ڈاکٹر روتھ فاؤ کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین

ایڈیٹوریل  اتوار 20 اگست 2017
ڈاکٹر روتھ نے خود باہر نکل کر کوڑھ کے مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں ۔ فوٹو : آن لائن

ڈاکٹر روتھ نے خود باہر نکل کر کوڑھ کے مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں ۔ فوٹو : آن لائن

پاکستان میں جذام کے خاتمے کے لیے شب و روز محنت کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ کی تدفین وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں کردی گئی۔ 57 سال تک پاکستان میں انسانیت کی خدمت کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ کی یہ خواہش تھی کہ مرنے کے بعد انھیں پاکستان میں ہی دفن کیا جائے۔

پاکستان کی مدر ٹریسا کہلائی جانے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل میں ادا کی گئیں۔ ان کے تابوت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیا تھا، پاک فوج کے دستے نے آرٹلری گنز کی سلامی دی اور ان کے جسد خاکی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ چرچ پہنچایا گیا۔

واضح رہے کہ آخری رسومات کے دوران سیکیورٹی انتظامات یقینی بنانے کے لیے تینوں مسلح افواج کے اہلکاروں نے ذمے داریاں سنبھالی ہوئی تھیں۔ سیکیورٹی کے لیے واک تھرو گیٹ لگانے کے علاوہ رسومات میں شرکت کے لیے سیکیورٹی پاسز جاری کیے گئے تھے۔ سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل کے اطراف عمارتوں پر رینجرز اہلکار تعینات کیے گئے۔

آنجہانی ڈاکٹر کی آخری رسومات میں صدر مملکت پاکستان ممنون حسین، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، گورنر سندھ محمد زبیر، وزیراعلیٰ سندھ  مراد علی شاہ، میئر کراچی وسیم اختر، چیف جسٹس ہائی کورٹ سندھ، پاکستان میں جرمن سفیر، تینوں مسلح افواج کے دستوں سمیت دیگر سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ 9 ستمبر 1929 کو جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ جنگ کے دوران ہی ڈاکٹر روتھ اپنے والدین اور 5 بہنوں کے ساتھ مشرقی جرمنی منتقل ہوگئیں جہاں انھوں نے شعبہ طب کی تعلیم مکمل کی، ڈاکٹر روتھ نے شادی نہیں کی اور جنگ سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے لگیں۔ اسی دوران ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری نامی تنظیم سے وابستہ ہوگئیں، اس تنظیم نے انھیں اسائنمنٹ پر بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا جہاں انھیں مدر ٹریسا سے ملاقات کرنا تھی، تاہم بھارت کی جانب سے ویزا کے اجرا میں سختی کی وجہ سے وہ بھارت نہ جاسکیں۔

اس صورتحال میں ڈاکٹر روتھ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ پہلے پاکستان چلی جائیں اور وہاں سے بھارت کا ویزا حاصل کریں۔ یہ پاکستان کی خوش نصیبی تھی کہ ڈاکٹر روتھ نے یہاں جذام کے مریضوں کی مشکلات دیکھتے ہوئے مستقل پاکستان میں رہائش کا فیصلہ کرلیا۔ ڈاکٹر روتھ نے اپنا خاندان، گھر اور ملک الغرض سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی ساری زندگی پاکستان میں انسانیت کی خدمت اور کوڑھ کے مرض کے خاتمے کے لیے وقف کردی۔

1963 میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے پاکستان میں پہلی مرتبہ کراچی کے علاقے برنس روڈ پر لیپروسی سینٹر (جذام سینٹر) کی بنیاد رکھی اور فیصلہ کیا کہ میکلوڈ روڈ پر جھونپڑ پٹی میں موجود کوڑھ کے مریضوں کو اسپتال منتقل کیا جائے گا۔ انھوں نے 1965 میں مقامی لوگوں کو تربیت دینا شروع کی اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے پیرا میڈکس کو کوڑھ کے علاج کی تربیت دی۔

ڈاکٹر روتھ نے خود باہر نکل کر کوڑھ کے مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں، گرم ترین صحرائے تھر گئیں، دشوار گزار پہاڑی علاقوں کا دورہ کیا اور سرحدی علاقوں میں موجود کوڑھ کے مریضوں کا علاج کیا۔ ڈاکٹر روتھ نے 1975 میں خیبرپختونخوا، 1976 میں بلوچستان اور 1984 میں گلگت بلتستان میں لیپروسی سینٹر کھولے۔1986 میں عالمی ادارہ صحت نے کوڑھ کے مریضوں کے لیے ملٹی ڈرگ تھراپی متعارف کرائی جو اس مرض پر قابو پانے کے لیے سودمند ثابت ہوئی۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ کو 1988 میں پاکستانی شہریت کی پیشکش ہوئی، جرمن ہونے کے باوجود وہ اس قوم کے لیے سب سے بڑھ کر پاکستانی تھیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی پاکستان کے ان مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی جنھیں ان کے لواحقین بھی چھوڑ جاتے تھے۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، ستارہ قائداعظم اور نشان قائداعظم سے نوازا۔ کراچی میں سول اسپتال کو ڈاکٹر روتھ فاؤ کے نام سے منسوب کرنے کا نوٹیفکیشن جلد جاری کرنے کا کہا گیا ہے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ثابت کردیا کہ انسانیت، مذہب و نسل سے ماورا اور سرحدی حدود و قیود سے مبرا جذبہ ہے، انھوں نے جس لگن سے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی خدمت کی اس سے پاکستانی قوم کا ہر فرد احسان مند ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ 1996میں پاکستان کا جذام سے پاک ملک میں شمار صرف اور صرف ڈاکٹر روتھ فاؤ کی کوششوں کے باعث ہی ممکن ہوسکا۔

آنجہانی ڈاکٹر کی آخری رسومات جس عقیدت و احترام کے ساتھ ادا کی گئیں ایسا پاکستان میں 29 سال میں صرف دو ہی شخصیات کو میسر آسکا، پہلی شخصیت عبدالستار ایدھی اور دوسری ڈاکٹر روتھ فاؤ۔ ان دونوں ہی شخصیات نے اپنی زندگی ذاتی مفادات سے ہٹ کر انسانیت کے لیے وقف کردی تھی، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسانیت کی خدمت کرنے والے دلوں کو فتح کرلیتے ہیں۔ سچ تو یہی ہے کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنی بے لوث خدمات کے باعث ہر پاکستانی کے دل میں زندہ رہیں گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔