زرعی زمینوں پر منڈلاتا خطرہ ۔۔۔

اشرف مغل  جمعرات 14 فروری 2013
سیم تھور کا مسئلہ فوری اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔  فوٹو: فائل

سیم تھور کا مسئلہ فوری اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ فوٹو: فائل

خیرپور: کسی زمانے میں ضلع خیرپور زرعی اعتبار سے مالامال تھا۔ میدانی، ریگستانی اور کچے کے وسیع علاقے کی زمین زرخیز تھی۔ ہر قسم کے باغات تھے۔ ہر نوع کی فصل اگتی تھی۔ گو کل کی طرح آج بھی خیرپور کے باسیوں کا انحصار زراعت ہی پر ہے، مگر اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔

زرعی زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے نہری پانی بنیادی ضرورت ہے، مگر دریائے سندھ سے نکلنے والی چار بڑی نہروں روہڑی کینال، میرواہ کینال، ابل واہ اور نارہ کینال سطح زمین سے بُلند ہیں، جس کی وجہ سے خیرپور کی زرعی اراضی سیم تھور کا شکار ہو گئی ہے۔ صورت حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ ایک سو سے زاید دیہات اور متعدد قبرستان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ کوٹ ڈیجی میں موجود قلعہ، مزارات، مساجد اور دیگر آثار بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ایسے بھی زمیں دار ہیں، جن کی پوری زمین سیم تھور کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ وہ اِس تباہی پر ماتم کناں ہیں کہ اُن کا گزر بسر کھیتی باڑی پر تھا، مگر جب کھیت ہی نہیں ہوں گے، تو زندگی کیسے گزرے گی۔

لاکھوں ایکٹر زرعی زمین سیم تھور کے باعث قابل کاشت نہیں رہی۔ کوٹ ڈیجی، گمبٹ، سوبھو ڈیرو، ٹھری میرواہ اور دیگر علاقوں میں سیم کا پانی کھڑا ہے۔ روہڑی کینال کے اطراف تباہی پھیلی ہے۔ متاثرہ علاقوں کے مکین نقل مکانی کر گئے ہیں۔

ایوب خان کے دور حکومت میں خیرپور سے سیم تھور کے خاتمے کے لیے اسکارپ کا پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت سیم زدہ علاقوں میں پانچ سو سے زاید ٹیوب ویل لگائے گئے، تاکہ سیم کے پانی کو نالیوں کے ذریعے نہری پانی میں ملا کر قابل استعمال بنایا جائے، مگر بدعنوان ملازمین اور حکومت کی عدم توجہی کے باعث 99 فی صد ٹیوب ویل ناکارہ ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے سیم تھور کے مسئلے میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ زراعت سے وابستہ افراد کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، زرعی معیشت تباہ ہونے سے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑیں گے۔

آبادگار طبقہ پہلے ہی محکمۂ زراعت کی دشمن پالیسیوں کے باعث پریشان ہے۔ مارکیٹ میں جعلی کھاد، ناقص بیج اور مضر ادویات کی بھرمار ہے، جو زراعت پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے۔ آبادگار زرعی پانی کی کم یابی سمیت کئی مسائل کا شکار ہیں۔ اُنھیں یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ زرعی اراضی برباد ہو گئی، تو گزربسر کیسے ہوگا۔

اس ضمن میں حکومت کو فوری نوٹس لیتے ہوئے ٹھوس انتظامات کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو نہ صرف آبادگارشدید متاثر ہوں گے، بلکہ حکومت بھی ریونیو کی صورت میں ملنے والے اربوں روپے سے محروم ہوجائے گی۔ بھاری نقصان ہوگا۔ منہگائی بڑھ جائے گی، اور عوام کے لیے جینا دوبھر ہوجائے گا۔

ماہرین کے مطابق اگر اس جانب فوری توجہ نہیں دی گئی، تو خیرپور کی ضلعی زرعی بنجر ہوجائے گا، مکین نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔ خیرپور میں پہلے ہی عوام کی بڑی تعداد بے روزگار ہے، اگر سیم تھور پر قابو نہیں پایا گیا، تو حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ ضلع قحط اور خشک سالی کا شکار ہوجائے گا۔

خیرپور کے آبادگار اِس ضمن میں حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالات بھی سیم تھور کے خاتمے کے لیے بند ٹیوب ویل چلانے، زرعی اصلاحات اور کھاد بیج ،ادویات کے معیار کو بُلند کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ وقت بھی ان اقدامات کا متقاضی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔