کشمیر کا فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟

وسیم نقوی  ہفتہ 19 اگست 2017
 اچکزئی صاحب آپ نے جب بھی بولا پاکستان کے خلاف ہی بولا، معلوم نہیں آپ کتنی بار کشمیر گئے، کتنے کشمیریوں سے ملے، کشمیر کی سرزمین سے کس حد تک واقف ہیں؟ فوٹو: فائل

اچکزئی صاحب آپ نے جب بھی بولا پاکستان کے خلاف ہی بولا، معلوم نہیں آپ کتنی بار کشمیر گئے، کتنے کشمیریوں سے ملے، کشمیر کی سرزمین سے کس حد تک واقف ہیں؟ فوٹو: فائل

انسان کے دو ہاتھوں میں سے اگر ایک میں تکلیف ہو تو اُس ایک ہاتھ کی تکلیف کی وجہ سے دوسرے ہاتھ کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ اُسی کا علاج کیا جاتا ہے جس میں تکلیف ہو یا کوئی بیماری ہو۔ اگر کوئی ڈاکٹر ایک بازو کی تکلیف کے باعث دوسرے کا بھی علاج شروع کردے تو اُس ڈاکٹر کی ڈگری کا ضرور پتہ لگوالینا چاہیئے کہ وہ حقیقی ڈاکٹر ہے یا ڈاکٹروں کا بھیس بدل کر بیٹھا ہوا ہے۔
ایسا ہی معاملہ کچھ یہاں بھی درپیش ہے جب پاکستان کے رکن قومی اسمبلی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے حالیہ انٹرویو میں شوشہ چھوڑتے ہوئے بیان داغ دیا کہ،
’’مسئلہ کشمیر کا حل اُس کی آزادی ہے اور پاکستان اس میں پہل کرے‘‘
صدقے جائیے، واری جائیے اچکزئی صاحب پر کہ جب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کہہ رہے ہیں کہ، مسئلہ کشمیر کا حل بندوق کی طاقت نہیں بلکہ مذاکرات ہے۔ ایک بات اچھی طرح سمجھئے اچکزئی صاحب کہ کشمیروں کا فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں، وہ آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق یہ کشمیریوں کا فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ وہ سُناچکے ہیں اور 70 برس سے مسلسل دنیا کو سُنارہے ہیں۔
یہ فیصلہ کشمیریوں نے پاکستان کے یومِ آزادی پر پاکستان کا پرچم لہرا ہر بار سنایا اور بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ میں بدل کردکھایا۔ یہ فیصلہ تب تب سنایا جاتا ہے جب بھارت مظالم سے کسی ماں کا بیٹا شہید ہوتا ہے اور اُس کا جنازہ پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر شان و شوکت سے اٹھایا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ تب تب سنایا جاتا ہے جب کشمیری لڑکیاں درس گاہ جاتے ہوئے بھارتی ظلم کے سامنے دیوار بن کر اپنا مقصد حاصل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔
اچکزئی صاحب آپ کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ کشمیریوں کو آزادی چاہیے لیکن بھارت کے ظلم وستم سے، جابرانہ تسلط سے۔ کاش کہ آپ اپنے لبوں کو اِس بے تکان گفتگو کے بجائے بھارت کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کیخلاف  حرکت دیتے۔ کاش آپ کو برہنہ سر خواتین پر ہونے والا وہ ظلم نظر آتا، نوجوانوں کے لاشے اور اُن پر تڑپتی ماں، بوڑھا باپ نظر آتا لیکن افسوس اچکزئی صاحب آپ نے جب بھی بولا پاکستان کے خلاف ہی بولا۔
معلوم نہیں آپ کتنی بار کشمیر گئے ہیں، کتنے کشمیریوں سے ملے ہیں، کشمیر کی سرزمین سے کس حد تک واقف ہیں؟ اگر آپ کو بھارت کا کشمیر میں ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا تو پاکستان کے حصے آزاد کشمیر میں ہی چلے جائیں وہاں کا امن و سکون، لوگوں کے چہروں پر اطمینان، جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر اور وہاں کے لوگوں کی پاکستان سے محبت ہی دیکھ لیں پھر آپ کو اندازہ ہو کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق۔
اچکزئی صاحب افغانستان کے پیار میں اِس حد تک نابینا ہوگئے ہیں کہ اِن کو افغانستان کے مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ کشمیریوں کو اُن کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیں لیکن پاکستان کے جس صوبے میں آپ کا پورا خاندان حکمرانی کر رہا ہے اور وفاق سے جس پیار و محبت سے آپ جڑ کر بیٹھے ہیں پہلے وہاں کے حالات بہتر کریں، اپنے خاندان کے افراد سے اُن کے حلقوں میں کارکردگی دریافت کریں، صوبے اور عوام کی حالت زار دیکھ کر تو معاملہ صاف نظر آتا ہے کہ کون کس سے آزادی چاہتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔