ویلنٹائن

جاوید چوہدری  جمعـء 15 فروری 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ویلنٹائن ڈے کو سمجھنے کے لیے آپ کو فاسٹ فوڈ چینز کا تصور سمجھنا ہو گا‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کمرشل ازم کا بوم آ گیا‘ لوگ معاشی دوڑ میں لگ گئے‘ میاں اور بیوی دونوں دو دو شفٹوں میں کام کرنے لگے‘ اس دوڑ نے سب سے پہلے ڈائننگ ٹیبل اور کچن کو متاثر کیا‘ چولہے ٹھنڈے ہو گئے اور کھانے کی میزیں ویران ہو گئیں‘ فاسٹ فوڈ نے اس ویرانی اور ٹھنڈے پڑتے کچنز سے جنم لیا‘ امریکا میں ایسے ریستوران بننے لگے جو گاہک کو کائونٹر پر کھڑے کھڑے خوراک کے پیکٹ دے دیتے تھے اور وہ شخص چلتے پھرتے‘ ٹرین کے پیچھے بھاگتے‘ بس پر سوار ہوتے یا ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے لنچ یا ڈنر مکمل کر لیتا‘ یہ خوراک سستی بھی ہوتی تھی۔

اسے کھانے کے لیے کرسی اور میز کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی اور آپ کو آرڈر دے کر انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا تھا‘ امریکا میں یہ ریستوران تیزی سے پھیلنے لگے اور یہ فاسٹ فوڈ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی شہریوں کے لائف اسٹائل کا حصہ بن گئی‘ امریکا میں اس وقت فاسٹ فوڈ کی دو سو سے زائد چینز کام کر رہی ہیں‘ وہاں صرف میکڈونلڈ کی ساڑھے تین ہزار شاخیں ہیں اور امریکا کاہر آٹھواں شہری کسی نہ کسی حیثیت سے میکڈونلڈ کا ملازم ہے یا ماضی میں رہا‘ فاسٹ فوڈ کا تصور جب یورپ میں آیا تو یورپین اقوام نے کھل کر اس کی مخالفت کی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی اور اسپین کے شہریوں کا کہنا تھا فاسٹ فوڈ یورپ کی کھانے کی روایات برباد کر دے گی۔

یہ ریستوران انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچائے گی اور پنیر اور تیل کے بے تہاشا استعمال کی وجہ سے لوگوں میں موٹاپے اور بیماریوں میں بھی اضافہ ہوگا لیکن اس مخالفت کے باوجوفاسٹ فوڈ چینز یورپ آئیں اور انھوں نے یورپ میں امریکا سے زیادہ بزنس کیا ‘ان فاسٹ فوڈ کمپنیوں نے یورپ میں ایڈجسٹ منٹ کے لیے اپنی مصنوعات کو یورپین رنگ دے دیا‘ امریکا کے لوگ خوش خوراک ہیں‘ وہاں کے لوگ بڑے برگر‘ زیادہ فرنچ فرائز اور سافٹ ڈرنک کے بڑے گلاس پسند کرتے ہیں چنانچہ یہ چینز امریکا میں امریکی گاہکوں کو سامنے رکھ کر خوراک بیچ رہی تھیں جب کہ یورپ کے لوگ امریکا کے مقابلے میں زیادہ کلچرڈ‘ صحت کے بارے میں محتاط اور کم خوراک ہیں چنانچہ ان کمپنیوں نے یورپ میں برگرز‘ فرنچ فرائز اور سافٹ ڈرنگ کے گلاس چھوٹے کر دیے اور جن ملکوں میں یورپ اور امریکا دونوں خطوں کے لوگ رہتے ہیں۔

انھوں نے وہاں گاہکوں کو ریگولر‘ میڈیم اور لارج کا آپشن دینا شروع کر دیا‘ یورپ کے بعد اسلامی دنیا‘ مشرق بعید اور روسی ریاستیں فاسٹ فوڈ کا ہدف تھیں‘ مشرق بعید اور روسی ریاستیں زیادہ مسئلہ نہیں تھیں‘ ان کا اصل مسئلہ اسلامی دنیا تھی کیونکہ اسلامی دنیا میں پورک اور ہیم نہیں کھایا جاتا‘ یہاں حلال جانور بھی اس وقت تک حلال نہیں ہوتے جب تک انھیں اسلامی طریقے سے ذبح نہ کیا جائے اور حلال کی یہ رکاوٹ اسلامی دنیا اور فاسٹ فوڈ کلچر کے درمیان سرحد بن کر کھڑی ہو گئی‘ فاسٹ فوڈ چینز نے دومنٹ میں اس کا حل بھی نکال لیا‘ انھوں نے اسلامی ممالک میں حلال خوراک استعمال کرنے کا اعلان کر دیا اوراس اعلان کے بعد پوری اسلامی دنیا میں فاسٹ فوڈ کے ریستوران کھل گئے۔

آج آپ کسی اسلامی ملک میں چلے جائیں آپ کو وہاں امریکا کے فاسٹ فوڈ ریستوران ملیں گے‘ چین‘ روس‘ جاپان اور جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک میں بھی یہی ہوا‘ ان کمپنیوں نے اپنی خوراک میں مقامی ذائقے شامل کیے اور وہاں بھی ہزاروں ریستوران کھل گئے‘ یہ صرف ایک مثال ہے‘ آپ اگر سافٹ ڈرنکس‘ انرجی ڈرنکس‘ جینز‘ آڈیو سسٹم‘ وڈیو سسٹم‘ کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ ‘فیس بک اور ٹویٹر کو دیکھیں تو یہ بھی ارتقاء کے انھی مراحل سے گزرے ہیں‘ یہ کمپنیاں بھی مقامی ضرورتوں کو اپنا حصہ بناتی گئیں اور ان کے لیے مختلف ملکوں اور معاشروں کے دروازے کھلتے چلے گئے یہاں تک کہ آج آپ کو یہ تمام چیزیں تمام ممالک میں ملتی ہیں تاہم ملکوں اور قوموں نے اپنے کلچر کے مطابق ان پر فلٹر لگا رکھے ہیں مثلاً عرب ریاستوں میں فحش ویب سائٹس نہیں کھلتیں اور ہم نے اپنی ثقافت کو سامنے رکھ کر یوٹیوب پر پابندی لگا دی ہے لیکن دنیا میں اس وقت کوئی ایسا ملک نہیں جس میں یہ ساری چیزیں موجود نہ ہوں‘ ان رجحانات نے دنیا کو حقیقتاً گلوبل ولیج بنا دیا‘ آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو خوراک‘ پانی‘ سافٹ ڈرنکس‘ لباس اور انٹرنیٹ ایک جیسا ہی ملے گا۔

دنیا میں تہواروں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے‘ امریکی معاشرہ فاسٹ فوڈ‘ سافٹ ڈرنکس‘ فیس بک‘ ٹویٹر اور ای میلز کی طرح نئے نئے تہوار بھی ایجاد کر رہا ہے اور یہ تیزی سے پوری دنیا کے تہوار بن رہے ہیں‘ ہم اگر چند لمحے کے لیے اپنا فکری‘ معاشرتی اور سماجی تعصب ایک طرف رکھ دیں توہمیں آج کے اکثر تہوار اچھے دکھائی دیں گے مثلاً مائوں کا عالمی دن‘ والد کا عالمی دن‘ بچوں کا عالمی دن‘ معذوروں کا عالمی دن‘ سفید چھڑی کا عالمی دن اور مزدوروں کے عالمی دن وغیرہ وغیرہ کو لے لیجیے‘ یہ تمام دن اچھے بھی ہیں اور انھیں منانے میں کوئی حرج بھی نہیں‘ ہم سب رشتوں میں گندھے ہوئے ہیں مگر زندگی کی مصروفیت ہمیں بعض اوقات ان رشتوں سے دور لے جاتی ہے اور یہ دن ہمیں ہمارا فرض اور ہماری رشتے داری دونوں کو یاد کرا دیتے ہیں۔

یہ ہم میں اور ہمارے فرض‘ ذمے داری اور رشتے داری میں ’’ بانڈ‘‘ کا کام کرتے ہیں‘ یہ دن‘ یہ تہوار بھی کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ گوگل‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ جینز‘ سافٹ ڈرنکس اور فاسٹ فوڈ کی طرح طاقتور ہیں اور یہ ہماری بھرپور معاشرتی مخالفت کے باوجود سوسائٹی میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں‘ ہم ہر سال نیو ائیر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرتے ہیں‘ ہم لوگ 31 دسمبر کی رات ڈنڈے لے کر سڑکوں پر پھرتے ہیں‘ شہروں میں پولیس ہائی الرٹ ہوتی ہے‘ ہم ہر سال ویلنٹائن ڈے کی مذمت میں مضامین بھی لکھتے ہیں‘ ایس ایم ایس بھی چلاتے ہیں اور مساجد میں تقریریں بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود 31 دسمبر کی رات نوجوان سڑکوں پر نکلتے ہیں‘ یہ موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر پورے شہر میں شور کرتے ہیں۔

نوجوان لڑکیاں اور لڑکے سڑکوں پر ڈانس بھی کرتے ہیں اور 14 فروری کو بڑے شہروں میں گلاب نہیں ملتے لہٰذا ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی‘ ہم بھرپور مخالفت کے باوجود یہ تہوار نہیں روک پا رہے اور صرف ہم ہی نہیں بلکہ یہ کسی اسلامی ملک میں نہیں رک پا رہے‘ سعودی عرب‘ عراق‘ ایران اور مصر بھی پوری کوشش کے باوجود نیو ائیر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے نہیں روک سکے چنانچہ ہمیں ان دنوں کی طاقت اور اپنی نوجوان نسل کی ضرورتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا‘ یہ درست ہے ہم اسلامی ملک اور اسلامی معاشرہ ہیں اور ہم پاکستان میں مغربی دنیا جیسے نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے کی اجازت نہیں دے سکتے لیکن ہم فاسٹ فوڈ‘ سافٹ ڈرنکس اور انٹرنیٹ کی طرح ان تہواروں کو مقامی رنگ بھی دے سکتے ہیں‘ ہم سرکاری سطح پر نیو ائیر نائٹ منائیں۔

حکومت 31 دسمبر کی رات ملک بھر کے اسٹیڈیمز‘ پارکس اور کھلی جگہوں پر نیو ائیر کی تقریبات کا اہتمام کرے‘ وہاں ایک رات کا میلالگوائے‘ کھانے پینے کے اسٹال لگوائے‘ بچوں کے جھولوں کا بندوبست کرے اور رات جوں ہی بارہ بجیں پورے ملک میں تلاوت ہو‘ اٹھارہ کروڑ لوگ پرانے سال کے گناہوں پر توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے نئے سال کے لیے اجتماعی دعا کریں اور اس کے بعد پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی آتش بازی کے مظاہرے ہوں اور پاکستان کے گلو کار تمام شہروں میں اپنے فن کے مظاہرے بھی کریں‘ آخر اس میں کیا حرج ہے؟ کیا ہم نے باقی زندگی موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر یا نوجوانوں کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسا کر گزارنی ہے‘ ہم اسی طرح پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کو شادیوں کا دن ڈکلیئر کر سکتے ہیں‘ پاکستان میں 14فروری کو ہزاروں کی تعداد میں شادیاں ہوں‘ یہ شادیاں عالمی ریکارڈ بن جائیں‘ ہم اس دن کو میاں بیوی ڈے یا اولڈ کپلز ڈے بھی بنا سکتے ہیں۔

پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کے دن میاں بیوی ریستورانوں میں ڈنر کریں‘ شہر بھر کے بوڑھے جوڑوں کے لیے اجتماعی تقریبات منعقد کی جائیں اور ہم اس دن بچوں کی منگنیاں بھی کر سکتے ہیں‘آخر اس میں کیا حرج ہے‘ ہم ان چند اقدامات سے اپنے معاشرے میں ان دونوں دنوں کو اسی طرح ایڈجسٹ کر سکتے ہیں جس طرح ہم نے حلال خوراک کے ذریعے معاشرے میں فاسٹ فوڈ‘ سافٹ ڈرنکس‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ ڈی وی ڈی اور گوگل کی گنجائش پیدا کر لی تھی‘ ہم نے اگر آج ہوش کے ناخن نہ لیے‘ ہم نے دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کو اپنی ثقافت کے ساتھ ایڈجسٹ نہ کیا تو مجھے خطرہ ہے نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے جیسے طاقتور جن اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ ہمارے معاشرے میں جگہ بنا لیں گے اور ہم اپنی عزت بچانے کے لیے آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ جینز کو دیکھ لیجیے‘ ہمارے علماء نے اسی جینز کے خلاف فتوے دیے تھے لیکن آج یہ جینز ہماری مسجدوں میں نظر آتی ہے اور ہمارے علماء خاموش ہیں چنانچہ سوچئے اگر فاسٹ فوڈ حلال ہو سکتی ہے تو ویلنٹائن ڈے حلال کیوں نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔