جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سے طاہر القادری تک

نصرت جاوید  جمعـء 15 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اب یہ بات بہت ساری مستند کتابوں کے ذریعے ثابت ہوچکی ہے کہ گیانی ذیل سنگھ کے ایماء پر اندرا گاندھی نے سنت جرنیل سنگھ کی، اس کے عروج کے ابتدائی دنوں میں خفیہ پشت پناہی کی تھی۔ مقصد صرف اتنا تھا کہ بھارتی پنجاب میں اکالی دل کا ووٹ بینک کمزور کیا جا سکے۔  یہ مقصد آج تک حل نہیں ہوا۔ حال ہی میں اسی جماعت کے پرکاش سنگھ بادل شدید انتخابی مقابلے کے بعد وہاں کے دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئے ہیں۔

مگر 1980ء کی دہائی میں سنت جرنیل سنگھ کے ہاتھوں بھارتی ریاست کو جو نقصانات پہنچے، ان کی ابھی تک پوری طرح تلافی نہیں ہوسکی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مختلف ادوار میں فوجی اور منتخب حکومتیں اپنے اپنے ’’بھنڈرانوالے‘‘ بنانے میں مصروف رہی ہیں۔ افغان جہاد کے دنوں میں بنائے جانے والے ایسے ہی چند کردار اب ہماری ریاست کو فاتح سورمائوں کی طرح مذاکرات کی دعوتیں دے رہے ہیں۔کسی اور تناظر میں ایسے ہی چند گروہ سندھ کے مقدر کے مالک و مختار بنے بیٹھے ہیں اور بلوچستان کے حوالے سے تقریباََ یہی صورتحال دن بہ دن گمبھیر سے گمبھیرہوتی جا رہی ہے۔

ہمارے ملک کے اتنے بڑے حصوں میں اپنے اختیار کو بری طرح لٹا دینے کے باوجود اقتدار کے سفاک کھیل میں مگن ہماری اشرافیہ کو قرار نہیں آیا ہے۔ نظر بظاہر آیندہ  انتخابات چند ہی ہفتوں بعد ہونے والے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین میں 20 ویں ترمیم ڈالنے کے بعد بنائے گئے الیکشن کمیشن کو اپنا کام کرنے دیا جاتا اور سیاستدان اپنی پوری توجہ اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ اکٹھاکرنے پر مرکوز کر دیتے۔ مگر اکھاڑے میں اُترنے سے کئی ماہ پہلے ہی ہمارے کچھ سیاستدانوں نے اپنے تئیں یہ طے کرلیا کہ آیندہ انتخابات میں پنجاب کا میدان تو نواز شریف اور ان کی جماعت بھرپور طریقے سے جیت لیں گے۔

بڑے ہی شکست خوردہ ذہن کے ساتھ ان لوگوں نے دُعائیں مانگنا شروع کردیں کہ کسی طرح آیندہ  انتخابات اپنے معینہ وقت پر نہ ہوسکیں ۔کینیڈا میں کئی سال گزارتے ہوئے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھانے والا قادری ان حالات میں ان کی دعائوں کی قبولیت کی صورت میں نمودار ہوتا ہوا نظر آیا۔ موصوف نے ہوشربا وسائل خرچ کرنے کے بعد لاہور میں ایک بڑا شو لگایا اور آیندہ انتخابات کے انعقاد کے  لیے ’’عدلیہ اور عسکری قیادت کی مشاورت‘‘ کے ساتھ ایسے انتظامات کا مطالبہ کربیٹھا جو صرف اور صرف صادق اور امین لوگوں کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کو یقینی بناسکے ۔اصولی طورپر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قادری کے نمودار ہونے کے پہلے روزہی ہماری پارلیمان میں موجود جماعتیں اکٹھی ہوکر پوری دنیا کو یاد دلاتیں کہ ان سب کی بھرپور شمولیت اور مشاورت سے موجودہ الیکشن کمیشن بنایا گیا ہے۔

ایسا نہ ہوا۔ لاہور میں بیٹھے خادم اعلیٰ اپنی بس چلانے کی تیاریوں میں مصروف رہے اور اپنے افسروں کو یہ سمجھاتے رہے کہ کینیڈا سے آئی اس آفت کو خیرخیریت کے ساتھ جی ٹی روڈ سے گزرکر اسلام آباد میں دھرنا سجانے دیا جائے۔ وہ اسلام آباد کی حدود کے قریب پہنچا تو پیپلز پارٹی کے چوہدریوں جیسے اتحادی اس کے ضامن بن گئے ۔اس کا شو بڑی دھج سے سج گیا ۔اس کی کامیابی کے نشے میں کینیڈا سے آیا قادری سپریم کورٹ کی تشکیل نوکرانے سپریم کورٹ پہنچ گیا۔مگر آئین اور قانون کا ’’پروفیسر‘‘ ہونے کے باوجود بالآخر اپنا ہی مقدمہ ہارگیا۔ اپنے مقدمے کی سماعت کے آخری روز سپریم کورٹ کے روبرو اور اس کے باہر اس نے جو کچھ کیا اور کہا وہ مجھے تو ’’توہینِ عدالت‘‘ محسوس ہورہا ہے۔

ایک منتخب وزیراعظم کو اسی جرم میں گھر بھیج ڈالنے والی عدالت اس کا نوٹس لیتی ہے یا نہیں؟ مجھے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔خود کو سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم کہتے ہوئے البتہ میں یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہوں کہ آئینی طور پر بنائے گئے الیکشن کمیشن کی ساخت اور ساکھ پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے بعد وہ اپنی توپوں کا رُخ اب آزاد عدلیہ کی جانب موڑدے گا ۔اس عدلیہ نے اپنی بحالی کے بعد جو فیصلے کیے ہیں، ان میں سے چند ایک کے بارے میں میرے ذہن میں بھی شدید تحفظات ہیں۔ان تحفظات کے ہوتے ہوئے بھی میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے ہاں ایک آزاد اور متحرک عدلیہ کا برقرار رہنا ہی جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بناسکتا ہے اور یہی ادارہ پاکستان کے ہمہ وقت چوکس میڈیا کی آخری پناہ گاہ بھی ہے ۔

مشکل مگر یہ ہوگئی ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے اپنے کردار اور کچھ فیصلوں سے اس عدلیہ نے حکومت ہی کو نہیں ہمارے ملک کے چند بڑے ہی طاقتور افراد اور اداروں کو بھی زچ کررکھا ہے ۔عدلیہ کے ہاتھوں آئے روز دِق ہونے والے یہ عناصر بڑے چالاک ہی نہیں اپنی خواہشات کو پورا ہوتے دیکھنے کے جنون میں ’’سب کچھ‘‘ خرچ کردینے والے وسائل اور دلوں کے مالک بھی ہیں۔انھوں نے کھل کر کینیڈا سے آئے قادری کی ہر حوالے سے پشت پناہی شروع کردی تو نقصان صرف نواز شریف کا نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن اپنا کام نہ کرپائے گا ۔حکومت اور اس کی مخالف جماعتوں میں تخت یاتختہ والی جنگ تیز تر ہوجائے گی اور عدلیہ کی حمایت میں سب کا یکسو ہوکر کھڑا ہوجانا بہت مشکل ہوجائے گا ۔بلّھے شاہ کے بتائے’’شک شبے کے اس ویلے میں‘‘ جدید بنیادوں پر بنی ریاست کے ادارے ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں مصروف ہوجائیں گے ۔اپنی اپنی ساکھ بچاتے اور دوسروں کی تباہ کرتے ریاستی ادارے اقتدار کے ایوانوں میں خلاء پیدا کردیا کرتے ہیں اور یہ خلاء ہمیشہ وہی’’ کاگ‘‘ پورا کیا کرتے ہیں جو بڑی محنت سے کوٹے اور چھانے گئے باجرے کے ساتھ ہوا تھا جس کے لٹ جانے کا ماتم مسرت نذیر کے ناقابلِ فراموش بنائے ایک لوک گیت میں کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔