افضل گورو کی پھانسی اور مسئلہ کشمیر

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 15 فروری 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

9 فروری کو دہلی کی تہاڑ جیل میں افضل گورو کو پھانسی دے دی گئی، اس پر 15 دسمبر2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے میں شرکت اور منصوبہ بندی کا الزام تھا، اس الزام میں اسے سزائے موت سنائی گئی تھی، یہ سزا مختلف عدالتوں کا چکر کاٹتے ہوئے بھارتی صدر کی میز پر رحم کی اپیل کی شکل میں رکھی ہوئی تھی، جسے ایک بھارتی صدر نے 2007 میں مسترد کردیا تھا، رحم کی آخری اپیل بھی 2012 میں مسترد کردی گئی تھی۔

اس کے بعد 11 سال ایک ماہ اور 25 دن افضل گورو جیل میں رہا، آخر کار 9 فروری کو اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ کشمیر میں اس پھانسی کے خلاف چار روز تک مکمل ہڑتال رہی اور پاکستان میں جگہ جگہ اس سزا کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اورغائبانہ نماز جنازہ ادا کی جارہی ہیں۔ یہ سزا قانون کے مطابق اور منصفانہ تھی یا نہیں اس پر تبصرے بھی ہورہے ہیں، شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ میں اس مسئلے پر کسی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتا، البتہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے لکھے گئے ایک افسانے سے کچھ اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں، شاید یہ اقتباسات افضل گورو کی سزا پر ایک تاریخی تبصرہ ہوں، ملاحظہ کیجیے۔

’’سیشن جج سری نگر کی عدالت میں تین ہندوؤں کے قتل کے ملزم عبدالحکیم کو کڑے پہرے میں لایا گیا تھا۔ ملزم عبدالحکیم کے چہرے پر نہ کوئی پریشانی تھی نہ خوف، وہ بڑے اطمینان سے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ جب جج رام ناتھ نے ملزم سے پوچھا کہ اس کا اقبالی بیان درست ہے، کسی تشدد کے ذریعے تو اس سے یہ بیان نہیں لیا گیا؟ جج کے سوال پر ملزم نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جج صاحب! میں نے ان تین ہندوؤں ہی کو نہیں بلکہ دوسرے اور اٹھارہ ہندوؤں کو بھی قتل کیا ہے، مجھے ان اکیس قتل پر نہ کوئی افسوس ہے نہ پچھتاوا، یہ قتل میں نے ان مظالم، ان قتلوں کے خلاف جوابی طور پر کیے ہیں جو 6 لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں پر کر رہی ہے، یہ قتل میں نے دینی فرض کے طور پر کیے ہیں۔

عبدالحکیم کے وکیل وجے نے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’’می لارڈ! وکیل استغاثہ کا یہ کہنا بادی النظر میں بالکل درست ہے کہ ملزم نے اپنے جرم کا اقبال کرلیا ہے اور اسے سزائے موت دی جانی چاہیے، لیکن می لارڈ! یہ کیس اس قدر واضح اور آسان نہیں ہے جیسے وکیل استغاثہ سمجھ رہے ہیں۔ می لارڈ! اس کیس کو میں عبدالحکیم کے اکیس قتل اور اس کی سزا کے حوالے سے نہیں بلکہ اس کیس کو 80 ہزار سے زیادہ کشمیریوں کے قتل اور ہندوستان اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی اور نفرت کے تناظر میں لڑنا چاہتا ہوں۔ میں اس کیس کے دوران روایت سے ہٹ کر کچھ ایسے ثبوت اور گواہ پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا بظاہر اس کیس سے کوئی تعلق نظر نہیں آئے گا، لیکن درحقیقت یہ گواہ، یہ ثبوت عبدالحکیم اور کشمیر میں ہونے والی قتل و غارت کو بے نقاب کریں گے۔

می لارڈ! اگر آپ اجازت دیں تو میں پانچ نوزائیدہ بچوں کو عدالت کے سامنے پیش کروں گا جن کا اس کیس سے بہت گہرا تعلق ہے، جج رام ناتھ نے اجازت دے دی۔ وجے کا ایک آدمی بیڈ کو دھکیلتا ہوا عدالت میں لے آیا جس پر پانچ نوزائیدہ بچے لیٹے ہاتھ پیر ہلا رہے تھے اور غوں غاں کر رہے تھے۔

می لارڈ! سب سے پہلے میں وکیل استغاثہ سے درخواست کروں گاکہ وہ ان بچوں کو قریب سے دیکھ کر ہر طرح سے پرکھ کر یہ بتائیں کہ ان میں ہندو کون سا بچہ ہے، مسلمان کون سا، عیسائی کون سا، سکھ کون سا اور دلت کون سا بچہ ہے؟وکیل استغاثہ نے غصے سے کہا ان بچوں کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟ وجے نے جواب دیا، می لارڈ! ان بچوں کا اس کیس سے بہت قریبی تعلق ہے۔ کیا تعلق ہے وہ عدالت خود محسوس کرے گی۔ وکیل استغاثہ آگے بڑھے اور قریب سے بچوں کو دیکھ کر بولے مسٹر وجے! ان ایک ماہ سے کم عمر بچوں کو جو ایک جیسے کپڑوں میں لپٹے پڑے ہیں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی یا دلت کی حیثیت سے کیسے شناخت کیا جاسکتا ہے، جب تک کہ ان کے نام معلوم نہ ہوں یا ان کے ماں باپ ہمارے سامنے نہ ہوں؟

بس شکریہ! وجے نے وکیل استغاثہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ می لارڈ! جو پانچ بچے بیڈ پر لیٹے ہیں ان میں ایک ہندو ہے، ایک مسلمان، ایک سکھ، ایک عیسائی اور ایک دلت۔ یہ معصوم بچے مذہب و ملت کے بھید بھاؤ سے دور غوں غوں کر رہے ہیں۔ می لارڈ! اب میں آپ سے مودبانہ درخواست کروں گا کہ آپ بھی انھیں قریب سے دیکھ کر بتائیں کہ ان میں ہندو کون ہے، مسلمان کون، سکھ عیسائی اور دلت کون؟

مسٹر وجے! یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی نام کی شناخت کے بغیر انھیں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی یا دلت کی حیثیت سے پہچانا جائے؟

شکریہ می لارڈ! میں بس یہی سننا چاہتا تھا۔ وجے نے کہا، اب میں پنڈت ودارکا ناتھ سے درخواست کروں گا کہ وہ آئیں اور ان بچوں کی مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی اور دلت کی حیثیت سے شناخت کریں۔

پنڈت دوارکا ناتھ نے کانپتی آواز میں کہا۔ وجے صاحب! نہ مجھے ان کے نام معلوم ہیں نہ میں ان کے ماتا پتا کو جانتا ہوں، پھر بھلا میں یہ کیسے بتا سکتا ہوں کہ ان میں ہندو کون ہے، مسلمان کون، سکھ، عیسائی اور دلت کون؟ وکیل صاحب! یہ بڑا گھور پاپ ہے میں۔۔۔۔! پنڈت اپنی بے عزتی پر شرم سے کانپ رہا تھا۔

وجے بولا، پنڈت جی! اس سے بڑا گھور پاپ اور کیا ہوگا کہ بے گناہ کشمیری نصف صدی سے مارے جارہے ہیں، اس خوبصورت سرزمین کے ہر حصے پر خون کے چھینٹے بکھرے ہوئے ہیں، کشمیر میں ہزاروں بیوائیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں اپنا جسم بیچ رہی ہیں، ہزاروں یتیم بچے شہروں گلیوں میں آوارہ پھر رہے ہیں، بھیک مانگ رہے ہیں، یہ بچے پیڑ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہماری بے حسی کے بے رحم جھونکوں میں اڑتے پھر رہے ہیں۔ کوئی جرائم کی طرف جارہا ہے، کوئی مذہبی انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ رہا ہے، کوئی فوج میں بھرتی ہورہا ہے، کیا یہ سارے کام دین دھرم کے مطابق ہیں؟ کیا یہ گھور پاپ نہیں؟

می لارڈ! میں اب شہر کی سب سے بڑی مسجد کے امام مولانا اصغر ملک سے درخواست کروں گا کہ وہ تشریف لائیں اور ان بچوں کو شناخت کریں۔ مولانا نے شرمندگی سے کہا : مسٹر وجے! جب تک ان بچوں کے نام نہ معلوم ہوں جب تک کہ ان کے ماں باپ ہمارے سامنے نہ ہوں بھلا انھیں کون اور کیسے شناخت کرسکتا ہے؟

می لارڈ! کشمیر 60 سال سے ہندوستان اور پاکستان کی سیاست کی سولی پر لٹکا ہوا ہے، یہ مسئلہ ابتدا میں بڑا آسان تھا، اس وقت کے سیاسی رہنما آسانی سے اس مسئلے کو حل کرسکتے تھے، لیکن مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان رہنماؤں میں نہ سیاسی اہلیت تھی نہ سیاسی بصیرت۔ یہ لوگ اس نظام کے اسیر تھے، جس میں ہر شخص ہر چیز پر قبضہ جمانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس مسئلے نے اب تک 80 ہزار کشمیریوں کی بھینٹ لی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں، دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام کا یہ نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی مستحکم ہوئی ہے۔

حکمران کہتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام کی بھلائی چاہتے ہیں، میں کہتا ہوں وہ جھوٹ بولتے ہیں، کسی کو بھی کشمیری عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر دلچسپی ہے تو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے، اگر دلچسپی ہے تو اپنے قومی فخروغرور سے ہے، اگر دلچسپی ہے تو اپنی تاریخ، اپنے جغرافیہ سے ہے، اگر دلچسپی ہے تو اپنی مذہبی ناک سے۔ ہمارے رہنما کہہ رہے ہیں کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے، پاکستان کے حکمران کہہ رہے ہیں کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، لیکن می لارڈ! ان مہاشوں کو علم نہیں کہ اس مسئلے نے بھارت کے سیکولر اور جمہوری چہرے کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

اس مسئلے کی وجہ سے ہندوستان میں بی جے پی کو اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ملا، اس مسئلے کی وجہ سے پاکستان دہشت گری کے اڈے میں بدل کر رہ گیا ہے، جہاں عبدالحکیم پیدا ہورہے ہیں۔ آپ عبدالحکیم کو سزائے موت دیں وہ پھانسی پر جھولنے کو مذہبی فریضہ سمجھتا ہے۔ می لارڈ! عبدالحکیم کو سولی پر چڑھانے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس فکر کو سولی پر چڑھائیے جو کشمیر کے مسئلے پیدا کرتی ہے، ان نظریات کو پھانسی لگائیے جو مندروں، مسجدوں کو میدان جنگ بناتے ہیں، اس سیاست کو سزائے موت سنائیے جو انسانوں کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پاکستانی، ہندوستانی بناکر ایک دوسرے سے برسر پیکار کرتی ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔