- سفاری پارک میں افریقی شیرکے دو بچوں کی پیدائش
- بھارت میں ماں باپ نے پوجا میں اپنی جوان بیٹیوں کی بَلی چڑھا دی
- کورونا ویکسین لگوا کر آئیں اور ڈسکاؤنٹ پائیں، ریسٹورینٹس کا انوکھا اقدام
- ٹک ٹاک نے مزید 2 نوجوانوں کی جان لے لی، نہر میں ڈوب گئے
- طالبہ کے اغوا اور فحش وڈیوز بنانے پر میاں بیوی کو پھانسی، عمر قید کی سزائیں
- مریم کی کون سنے گا یہ کیپٹن صفدر کے بھائی سے استعفی نہیں لے سکیں، فواد چوہدری
- مسلم لیگ (ن) کا سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ
- بھارت کا دارالحکومت پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا
- مولانا شیرانی اور دیگر کا مولانا فضل الرحمان کو نوٹس بھیجنے پرغور
- عمر شیخ کے جیل سے دہشتگردوں کیساتھ روابط ہونا ہماری ناکامی ہے، سندھ حکومت
- پاکستان میں اچھی سہولیات ملیں اور کوئی مشکل پیش نہیں آئی، مارک باؤچر
- امریکا میں پاکستانی نژاد صائمہ محسن پہلی وفاقی پراسیکیوٹر مقرر
- حکومت مذاکرات کیلیے اپوزیشن کی منتیں کررہی ہے لیکن اب کوئی بات نہیں ہوگی، مریم نواز
- حکومت اتحادی ایم کیوایم کراچی کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے مدمقابل
- انڈونیشیا نے ایران کا بحری جہاز تحویل میں لیکر عملے کو گرفتار کرلیا
- افغانستان میں اٹلی کی سفارت خانے کی گاڑی پر حملہ، ہلاکتوں کا خدشہ
- خواجہ آصف کے اکاؤنٹ میں چپڑاسی کا 28 ملین روپے جمع کرانے کا انکشاف
- فارن فنڈنگ کیس میں ہمیں پھنسانے والے اب خود پھنس چکے ہیں، وزیراعظم
- ملک میں کورونا ویکسین لگانے کے انتظامات مکمل
- لاہور کے اسپتال میں لڑکی کی لاش چھوڑ کر جانے والا ملزم گرفتار
امریکی فوجی وفد کی آمد

افغان صورتحال انتظامی و معاشی اصلاحات کے فقدان اور دہشتگردی کے تسلسل کا نتیجہ ہے ۔ فوٹو : آئی ایس پی آر
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان مالی اور مادی امداد سے زیادہ دہشتگردی کے خلاف پیش کی جانیوالی اپنی قربانیوں کو تسلیم کیے جانے کو اہم سمجھتا ہے، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جمعہ کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر اور وفد نے ملاقات کی جس میں پیشہ ورانہ دلچسپی کے امور، افغانستان میں سیکیورٹی صورتحال اور خطے میں قیام امن پر بات چیت کی گئی جب کہ آرمی چیف نے پاک افغان سرحد پر بہتر سیکیورٹی کے لیے افغان اور امریکی فوج سے مل کرکام کرنے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے زیادہ شاید ہی کسی ملک کو افغانستان میں امن سے دلچسپی ہو۔
یہ دلچسپ حسن اتفاق ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کیمپ ڈیوڈ میں موجودگی اور امریکی وفد کی جی ایچ کیو میں آمد ایک ساتھ ہوئی اور موضوع بحث افغان پالیسی کو حتمی شکل دیے جانے کی اطلاعات تھیں ۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ ہم خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے کئی عشروں پر محیط خدمات خصوصاً پاکستانی عوام اور سیکیورٹی فورسز کی طرف دہشتگردی کے خلاف دی گئی قربانیوں کا اعتراف چاہتے ہیں۔
امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے افغانستان میں امریکی سفیر کے الزامات کے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے، امریکا کی نئی پالیسی میں پاکستان کے کردار کا اعتراف ہونا چاہیے۔بلاشبہ پاکستان کی عسکری قیادت نے خطے کی صورتحال ،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا تقابل امریکی امداد کے تناظر میں جس مضبوط استدلال کے ساتھ کیا وہ نہ صرف افغانستان میں امن کے قیام کی مسلسل کوششوں اور دہشتگردی سے نمٹنے کی ناقابل انکار بھاری قیمت چکانے سے متعلق امریکی وفد کو روشناس کرانے کی ایک ناگزیر پیشرفت تھی بلکہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے وفد کو صائب طریقے سے باور کرایا گیا کہ خطے سے جڑے پیچیدہ حقائق کے حقیقی ادراک پر قائل ہونے کا ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہی مناسب وقت ہے۔
افغانستان کی شورش زدہ اور سنگین صورتحال کی بہتری کے لیے اگر کسی ملک نے نیک نیتی سے دلچسپی لی تو وہ صرف پاکستان ہے، ٹرمپ انتظامیہ تک یہ پیغام امریکی وفد کے توسط سے جانا چاہیے کہ افغانستان میں امن واستحکام کے لیے روڈ میپ اور حکمت عملی میں پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے، اگر افغان حکام بلیم گیم سے گریز کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات اور دہشتگردی کے خاتمہ میں پاکستان سے تعاون کرتے تو خطے کے بدامنی، داعش اور طالبان کی انتہا پسندی تک جانے کی نوبت ہی نہ آتی۔
افغان ایشو پیچیدہ ترین مسئلہ ہے، افغان صورتحال انتظامی و معاشی اصلاحات کے فقدان اور دہشتگردی کے تسلسل کا نتیجہ ہے، امریکا، پاکستان اور عالمی برادری سے زیادہ کون افغانستان کی تباہ ہوتی ہوئی معیشت، سیاسی عدم استحکام اور انسانی جان و مال کے نقصان سے آگاہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اگر نئی افغان پالیسی کو حتمی شکل دے رہی ہے تو اسے اس سیناریو میں پاکستان سے ڈو مور کے بجائے تعاون،اشتراک اور امن کے قیام میں پاکستان کی امریکی کوششوں کی مسلسل حمایت کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔