میرے درد کی دوا کرے کوئی۔۔۔

شاہ حسین ترین  جمعرات 14 فروری 2013
نکاسی آب کا ناقص نظام: ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا بنیادی سبب۔ فوٹو: نسیم جیمز

نکاسی آب کا ناقص نظام: ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا بنیادی سبب۔ فوٹو: نسیم جیمز

کوئٹہ: یوں توکوئٹہ کے شہریوں کو آج کئی مسائل کا سامنا ہے، مگر سب سے اہم مسئلہ نکاسی آب کا برسوں پرانا، خستہ حال نظام ہے، جسے گذشتہ چار عشروں سے، آبادی میں اضافے کے باوجود، اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔

یہی سبب ہے کہ نکاسی آب کا نظام موجودہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ سیوریج سسٹم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرنے کے باعث ایک جانب جہاں صفائی کے مسائل سنگین ہوگئے ہیں، وہیں ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بیش تر نالیاں بند ہوگئی ہیں، سیوریج کا پانی سڑکوں پر کھڑا ہے۔ خصوصاً شہر کے وسط سے گزرنے والے سٹی نالے کا تو حال برا ہے۔

حالیہ بارشوں میں نالے کا پانی اور کیچڑ نہ صرف سڑکوں پر آگیا، بلکہ ملحقہ علاقوں اور سرکلر روڈ کی دکانوں میں بھی داخل ہوگیا۔ سٹی نالے کی بندش کے باعث پانی سرکلر روڈ پر واقع مرکزی جامع مسجد میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ادارۂ تحفظ ماحولیات، بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد علی باتر کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں نکاسی آب کا نظام برسوں پرانا ہے، یہ موجودہ ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ کوئٹہ کے رہایشی علاقوں، تجارتی مراکز اور صنعتی یونٹس کا مشترکہ سیوریج سسٹم ہے، جس پر بے تحاشہ دبائو ہے، پھر نالیوں کی باقاعدگی سے صفائی نہیں ہوتی، وہ بند ہوجاتی ہیں، کچرا اور کیچڑ سڑکوں پر آجاتا ہے، جس کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جو شہریوںکے رویوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کررہی ہے، ڈیپریشن کا مرض بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیوریج سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک مربوط سروے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ گھروں، تجارتی مراکز اور صنعتی یونٹس میں یومیہ کتنا پانی استعمال ہو کر نالیوں میں شامل ہو رہا ہے۔ اس جائزے کے بعد مستقبل کی آبادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جائے، اور جدید نظام ترتیب دیا جائے۔ ساتھ ہی اِس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ سیوریج سسٹم سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہ ہو۔

یاد رہے کہ بلوچستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 2012 منظور ہوچکا ہے۔ اس بل کے تحت تمام سرکاری اور نجی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک حصہ مختص کریں۔ واضح رہے کہ ادارۂ تحفظ ماحولیات صوبے میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے وضع کردہ قوانین پر عمل درآمد کی نگرانی کرتا ہے، اورکیسز بنا کر بلوچستان انوائرمینٹل ٹریبونل کو بھیج دیتا ہے۔ آج اِسے موثر بنانے کی سخت ضرورت ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کے مطابق اگر آلودگی پر فی الفور قابو نہیں پایا گیا، تو کوئٹہ کی پچیس لاکھ کی آبادی کا نصف حصہ ڈیپریشن، امراض تنفس اور دیگر بیماریوں مبتلاہو جائیں گے۔ کوئٹہ میں سیوریج کا موجودہ سسٹم اُس وقت ترتیب دیا گیا تھا، جب آبادی تین سے چار لاکھ تھی، جب کہ آج آبادی 25 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، مگر سیوریج سسٹم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔ 2003 میں وفاقی حکومت کی مالی اعانت سے، آ ٹھ ارب روپے کی لاگت سے ،کوئٹہ واٹر سپلائی اینڈ انوائرمینٹل امپروومنٹ پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا، جس کا بڑا حصہ سیوریج سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے مختص کیا گیا، مگر دس سال گزرنے کے باوجود یہ پراجیکٹ مکمل نہیں ہو سکا۔

اب واسا حکام نے مزید فنڈز کے حصول کے لیے، لاگت میں تین گنا اضافے کا نظرثانی پی سی ون متعلقہ حکام کو ارسال کر دیا ہے۔ چیف میٹرو پولیٹن آفیسر، کوئٹہ، یعقوب زہری کے مطابق سیوریج نظام کی نالیاں چالیس سال قبل ڈیزائن کی گئی تھیں، جن میں بہتری کی ضرورت ہے، اور کارپوریشن نے اس منصوبے کے لیے اپنے بجٹ میں7 کروڑ روپے رکھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سٹی نالے کی مستقل بنیادوں پر صفائی کے لیے جلد کام شروع کیا جائے گا، اور نالے میں مشینری اتارنے کے لیے باچا خان چوک کے مقام پر (نالے پر قائم) دکانیں گرا دی جائیں گی۔

ماہرین کے مطابق ما حولیاتی آ لودگی پر قابو پانے کے لیے جہاں حکو متی اقدامات کی ضرورت ہے، وہیں عوام کے رویے میں تبدیلی بھی ازحد ضروری ہے، جس کے بغیر اِس مسئلے پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔