اللہ کرے زورِ قلم لطفِ سخن اور زیادہ

انتظار حسین  جمعـء 15 فروری 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

واقعہ خوب ہوا‘ خوب ہوا۔ منو بھائی نام خدا اسی برس کے ہو گئے۔ ہماری بے خبری ملاحظہ ہو۔ ادھر کیک بھی کٹ گیا۔ سالگرہ کا دھوم دھڑکا بھی ہو گیا۔ ادھر ہمیں پتہ ہی نہ چلا۔ اصل میں اس وقت میٹرو بس کی آمد آمد تھی۔ اس کا شور اتنا تھا کہ منو بھائی کی سالگرہ کی ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پتہ نہیں منو بھائی بڑا ہونے کے لیے ایسا وقت کیوں چنتے ہیں۔ اب سے پہلے جب وہ پچاس برس کے ہوئے تھے تب بھی انھوں نے ایسی ہی حرکت کی تھی۔ ہمارے دوست نے جب یہ سنا تو وہ چونکا کہ اچھا منو بھائی پچاس برس کے بھی ہو چکے ہیں۔ تو اس کی گولڈن جوبلی بھی منائی گئی ہو گی۔

’’ہاں منائی گئی تھی‘‘

پوچھا ’’یہ کب کی بات ہے‘‘۔

ہم نے بتایا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایلزبتھ ٹیلر نام خدا پچاس برس کی ہوئی تھیں اور بڑی دھوم سے ان کی گولڈن جوبلی منائی گئی تھی۔

یار عزیز بہت حیران ہوا اور بولا کہ اچھا منو بھائی اور ایلزبتھ ٹیلر ساتھ ساتھ پچاس برس کے ہوئے تھے۔ چشم بد دور دونوں کو ساتھ ساتھ پچاسواں برس لگا تھا۔ ہاں ایلزبتھ ٹیلر نے کیک کاٹتے ہوئے عجب فقرہ کہا تھا کہ پچاس برس کا ہو جانا عجیب سا لگتا ہے۔

اور اب ہم یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ منو بھائی کی گولڈن جوبلی کس رنگ کی منائی گئی تھی اور انھیں پچاسواں برس کیسا لگا تھا۔

بس ہمیں اتنا یاد ہے کہ ہم نے اس مبارک موقعے پر مبارک باد سے لبریز کالم لکھا تھا۔ البتہ ایک سوال ضرور اٹھایا تھا۔ یہ کہ ایلزبتھ ٹیلر بیٹھے بیٹھے تو پچاس برس کے پیٹے میں نہیں پہنچ گئیں۔ انھوں نے آدھی صدی اس شان سے گزار دی کہ باری باری چھ شوہروں کو نمٹایا۔ سو انھیں کلادے میں پچاسویں  کی گرہ لگانا اور گولڈن جوبلی کا کیک کاٹنا زیب دیتا ہے۔ تو اس بی بی کے پچاس برس کے پیچھے تو چھ شوہروں کا تجربہ بول رہا ہے۔ منو بھائی کے پچاس برسوں کے پیچھے کونسا تجربہ بول رہا ہے۔

ہاں یاد آیا۔ منو بھائی نے اس مبارک موقعے پر انکشاف کیا تھا کہ ہم تین یعنی شفقت تنویر مرزا‘ عابد شاہ اور میں ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے۔گویا یہ تثلیثی سالگرہ تھی۔ اور دوسرا گویا یہ کہ خالی ایلزبتھ ٹیلر کی ہم سنی پر ہمارا تکیہ نہیں ہے۔

اب ایلزبتھ ٹیلر کا حوالہ درمیان میں آ ہی گیا ہے تو چلیے اس قتالہ کا تھوڑا تذکرہ اور ہو جائے۔ یعنی اسی گولڈن جوبلی کے حوالے سے۔ گولڈن جوبلی سے تھوڑے دنوں پہلے سے اخبارات کی اطلاعات کے مطابق یہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ لز اپنے سابق شوہروں میں سے ایک شوہر رچرڈ برٹن کی طرف پھر مائل ہے۔ لز کی طرف سے ان قیاس آرائیوں کی بڑی شدت سے تردید ہوئی۔ مگر گولڈن جوبلی کے ہنگام  یار و اغیار نے یہ منظر دیکھا کہ وہ اسی کافر کے ساتھ رقص کر رہی ہے۔

اسے کیا کہا جائے۔ باسی کڑھی میں ابال۔ یا رچرڈ برٹن کی وضعداری۔ غور کا مقام ہے کہ اب لز پچاس کے پیٹے میں تھی۔ یعنی بھری جوانی گزر چکی تھی۔ شباب ڈھل چکا تھا۔ دیوار گلستاں میں شاید کچھ کچھ دھوپ اب بھی ہو۔ عمر کے اس موڑ پر اس قتالہٰ عالم کا ہمرقص بننا وضعداری کے ذیل میں آتا ہے۔

خیر ہم اس ذکر میں وقت کیوں ضایع کریں۔ اور ایسے وقت میں جب منو بھائی اپنی پچاسویں سالگرہ سے بہت آگے نکل آئے ہیں اور خدا نظر بد سے بچائے، اب انھوں نے اسی کی حد کو چھو لیا ہے۔ اس پر انھیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔

ویسے ایک بات ہے۔ انھوں نے عمر کی دونوں بڑی حدوں کو چھونے میں وقت اور موقعے کا بہت لحاظ رکھا ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ جب ہم سے یاروں نے پوچھا کہ کچھ یاد ہے کہ منو بھائی کب پچاس کے پیٹے میں آئے تھے تو ہم نے ترنت  ایلزبتھ کا حوالہ دیا کہ اسی مبارک گھڑی میں جب لز نے پچاس کے سن میں قدم رکھا تھا۔ اور آگے چل کر جب یار پوچھیں گے کہ منو بھائی اسی برس کے کب ہوئے تھے تو ہم بتائیں گے کہ اس ہنگام جب لاہور میں میٹرو بس چلی تھی۔ اور جب کوئی پوچھے گا کہ لاہور میں میٹرو بس کب چلی تھی تو ہم بتائیں گے کہ ان مبارک ایام میں جب منو بھائی نے اس عالم رنگ و بو میں قدم رکھا تھا۔

مسعود اشعر نے اپنے کالم میں بتایا ہے کہ منو بھائی نے ملتان میں جا کر اپنے کالم ’گریبان‘ کا آغاز کیا تھا۔ یعنی ملتان کے امروز کے صفحات میں۔ اور ’گریبان‘ کا آغاز کرتے ہی جابر علی جابر کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔ لکھا کہ جابر صاحب آپ تو فقہ جعفریہ سے پیوست ہیں۔ پھر آپ نے یہ کیا کیا کہ مولا علی کے دائیں بائیں دو جابر بیٹھا دیے۔ اور اس غیرت مند سید زادے نے فوراً ہی اپنی غلطی کی تصحیح کی اور اپنا نام اس رنگ سے بدلا کہ جابر علی جابر سے جابر علی سید بن گئے۔ مگر معاف کیجیے ایک جابر تو پھر بھی اپنی جگہ ٹکا رہا۔ بس ہم آپ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے سکتے ہیں کہ مثل کے مطابق دو تو چُون کے بھی برے ہوتے ہیں۔ جب ایک جابر کو نکال باہر کیا تو دوسرے جابر کا زور خود بخود ٹوٹ گیا۔

ہاں جب کالم ’گریبان‘ کا حوالہ آ ہی گیا ہے تو یہ پوچھ لینے کو جی چاہتا ہے کہ خیر سے ’گریبان‘ کی عمر کتنی ہو گئی۔ آخر اس کالم کا جو اولیں کارنامہ مسعود اشعر نے بتایا ہے اس کے بعد یہ پوچھنا لازم آتا ہے کہ آگے چل کر گریبان کے مصنف نے کس کس جابر کے گریبان پر ہاتھ صاف کیا۔ اور کیا مضائقہ ہے کہ اس کالم کی عمر کا تعین ہونے کے بعد مبارک گھڑی دیکھ کر اس کی بھی سالگرہ منائی جائے۔

ہاں منو بھائی میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان سے نہ عمر کچھ کہتی ہے نہ زندگی میں ہونے والے حادثے ان کے مزاج میں درہمی پیدا کرتے ہیں۔ یہی دیکھ لو کہ ابھی پچھلے دنوں وہ ایک حادثے کی زد میں آ گئے۔ لیکن جب ہم ان سے جا کر ملے تو چہرے پر وہی پہلے والی مسکراہٹ تھی اور گفتگو میں وہی لطف تھا جو سننے والوں کی طبیعت کو باغ باغ کر دیتا ہے۔ باغ و بہار طبیعت پہلے بھی تھی اور اب اسی برس کی عمر میں ایک حادثے سے گزرنے کے بعد بھی گفتگو میں گل پھول اسی طرح بکھیرتے ہیں جیسے پہلے بکھیرتے تھے۔ اللہ کرے زور قلم اور لطف سخن اور زیادہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔