ہمارے صبر اور ہمارے شکر کا عالم

شاہد سردار  اتوار 20 اگست 2017

نہ جانے کون لوگ ہیں جو ہمیں ’’ناشکری قوم‘‘ کہتے ہیں، حالانکہ جتنا شکر ہم لوگ کرتے ہیں شاید ہی کسی اور قوم کے افراد کرتے ہوں۔ ہم بات بے بات الحمدﷲ کہتے ہیں کسی کو بچوں کی تعداد بتائیں جب بھی کہتے ہیں کہ الحمدﷲ۔ گیارہ بچے ہیں (ویسے بھی اللہ کی عطاؤں پر الحمدﷲ اور اپنی خطاؤں پر استغفراللہ کہنا اللہ کو پسند ہے) اسی طرح جب چھینک آئے تو الحمدﷲ اور جب دوسروں کی ناک میں دم کرنے والی چھینک بند ہوں تو اس کے پاس بیٹھا شخص اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔

اسی طرح گیس اور بجلی کا بل اگر کسی کی جیب کی استطاعت کے مطابق آجائے جب بھی وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور اب تو بچہ اسکول سے، بندہ اپنے کام پر سے اور نمازی مسجد سے بخیریت  گھر لوٹ آئے تب بھی اللہ کا شکر ادا کیا جانے لگا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے انصاف میسر آنے پر بھی خدا کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں اللہ تعالیٰ کا شکر اس وقت بھی بجا لایا جاتا ہے جب اچھی بھلی جمہوری حکومت چل رہی ہوتی ہے تو فوج آکر اسے ایک طرف کرکے کرسیٔ صدارت پر براجمان ہوجاتی ہے، ہمارے ہاں حکمرانوں کے آنے جانے پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے احساسات اور محسوسات رکھنے کے باوجود کوئی ہمیں ناشکری قوم کہے یا مانے تو یہ بہت نا انصافی ہے۔

ہمارے صبر اور ہمارے شکر کا عالم یہ ہے کہ مہنگائی، لاقانونیت، دہشتگردی اور اسٹریٹ کرائمز وغیرہ نے عوام کا ناک میں دم کر رکھا ہے لیکن اس پر بھی ہم سبھی نے کب کا صبر کرلیا۔ اسی طرح کشمیر اور اس کی آزادی کے حوالے سے بھی ہماری قوم بین الاقوامی نزاکتوں اور ملکی حکمرانوں کی مجبوریوں کو بخوبی سمجھ کر اس پر بھی صبر و شکر کرچکی ہے۔

ہاں یاد آیا کہ گرین کارڈ یا امریکی ویزا میسر آنے اور ہیروئن کے کامیاب پھیرے پر بھی ہمارے ملک میں شکرانے کی دیگیں بانٹنے والے لوگ موجود ہیں۔  ہمارا سنجیدہ اخباری حلقہ یا آسان لفظوں میں ہمارے اخبارات کا قاری بھی عرصہ دراز سے صبر و شکر کی مثال بنا ہوا ہے۔ کیونکہ چند ایک اخبارات کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ افواہیں، خبریں بن گئی ہیں اور جو خبریں پروپیگنڈا، رپورٹنگ تک میں اب تعصب کا زاویہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر ملک کا میڈیا اپنے ملک کی سیاسی و ثقافتی پالیسی اور روایات کے طابع ہوتا ہے۔

میڈیا کی سچائی اور معروضیت  یکطرفہ ہوتی ہے۔ وہ اتنا ہی سچ بولتا ہے کہ جتنا سچ بولنے کی اسے اجازت ہوتی ہے یا پھر وہ سچ کہ جو اس کے ملک کے سیاسی مفادات کو نقصان نہ پہنچائے۔ یہ میڈیا کی مجبوری ہے کیونکہ وہ رائے عامہ کا ترجمان، اپنے ملک کی خارجہ و رفاہی پالیسی کے زیر اثر اپنی ریاست کا وفادار ہوتا ہے اور اس بات میں بھی قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اختلاف زندہ معاشرے کی علامت ہوتا ہے، کامل اتفاق تو صرف قبرستان میں ہی نظر آتا ہے مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم جس شخص کے چند باتوں کو ناپسند کرتے ہوں اس سے بعض اچھے پہلوؤں کا بھی اعتراف کرلیں۔

ہم انتہا پسندوں کی قوم کیوں ہیں کہ جب کسی سے اختلاف کرتے ہیں تو اس میں کوئی اچھائی ہمیں نظر نہیں آتی اور جب کسی کو پسند کرنے لگتے ہیں تو کسی کے عیب کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے میزان عدل میں بھی ایک پلڑا خامیوں ، قصور واروں کا ہوگا اور ایک اچھائیوں اور نیکیوں کا۔ مطلب یہ نہیںکہ خامیاں اور قصور سرے سے موجود ہی نہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اچھائیوں اور نیکیوں کا پلڑا بھارا ہوجائے۔

کیا ہم دنیا میں اس معیارکو نہیں اپناسکتے کہ خامیوں اور قصوروں کے ہوتے ہوئے ہم بحیثیت مجموعی افراد و اشخاص کا جائزہ لیں جو باتیں بری لگیں ان پر تنقید کریں جو اچھی ہوں انھیں سراہیں تاکہ ہماری قومی زندگی  کا یک رخی پن ختم ہوسکے جس کے نتیجے میں ہم قریب قریب ایک مردہ پرست قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ کیونکہ ہمیں دوسروں کا گریبان تار تارکرنے کا بہت شوق ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی ذرا بھی ہمت نہیں ہے اور اس حوالے سے بھی بیشتر اہل دل صبر کرچکے ہیں۔

ایسے میں عظیم ہیں وہ لوگ جو زندگی کی کڑواہٹ کو چکھنے کے بعد بھی کڑوے نہیں ہوتے اور اپنے اختلاف اور محبت کی مٹھاس قائم رکھتے ہیں اور بے وفاؤں کی اس سرزمین پر ایسے لوگوں کا وجود باعث صد شکر و ستائش ہی کہاجاسکتا ہے۔

ہمارے ملک کی یہ برہنہ سچائی ہے کہ آج بیرون ملک اشرافیہ کے 200 ارب ڈالر سے بھی زیادہ رکھے ہوئے ہیں اور تقریباً اس کے آدھے ان کے گھروں، فارم ہاؤسوں، کچن، واش رومز، اسٹور اور تہہ خانوں میں رکھے ہیں لیکن ہمارے عوام اپنا 70 واں جشن آزادی منانے کے بعد بھی صحت، تعلیم اور معیار زندگی کے حوالے سے دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں شمار، قطار ہوتے ہیں۔ اسے پاکستانی قوم کی بے حسی کہہ لیں یا پھر بد قسمتی۔

ہماری زندگی، ہمارے نہ ختم ہونے والے لالچ اور ہماری لا متناہی حرص و ہوس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم انسان اپنے گرد لالچ کی وسیع دیوار بناتے رہتے ہیں، مال و زر جمع کرتے ہیں، دوسروں کی عمر بھر کی کمائی لوٹتے ہیں اور قارون کے خزانے بناتے ہیں لیکن آخرکار چپ چاپ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور یہ مال و متاع دوسروں کے کام آجاتا ہے۔

اصل حقیقت یہی ہے کہ ہم انسان ان چیونٹیوں سے بھی بد تر ہیں جو عمر بھر اپنے جُثے سے بڑے دانے کھینچتی رہتی ہیں انھیں دھکیل کر، کھینچ کر بلوں تک لاتی ہیں اور جب دانوں کا انبار لگ جاتا ہے تو وہ ان کے سرہانے گر کر مرجاتی ہیں اور پھر ان کی عمر بھر کی جمع پونجی چوہوں کا نوالہ بن جاتی ہے۔ ہم خاکی اور خسارے میں رہنے والے انسان جانتے ہیں کہ ہم گھاٹے کے سوداگر ہیں لیکن ہم اس کے باوجود وہاں اس کے باوجود خسارے کی فیکٹریاں لگاتے ہیں، ان سے ہم مزید خسارہ پیدا کرتے ہیں اور یوں عمر بھر ہم خسارہ بیچتے اور خریدتے رہتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور دوسرے اقبال نے اپنے بیروزگار بیٹے کو روزگار دلانے کے لیے 30 فٹ کی بلندی سے کود کر ملازمت کی تعبیر پانے کی کوشش بیکار کی۔ ہمارے وزیراعظم ہاؤس کا ماہانہ خرچ 8 کروڑ روپے، ایوان صدر کا ماہانہ خرچ ساڑھے 7 کروڑ اور صدر مملکت کی تنخواہ میں 6 لاکھ کا اضافہ ہو جائے جب کہ اسی ملک کے مزدور سے کہاجائے کہ وہ 15 ہزار روپے میں 30 دن گزارے۔

یہ ملک جس کے حکمران اور ان کے رشتے دار معمولی چیک اپ کے لیے لندن، حکومتی خرچے پر جاتے ہیں، جب کہ اسی ملک کے 98 فی صد عوام کی حالت یہ ہے کہ ایک انجکشن اور 2 خوراک گولیوں کے لیے وہ سرکاری اور خیراتی اسپتالوں میں گھنٹوں لائن میں لگے رہتے ہیں۔ ان ہی اسپتالوں کے ٹھنڈے فرش پر عورتیں بچوں کو جنم دے کر دنیا سے چلی جاتی ہیں لیکن نہ انھیں علاج میسر آتا ہے اور نہ ہی انھیں دوا ملتی ہے۔

آئندہ آنے والی نسلیں شاید میٹروبس یا اورنج لائن ٹرین منصوبے کو یاد نہ کریں لیکن وہ یہ نہیں بھولیں گی کہ ان کے حکمرانوں نے اربوں روپے ان منصوبوں میں جھونک دیے لیکن ایک عام پاکستانی کو بچانے کے لیے انھوں نے کچھ نہیں کیا کتنی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جھاڑو دینے والے فقط سڑکیں اور گلیاں صاف کرتے ہیں جب کہ ہمارے حکمرانوں نے 70 سالوں میں پورا پاکستان صاف کردیا۔ در اصل جہاں اپنی ہی ذاتی کے گرد گھومنے والے لوگ رہتے ہیں وہاں بھربھری دیواریں، ٹوٹی چھتیں اور کچی پکی اینٹیں انسانوں سے زیادہ قیمتی ہوجاتی ہیں اور وہاں وقت اینٹ اورگارے کی دیواروں کو اگلے دور کے لوگوں کے لیے محفوظ کرلیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔