عوام کا کیا قصور

محمد سعید آرائیں  اتوار 20 اگست 2017

اگست 2017ء تک جمہوری کہلانے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کی تین تین بار چھ سیاسی حکومتیں آئیں اور ان 19 سال میں جنرل پرویز حکومت کے دور آمریت کے اگر نو سال کم کرلیے جائیں تو بیس سال سے زائد دونوں پارٹیوں کی چھ حکومتیں رہیں اور دونوں جماعتوں کو تین تین باریوں میں تقریباً دس دس سال تک حکومت کا موقع ملا۔

دونوں پارٹیوں کے دور میں ان کے چھ وزرائے اعظم، ایک صدر سیکڑوں وزرا اور لاکھوں پارٹی رہنما، ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیدار کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور جن کے پاس ’ککھ‘  نہیں تھا ان کو لکھ مل گیا اور ساتھ ہی دونوں پارٹیوں سے وابستہ ہزاروں کارکنوں کی نوکریاں میسر آئیں جو قابلیت نہ ہونے کے باوجود محض پارٹی وابستگی کی وجہ سے افسر بن گئے اور پہلے سے موجود غیر سیاسی اور سیاسی افسروں نے بھی بہتی ہوئی سیاسی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ ڈٹ کر غسل کیا اور آج سب کروڑوں سے کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔

پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں میں لکھاریوں کو بھی خوب نوازا گیا کوئی مشیر تو لاتعداد معاونین خصوصی اور باقیوں کو بھی سرکاری اداروں کی سربراہی ملی اور ان 20 سال میں اگر کسی کو کچھ نہیں ملا تو وہ تقریباً بیس کروڑ عوام ہیں جنھیں کوئی ریلیف تو نہیں ملا البتہ جھوٹے وعدے، دلاسے، آسرے اور اعلانات ضرور ملے ہیں۔

دونوں پارٹیوں نے اپنے اہم سیاسی کارکنوں کو بھی نوازا اور جو سچے اور نظریاتی کارکن تھے وہ منہ دیکھتے رہ گئے اور کمانے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ آج کی سیاست میں نوابزادہ نصر اﷲ خان اور جاوید ہاشمی جیسے رہنما بہت ہی کم ملیںگے جنھوں نے اپنی زمینیں فروخت کرکے سیاست کی اور اپنی جائیدادیں نہیں بڑھائیں بلکہ گنوائیں۔

ملکی سیاست دانوں میں شریف خاندان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اقتدار میں رہ کر رشوت، کمیشن اورکک بیکس نہیں لیے مگر اس بات سے وہ انکار نہیں کر سکتے کہ انھوں نے اقتدار میں رہ کر اپنی صنعتوں اور کاروبار کو تحفظ دیا، ٹیکس بچائے اور مفاد اور سہولتیں حاصل کیں جن کی اب تحقیقات ہونی ہے اور بہت کچھ منظر عام پر آنا ہے۔ اقتدار میں رہ کر اپنے خاص لوگوں کو اعلیٰ عہدے اور بڑے بڑے ٹھیکے دے کر اندھی کمائی کا موقع دینا تو کرپشن نہیں مانا جاتا تو اس طرح اربوں کی کمائی کو بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔

پی پی سربراہ آصف علی زرداری اپنی دو پی پی حکومتوں میں بہت بدنام کیے گئے انھیں ٹین پرسنٹ سے ہنڈریڈ پرسنٹ کا بھی خطاب ملا۔ اقتدار کے بعد ان کے خلاف مقدمات بھی بنے۔ انھوں نے جیلیں بھی کاٹیں مگر عدالتوں میں کچھ ثابت نہ کیا جاسکا اور وہ مسٹر کلین بن گئے مگر اپنی صدارت میں ان کے وزیراعظم گیلانی نے سپریم کورٹ کے حکم پر سوئٹزر لینڈ کے اکاؤنٹس میں موجود بڑی رقم بچانے کے لیے خط نہیں لکھا اور مقررہ مدت گزرگئی مال بچ گیا وہ نا اہل قرار پائے اور ناجائز رقم بچ گئی جس کے ملک واپسی کی امید تھی وہ امید پوری نہ ہوئی جس کی واپسی سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

سرے محل کی ملکیت سے پہلے انکار پھر اقرار وہ سب کچھ کیا تھا بجلی کے ناکام وزیر اور راجہ رینٹل کا خطاب پانے والے راجہ پرویز اشرف کو کرپشن کے باعث ہٹاکر بعد میں وزیراعظم بنادینے میں کیا حکمت تھی اس کا جواب قوم کو آصف علی زرداری سے آج تک نہیں ملا۔

پی پی کے دونوں وزرائے اعظم اپنی زندگی میں کرپشن اور اپنے غیر قانونی احکامات کے مقدمات بھگت رہے ہیں۔

دیانتداری کے دعویدار ایک پی پی اہم رہنما چوہدری نثار علی خان کے الزامات کا جواب نہیں دے رہے کہ واپڈا کی معمولی ملازمت کے بعد سیاست اور اقتدار میں رہ کر وہ اربوں روپے کی ملکیت کے مالک کیسے بن گئے اور یہی حال اکثر سیاسی رہنماؤں کا ہے۔

مسلم لیگ ن اور ق لیگ میں ایک نہیں سیکڑوں رہنما ہیں جو آج بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں جن کے پاس پہلے کچھ نہیں تھا آج وہ سیاست میں آکر ارب پتی ہیں۔ انصاف کے دعویدار پی ٹی آئی کا حال بھی مختلف نہیں جس میں موجود تقریباً تمام اہم رہنما دوسری پارٹیوں سے آکر پاک صاف بن گئے۔ عائشہ گلالیئی کے الزامات کے مطابق عمران خان جس کے جہازوں میں اور جن کی مہنگی بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ان کے پاس سیاست میں آنے سے قبل کیا تھا ۔ کیا انھوں نے مفادات کے لیے سیاسی پارٹیاں تبدیل نہیں کیں اور حکومتوں میں شامل رہ کا جاگیریں نہیں بنائی اور آج وہ عوام کے غم میں مرے جارہے ہیں۔

اے این پی، جے  یو آئی اور دوسری پارٹیوں میں بھی سیاسی فرشتوں کی کمی نہیں ہے جن کے ماضی کی بدحالی اور موجودہ خوش حالی دیکھ کر با آسانی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ایماندار اور صادق و امین ہیں اور ان کے علاقوں کی حالت زار کیا ہے اور وہ نصیب کہاں سے لکھواکر لائے کہ وہ تو سیاست میں آکر کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر انھیں ووٹ دینے والوں کی حالت ستر سالوں میں بھی نہیں بدلی اور وہ وہیں کے وہیں اور غربت کا شکار ہیں مگر ان کے ووٹوں سے جاگیریں بنانے والے اب بھی عوام کی خدمت اور ان کی حالت بدلنے کے دعوے کررہے ہیں۔ شاید ان کے نزدیک ان کا اپنا خاندان ہی عوام میں شمار ہوتا ہے جن کی حالت ضرور بدلی، ملازمتیں اور مراعات ملیں مگر عوام کو کچھ نہ ملا۔

بھٹو صاحب نے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے خوشنما اعلانات کیے تھے اور جب عوام کو کچھ نہ ملا اور بعد میں بھٹو صاحب افسوسناک انجام سے دو چار ہوئے تو اس کا غم بھی عوام نے منایا اور بھٹو کے نام پر ووٹ لینے والی پیپلزپارٹی اپنے قائد کا روٹی، کپڑا اور مکان کا منشور ہی بھول گئی مگر عوام بھٹو خاندان کو نہیں بھولے۔

بھٹو صاحب کے بعد پیپلزپارٹی کی تین حکومتوں نے عوام کو کچھ دیا نہ مسلم لیگ ن کی تین حکومتوں نے، دونوں کے درمیان دونوں ہی پارٹیوں کے رہنما توڑ کر جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ قائد اعظم بنوائی تھی۔ جس کے 5 سال میں ڈالر کی مالیت کی طرح کرپشن بھی کچھ کم تھی پٹرول بھی سستا تھا اور موجودہ جیسی مہنگائی بھی نہیں تھی، ن لیگ کے چار سال  میں وزیر خزانہ نے قرضے لے کر قوم پر قرضے بڑھائے اور عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ہر سال مہنگائی میں اضافہ کیا۔ ان کے دور میں خود ان کے اثاثے بڑھ گئے اور غریبوں کی گھروں، شادی بیاہ اور بیماریوں کے لیے بچائی گئی بینکوں میں جمع رقم 50 ہزار سے زائد رقم نکلوانے پر بھی ٹیکس عائد کرکے نئی مثال قائم کی گئی۔

عوام سیاست دانوں کو ووٹ دے کر کوئی ریلیف حاصل کر پاتے ہیں نہ فوجی آمریت بھگت کر اور دونوں ہی ادوار میں عوام پستے آرہے ہیں۔ عوام کی بد حالی کا خیال کبھی عدالتوں کو تو آجاتا ہے مگر عوام سے ووٹ لینے والوں کو کبھی آیا نہ کبھی مسلط ہونے والوں کو اور بے قصور عوام آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے تھے اور عوام دونوں ہی کی عوام دشمنی کا شکار چلے آرہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔