بلوچستان اور پاکستان زندہ باد

سلمان عابد  اتوار 20 اگست 2017
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

اس برس پاکستان کا یوم آزادی بڑی شان و شوکت سے منایا گیا اور اس میں سیاسی، فوجی قیادت سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر پاکستان سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ یوم آزادی سے اپنی محبت کا اظہار ہر پاکستانی کا حق ہے، کیونکہ غلامی کے مقابلے میں آزادی ایک بڑی نعمت سے کم نہیں۔

اس آزادی کا احساس اسی کو ہو سکتا ہے جو آزادی کے مقابلے میں غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہو۔ اس لیے اپنی آزادی کے دن کو منانا ہمارا حق اور فرض دونو ں ہیں۔ بالخصوص ہماری نئی نسل کو سمجھنا ہوگا کہ آزادی کیونکر ضروری تھی اور اس کو کیسے ہم مضبوط اور محفوظ بنا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ گلہ کرتے ہیں کہ ریاست یا حکومت بلاوجہ جذباتیت کو نمایاں کر کے آزادی کے دن کو منا تی ہے، تا کہ لوگوں کے جذبات کو ایک خاص مقصد کے تحت جوڑا جاسکے، لیکن زیادہ اہم بات عوام کو اس امر کا حصہ بنانا ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں۔

کچھ برسوں میں بلوچستان کے حالات جو تھے اس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ جو محرومی اور تلخیوں کی سیاست سمیت حقوق کے نام پر ہونے والی جدوجہد نے وہاں ایک بڑی تقسیم پیدا کر دی تھی۔ مقامی لوگوں کو لگتا تھا کہ ریاست اورحکومت ایک مخصوص ٹولہ کے مفادات کو سامنے رکھ کر عام بلوچ لوگوں کے حقوق کو بری طرح پامال کرتی ہے چنانچہ ریاست حکومت اورعوام کے درمیان خلیج ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی۔ بلوچ قوم پرستوں نے اس ساری محرومی کی سیاست کو اپنے حق میں ’’بطور ہتھیار استعمال کیا، اور ان کو گمراہ کیا کہ ہمیں اسلام آباد کے خلاف مسلح  بغاوت کرنا ہو گی۔

یہ بات بھی برملا کہی اور لکھی جاتی تھی کہ اب بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا یا قومی پرچم لہرانا ممکن نہیں تھا۔ ایسے میں ریاستی و حکومتی ادارے بھی ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوتے تھے جو پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار مختلف طور طریقوں سے کرنا چاہتے تھے۔اس سارے کھیل میں نفرت پیدا کرنے میں غیر ملکی ہاتھ بھی نمایاں تھا جس میں بھارت بھی شامل ہے جو ان لوگوں کی مالی، انتظامی اور سیاسی حمایت میں پیش پیش ہوتا تھا جو ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے تھے۔

عمومی طور پر ہم خود بھی بلوچستان کی صورتحال پر ان لوگوں کو جو مسلح جدوجہد کرتے تھے ان کے لیے بہت سے امور پر سیاسی جواز فراہم کرتے ہیں، جس میں کچھ معاملات حقایق سے تعلق رکھتے تھے جب کہ بعض معاملات کو ہم بڑھا چڑھا کر بھی پیش کرتے تھے۔لیکن یہاں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو داد دینی ہوگی کہ اس نے اس تمام معاملات سے نمٹنے میں مختلف سیاسی اورانتظامی حکمت عملیاں ترتیب دی تھیں،ابتدا میں لگتا تھا کہ جو حکمت عملیاں اختیار کی جارہی ہیں وہ درست نہیں، لیکن اب جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگرچہ چیلنج بڑا ہے مگر حالات بہتری کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔

اس بار بلوچستان میں یوم آزادی کے حوالے سے بلوچستان کی صوبائی حکومت اور مقامی فوجی قیادت نے دو روزہ تقریبات کا شاندار انداز میں اہتمام کیا۔ اگرچہ 12اگست کو وہاں خود کش حملہ آوروں نے سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرکے کئی فوجی اور سول افسران کو شہید بھی کیا، لیکن خطرات کے باوجود ان تقریبات کو ملتوی کرنے کے بجائے انعقاد کرکے یہ ہی پیغام دیا گیا کہ ہم اس جنگ سے ڈرنے کے بجائے لڑیں گے۔

بلوچستان کے وزیر اعلی سردار ثنا اللہ زہری اور صوبائی حکومت کے ترجمان ڈاکٹر انوار کاکڑاور فوجی قیادت نے مجھ سمیت کئی صحافیوں اور کالم نگاروں کو بھی ان تقریبات میں شرکت کی خصوصی دعوت دی۔ میرے سمیت چوہدری غلام حسین، مظہر برلاس، حافظ طارق محمود، منصور علی خان، حبیب اکرم، بینش سلیم، حرا شفق، علی عمار یاسر، ناصر اقبال خان شامل تھے، جب کہ کئی اور اہم نام دیگر مصروفیات کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔یوم آزادی کی پروقاردو روزہ تقریبات بگتی اسٹیڈیم کوئٹہ میں سجائی گئیں تھیں۔ اس میں عورتوں، بچوں بچیوں سمیت مقامی شہریوں نے بھر پورشرکت کی۔ نہ صرف اسٹیڈیم میں بلکہ پورے کوئٹہ میں چاروں اطراف پاکستان کے سبز ہلالی پرچموں کی بہار سمیت پاکستان زندہ باد کے نعروں سے اسٹیڈیم سمیت پورے شہر میں نوجوانوں کی گونج تھی، جو متاثر کن تھی ۔

14اگست کو جو یوم آزادی منایا گیا، وہ محض کوئٹہ تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ مقامی خبروں اور صوبائی حکومت کے ترجمان ڈاکٹر انوار کاکڑ نے بتایا کہ اسی طرز کی تقریبات ہر شہر میں منعقد ہو رہی ہیں۔ جب ہم نے14اگست کو کوئٹہ شہر کو دیکھا تو مختلف گلیوں محلوں اور علاقوں سے نوجوان طبقہ ٹولیوں کی صورت میں جھنڈا اٹھائے پاکستان زندہ باد کے نعروں و ترانوں سے سڑکوں پر تھا، یہ واقعی یوم آزادی کا جشن تھااور محسوس ہوا کہ واقعی بلوچستان بدل رہا ہے۔ مقامی صحافیوں کے بقول یہ منظر پہلے ممکن نہیں تھا جو ملک سے اور صوبہ سے ان کی محبت کا بھرپور اظہارتھا۔ خاص طور پر نئی نسل کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سمیت میلہ میں فیملیوں کا بطور خاندان آنا اہم بات ہے۔

اچھی بات یہ لگی کہ ان تقریبات میں وزیر اعلی بلوچستان ثنا اللہ زہری، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض، وزیر داخلہ سرفراز بگتی، حکومتی وزرا سمیت مختلف طبقات کے لوگ پیش پیش تھے۔ وزیر اعلی اور کمانڈرسدرن کمانڈکا دونوں دن تقریبات میں خود تشریف لانا اور دیر تک بیٹھنا ان کی کمٹمنٹ کے پہلو کو بھی اجاگر کرتا تھا۔ مجھے اچھا لگا کہ دوسرے دن صوبائی حکومت کی جانب سے پورے اسٹیڈیم میں موجود لوگوں کی موجودگی میں صوبہ کے اہم شاعروں، مصنفین، ادیبوں، دانشوروں، گلوکاروں، اداکاروں سمیت دیگر شعبہ جات میں اہم نمایاں کارکردگی دکھانے والے مرد و خواتین کو خصوصی ایوارڈ دیے گئے۔

یقینی طورپر اگر بلوچستان کو پرامن بنانا اور یہاں سماجی  انقلاب لانا ہے تو وہ کلچرل کی سطح پر بڑے کام کی صورت میں ہی ممکن ہوگا۔ میں نے ایوارڈ لینے والوں کے چہرے کے تاثرات دیکھے، اور جو قومی ترانے سنائے گئے، نوجوانوں کی ترانوں اور ڈھول پر تھاپ، محسوس ہوا کہ واقعی بہت کچھ بدل رہا ہے۔ دس ہزار سے زیادہ لوگوں کی اس میلہ میں شرکت معمولی بات نہیں، بہت سے نوجوانوں نے ہمیں براہ راست بتایا کہ کئی برسوں کے بعد اس طرح یوم آزادی منانا اچھا لگ رہا ہے۔

اس یوم آزادی کے میلہ نے مجھ سمیت سب کو احساس دلایا کہ بلوچستان کے لوگ بھی ملک سے محبت کرتے ہیں، مسئلہ سازگار ماحول کی فراہمی اور ڈر اور خوف کا خاتمہ ہے۔ کیونکہ جب آپ نئی نسل کو تحفظ کا احساس دیں گے تو یقینی طورپر وہ اس کا اظہار بھی کریں گے جو ملک سے محبت کی صورت میں ہوگا۔

بلوچستان نے مجموعی طور پر اپنے صوبہ میں بڑا خون خرابہ دیکھا ہے۔ داخلی اور خارجی عناصر بھی اس بربادی کے ذمے دار ہیں۔ بلاوجہ اس سوچ کو اجاگر کیا گیا کہ بلوچستان میں نئی نسل بغاوت پر اتر آئی ہے اوراس کا علاج طاقت کے استعمال میں ہے۔ اب جو ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے توازن پر مبنی پالیسی اختیار کی ہے اس کے بہتر نتائج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔