیضؔ کے الفاظ میں

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

جب اپنا مفاد قابل عمل تھا تو آرٹیکل 62-63 میں ترمیم نہیں کی۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی کچھ مخصوص lobbies ہیں جو ووٹ تو عوام سے لیتی ہیں لیکن تکمیل اپنے مفاد کی کرتی ہیں۔ اس سے جمہوریت کو دھچکا نہیں لگتا لیکن ہمیں یہ آگاہی ہوتی ہے کہ ہماری جمہوریت ابھی تک Mature نہیں ہوئی۔ وہ اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹ لانا، اس ملک کے مفاد میں نہیں۔ ہندوستان میں جب جمہوریت نے اپنا سفر شروع کیا تو نہرو بار بار وزیراعظم بنے اور وزیراعظم کی حیثیت میں اس دنیا سے گئے۔

نہرو کی حکومت میںکورٹ بھی ان سے ڈرتی رہی، ان کے دنیا سے جانے کے بعد ہی کورٹ نے اپنی آزادی کی جنگ لڑنا شروع کی۔ ہندوستان کی جمہوریت کی ارتقائی منزلوں میں جب فوج کا کوئی کردار نہ بنا تو اندرا گاندھی بھی خود ہی ڈکٹیٹر بن گئیں۔ (یہاں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ ہندوستان میں فوج کا کردار اسی لیے نہیں بن سکا کیونکہ وہاں CIA کا کوئی وجود نہ تھا) میاں صاحب نہ تو نہرو ہیں اور نہ ہی اندرا گاندھی، وہ ایک سرمایہ دار ہیں۔ ان کے پاس جو سرمایہ ہے وہ ان کے ذریعہ آمدنی سے کیوں زیادہ ہے وہ اب نیب ثابت کریگا، پاکستان کو اس وقت مضبوط اداروں کی ضرورت ہے اور ایسی جمہوریت کی، جو آئین کی عکاسی کرتی ہو۔

پاکستان کے تمام بڑے اداروں میں جو کمزور ادارہ ہے وہ پارلیمنٹ ہے، وہ صرف ایک Elite Club کا منظر پیش کرتی ہے اور ہماری پارلیمنٹ جب ہی مضبوط ہو گی جب ووٹ کا معیار بہتر ہو گا، کیونکہ ووٹ دینا خود ایک احتساب کا عمل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔