مثبت رویے

فرح ناز  ہفتہ 19 اگست 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

70 واں جشن آزادی پورے جوش وخروش کے ساتھ پورے پاکستان میں منایا گیا، گویا چاند رات اور عید دوبارہ سے منائی گئی، آزادی سے بڑھ کرکوئی نعمت نہیں، یہ ان لوگوں سے پوچھیے جو اس وقت بھی اپنے لیے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جو جان و مال قربان ہو رہے ہیں، ظلم سہ رہے ہیں، تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں مگر آزادی کی نعمت سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے۔

ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے ان تمام افراد کا جنھوں نے اپنا آپ قربان کر کے ہمارے لیے، ہماری نسلوں کے لیے آزادی کی جنگ لڑی۔ شکریہ ادا کریں ہم اللہ پاک کا جس نے بے انتہا عالیشان ملک ہمیں دیا، جس میں اللہ پاک نے کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی، معدنیات ہو یا زراعت، دریا ہو یا سمندر یا پہاڑ ایسے ایسے خوبصورت نظارے گویا جیسے جنت نظیر ہو، بے شک ہم اللہ پاک کی کن کن نعمتوں کو گنوائیں گے۔

ان تمام نعمتوں کے باوجود ایک سرکل ناشکرا ایسا اب بھی موجود ہے جو ان تمام نعمتوں کو تہس نہس کرنے پر تلا ہوا ہے، جس کو ہر اچھائی میں برائی نظر آتی ہے جو اداروں سے لے کر عام انسانوں تک میں ایسے ایسے کیڑے نکالنے کو تیار بیٹھا ہے کہ اللہ کی پناہ۔

جو علمی طور پر کمزور تو نہیں ہے وہ ان شاطر لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں ان کے ہم قبائل بن جاتے ہیں مگر علمی طور پر درمیانہ ذہن بھی سوچتا ہے، سمجھتا ہے۔

پاکستان مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں مسلمان اپنے رب کے احکامات پر بغیر کسی ڈر و خوف کے اپنی زندگی خلفائے راشدین کی طرز پر گزار سکیں جہاں سکون ہو، انصاف ہو، قانون ہو، برابری ہو، نہ صرف ان مسلمانوں کے لیے جو ہندوستان سے آئے بلکہ ان تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی جو اس آزاد ملک کا حصہ بنے جو اس آزاد ملک کے شہری بنے، مذہب اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں 70 سال گزرنے کے باوجود وہ تمام بنیادی نکات آج بھی جوں کے توں نظر آتے ہیں جو ہم اس ملک میں رائج کرکے اس ملک کو مثالی بنانا چاہتے تھے گو کہ دیر اب بھی نہیں کہ انشااللہ ایک نہ ایک دن میرا اور آپ کا پاکستان مثالی ملک بنے گا۔

نہ ہنسیے نہ مسکرایئے یہ ضرور ہو گا۔ ایمان کامل رکھیے پاکستان کے تمام شہروں میں تمام دیہی علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کے لوگ بھی بستے ہیں اور پاکستان کے آئین کے تحت ان کو مذہبی تحفظ بھی حاصل ہے وہ اپنی عبادت گاہیں بنا سکتے ہیں اپنے طریقے سے زندگی گزار سکتے ہیں مگر کیونکہ اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ترازوکا ایک پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔

مگر ہمارا دین تو خود ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے کہ اللہ پاک صرف مسلمانوں کا نہیں تمام انسانوں، جانداروں کا رب ہے، وہی خالق ہے وہی زندہ رکھنے والا اور وہی مارنے والا ہے۔

جیسا میں نے پہلے کہا کہ کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو سپیریئر سمجھتے ہیں اور متوشش رہتے ہیں کہ ہمارے اقلیتی طبقے کو ایک مخصوص حد میں رہنا چاہیے۔ حالانکہ یہ ملک آپ کا بھی اتنا ہی ہے جتنا ہمارا ہے مگر مجموعی طور پر شکر اللہ کا کہ اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا جاتا ہے، اسکول، کالجز، یونیورسٹیز جتنی ہماری ہے اتنی ہی ان کی ہے۔

اگر زمینی طور پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کوئی بھی کرے ان کو اتنا ہی ایوارڈ ملتا ہے، اقلیتوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ان کا پاکستان کے آئین میں تحفظ ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اس بات کو سمجھیں اور اختلافات سے اپنے آپ کو دور رکھیں جتنی ہم آہنگی اور خلوص جذبات کے ساتھ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے، وہ نہ صرف انفرادی طور پر بہتر ہو گا بلکہ وہ ہمارے ملک کے مثبت پہلو کو بھی اجاگر کرنے میں بہتر ہو گا۔ ابھی حال ہی میں JDHR کے تحت بھی صحافیوں میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ جرنلزم سے منسلک افراد اپنے اپنے پروفیشن میں مثبت جذبات کو اجاگر کریں۔

یوں تو مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کبھی کبھی اتنے زیادہ جذبات میں بہہ جاتے ہیں کہ ہم جس فرقے سے ہوں صرف اسی کو درست تصور کرتے ہیں اور پھر اگر دوسرا اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کریں تو مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے تحفظات اگر ہیں تو ان کو گفتگو کے ذریعے، دلائل کے ذریعے اپنی مذہبی کتاب اور رسول اللہ ؐ کی زندگی کو دیکھتے ہوئے حل کریں، ہم خوش نصیب امتی ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں زندگی گزارنے کے لیے تمام اصول اور راستے بتا دیے ہیں، رسول اکرمؐ کی زندگی قدم بہ قدم ہمارے لیے ایک اعلیٰ ترین مثال ہے، رسولؐ پاک نے مختلف مذاہب کے افراد پر شفقت فرمائی، ان کو معاف کیا ان کے لیے ایسی اعلیٰ مثال بنے کہ وہ لوگ رسول پاکؐ کے شیدائی ہوگئے۔

یہی مثالیں ہمارے لیے بھی نمونہ ہے۔ ہم آزاد ملک کے شہری اور بہت سے ایسے لوگ ہمارے ساتھ ہمارے ملک کے شہری جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ عیسائی ہوں، ہندو ہوں، سکھ ہوں، اسماعیلی ہوں یا بوہری ہوں یہ لوگ ہمارے ساتھ کام بھی کرتے ہیں، ہمارے پڑوسی بھی ہوتے ہیں، ہمارے دکھ سکھ میں بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، ہم اپنی مذہبی اجتماعات کرتے ہیں اور یہ لوگ اپنے۔ یہ ہماری خوشیوں میں شامل ہیں تو ہمیں بھی ان کی خوشیوں کا مکمل خیال رکھنا چاہیے وہ دیوالی ہو یا کرسمس کا تہوار، چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لے کر بڑے تہواروں تک۔بس ضروری ہے کہ ہم اپنی اپنی خوشیوں کو دوسروں پر زبردستی نہ تھونپیں، کوئی ایسی چیز یا کوئی ایسا عمل نہ ہو کہ ہمارے جذبات مجروح ہوں، باہمی میل جول، سوشل سرگرمیاں نہ صرف ہمارے مذہبی جذبات کم کرتی ہے بلکہ ہمارے اندر مثبت انرجی لے کر آتی ہیں۔ حقیقتاً بحیثیت مسلمان جو حدود ہمارے لیے متعین ہیں ہمیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

تھر پارکر کا بھی حال ہی میں ایک دورہ کیا، تھر پارکر میں کیونکہ ہندو آبادی زیادہ ہیں مگر یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہاں بھی اینگرو سندھ مختلف NGO,s کے ساتھ مل کر ان مقامی آبادی کے لیے بہترین پروجیکٹ لے کر چل رہی ہے بحیثیت مسلمان یہ ہم پر بالکل فرض نہیں کہ ہم ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو یا اقلیتوں کو مسلمان کریں، یا اپنے دین کو پھیلانے کے لیے بزور بازو اقلیتوں کی خواتین سے شادی کرے یہ تمام باتیں اقلیتوں کو غیر محفوظ بنانے والی ثابت ہوتی ہے جس طرح ہم سب جشن آزادی خوشی کے ساتھ مناتے ہیں بالکل اسی طرح ہمیں ایک دوسرے کے مذہب اور ان کی آزادی کا خیال رکھنا ہوگا۔ تعلیم کی کمی اپنی جگہ مگر اس میں ہمارا صحافی طبقے کے اور میڈیا کا بڑا اہم رول ہے اور ہمیں وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے رول نبھانے ہوںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔