پولیس قتل مقدمات پیسے لیکر خراب کرتی ہے، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس  ہفتہ 19 اگست 2017
بعض مقدمات میں ملزم سچ بول رہا ہوتا ہے لیکن پولیس جھوٹ بولتی ہے، فوجداری اپیلوں میں ریمارکس، قتل کے 3 ملزمان بری۔ فوٹو : فائل

بعض مقدمات میں ملزم سچ بول رہا ہوتا ہے لیکن پولیس جھوٹ بولتی ہے، فوجداری اپیلوں میں ریمارکس، قتل کے 3 ملزمان بری۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  سپریم کورٹ نے غیرت کے نام پر 10 مئی 2005ء کو حافظ آباد میں ایک نوجوان محسن علی اور لڑکی فوزیہ کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث تین ملزمان اعجاز احمد، شاہداقبال اور محمد اقبال کو 12 سال بعد بری کردیا۔

ٹرائل کورٹ نے ملزم اعجاز احمد کو سزائے موت جبکہ دیگر دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ نے اعجاز احمدکی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا، عدالت نے دیگر دو ملزمان کی بریت کی اپیل خارج کرتے ہوئے عمر قید بحال رکھی تھی تاہم سپریم کورٹ نے قرار دیاکہ استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ۔

عدالت نے آبزرویشن دی قتل کے مقدمات میں استغاثہ کا رویہ نامناسب ہے، ایک ہی واقعہ کے دو مقدمات کیسے درج کر دیے گئے، حقائق سے ظاہر ہوتاہے کہ پولیس تفتیش کے نظام میں بہتری کیلیے تیار نہیں ہے، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر مشتمل فل بینچ نے سماعت کی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر پنجاب محمد جعفر کا کہنا تھا کہ نوجوان محسن اور فوزیہ کے قتل دو مختلف تھانوں کی حدود میں ہوئے اس لیے دو الگ مقدمات دائرکرنا پڑے۔

جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ استغاثہ کے نظام میں پولیس نے مدعی یا ملزم کی حمایت نہیں سچ کی تلاش کرنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے خرابی یہ ہے کہ پولیس مدعی کے ساتھ مل جاتی ہے اور ایف آئی آر میں دیے موقف کو ثابت کرنے کیلیے جھوٹی گواہیاں اکٹھی کرتی ہے۔ جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں، ایسے واقعات میں انسانی جانیں چلی جاتی ہیں اورکوئی سچ بولنے کو تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی پولیس سچ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے، اصل خرابی پولیس کے طریقہ کار سے پیدا ہو جاتی ہے اور ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔

فاضل جج نے محکمہ پراسیکیوشن کو ہدایت کی کہ پولیس افسران کی تربیت کیلیے ان کو اپنے تجربات سے آگاہ کیا جائے کہ کن خامیوںکی وجہ سے ملزمان بری ہوتے ہیں تاکہ آئندہ مقدمات کی تفتیش میں وہ غلطیاں نہ دہرائیں۔ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ استغاثہ کے نظام کو بہتر بنانے کیلیے ضلعی کمیٹیاں بنائی گئیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ استغاثہ کا کنڈکٹ درست نہیں ہے، پولیس قتل کے مقدمات میں پیسے لے کرکیس خراب کرتی ہے بعض مقدمات میں ملزم سچ بول رہا ہوتا ہے لیکن پولیس جھوٹ بول رہی ہوتی ہے۔ پولیس تفتیشی نظام میں بہتری کیلیے کچھ بھی کرنے کوتیارنہیں۔

عدالت نے ایک اور مقدمہ میں ملزم شمروزکی بریت کیخلاف طارق محمود کی درخواست خارج کردی، ملزم پر چکوال میں مبینہ ڈکیتی کے دوران گھر میں موجود خاتون ساجدہ پروین کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے تیسرے مقدمہ میں راولپنڈی میں مبینہ طور پر80 سالہ خاتون کے قتل میں ملوث ملزم محمدیوسف کی بریت کیخلاف محمد اقبال کی درخواست بھی خارج کر دی۔ چوتھے مقدمہ میں فاضل بینچ نے منشیات اسمگلنگ کے مجرم نبی گل کی عمر قید کی سزا برقرار رکھتے ہوئے بریت کی درخواست مسترد کر دی۔ مجرم سے کوہاٹ میں 6 کلو چرس اور 10 کلو افیون برآمد ہوئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔