امریکی فوجی وفد کی آمد

ایڈیٹوریل  اتوار 20 اگست 2017
 افغان صورتحال انتظامی و معاشی اصلاحات کے فقدان اور دہشتگردی کے تسلسل کا نتیجہ ہے ۔ فوٹو : آئی ایس پی آر

افغان صورتحال انتظامی و معاشی اصلاحات کے فقدان اور دہشتگردی کے تسلسل کا نتیجہ ہے ۔ فوٹو : آئی ایس پی آر

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان مالی اور مادی امداد سے زیادہ دہشتگردی کے خلاف پیش کی جانیوالی اپنی قربانیوں کو تسلیم کیے جانے کو اہم سمجھتا ہے، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جمعہ کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر اور وفد نے ملاقات کی جس میں پیشہ ورانہ دلچسپی کے امور، افغانستان میں سیکیورٹی صورتحال اور خطے میں قیام امن پر بات چیت کی گئی جب کہ آرمی چیف نے پاک افغان سرحد پر بہتر سیکیورٹی کے لیے افغان اور امریکی فوج سے مل کرکام کرنے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے زیادہ شاید ہی کسی ملک کو افغانستان میں امن سے دلچسپی ہو۔

یہ دلچسپ حسن اتفاق ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کیمپ ڈیوڈ میں موجودگی اور امریکی وفد کی جی ایچ کیو میں آمد ایک ساتھ ہوئی اور موضوع بحث افغان پالیسی کو حتمی شکل دیے جانے کی اطلاعات تھیں ۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ ہم خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے کئی عشروں پر محیط خدمات خصوصاً پاکستانی عوام اور سیکیورٹی فورسز کی طرف دہشتگردی کے خلاف دی گئی قربانیوں کا اعتراف چاہتے ہیں۔

امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے افغانستان میں امریکی سفیر کے الزامات کے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے، امریکا کی نئی پالیسی میں پاکستان کے کردار کا اعتراف ہونا چاہیے۔بلاشبہ پاکستان کی عسکری قیادت نے خطے کی صورتحال ،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا تقابل امریکی امداد کے تناظر میں جس مضبوط استدلال کے ساتھ کیا وہ نہ صرف افغانستان میں امن کے قیام کی مسلسل کوششوں اور دہشتگردی سے نمٹنے کی ناقابل انکار بھاری قیمت چکانے سے متعلق امریکی وفد کو روشناس کرانے کی ایک ناگزیر پیشرفت تھی بلکہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے وفد کو صائب طریقے سے باور کرایا گیا کہ خطے سے جڑے پیچیدہ حقائق کے حقیقی ادراک پر قائل ہونے کا ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہی مناسب وقت ہے۔

افغانستان کی شورش زدہ اور سنگین صورتحال کی بہتری کے لیے اگر کسی ملک نے نیک نیتی سے دلچسپی لی تو وہ صرف پاکستان ہے، ٹرمپ انتظامیہ تک یہ پیغام امریکی وفد کے توسط سے جانا چاہیے کہ افغانستان میں امن واستحکام کے لیے روڈ میپ اور حکمت عملی میں پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے، اگر افغان حکام بلیم گیم سے گریز کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات اور دہشتگردی کے خاتمہ میں پاکستان سے تعاون کرتے تو خطے کے بدامنی، داعش اور طالبان کی انتہا پسندی تک جانے کی نوبت ہی نہ آتی۔

افغان ایشو پیچیدہ ترین مسئلہ ہے، افغان صورتحال انتظامی و معاشی اصلاحات کے فقدان اور دہشتگردی کے تسلسل کا نتیجہ ہے، امریکا، پاکستان اور عالمی برادری سے زیادہ کون افغانستان کی تباہ ہوتی ہوئی معیشت، سیاسی عدم استحکام اور انسانی جان و مال کے نقصان سے آگاہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اگر نئی افغان پالیسی کو حتمی شکل دے رہی ہے تو اسے اس سیناریو میں پاکستان سے ڈو مور کے بجائے تعاون،اشتراک اور امن کے قیام میں پاکستان کی امریکی کوششوں کی مسلسل حمایت کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔