کشمیریوں کی جرأت کو سلام

نسیم انجم  اتوار 20 اگست 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

کشمیر کی جدوجہد آزادی ستر (70) سال پر محیط ہے، وہ نہتے ہیں، ان کا کوئی مددگار نہیں،لیکن اپنے آہنی عزم اور جذبہ آزادی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ 70 سال کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے نسلیں پروان چڑھتی ہیں، کشمیر میں نسل در نسل آزادی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے، جہد مسلسل جاری ہے، وہ شہادت کا تاج سر پر سجانے کے لیے ہر وقت میدان جہاد میں موجود رہتے ہیں۔ سلام ہے ان کی جرأت اور آہنی ارادوں کو، وہ اپنے مقصد کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔

کشمیر کی جدوجہد آزادی کا محور دراصل وہ آفاقی نظریہ ہے جو پاکستان کا ہے۔ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیریوں کا اصل وطن پاکستان ہی ہے، اسی وجہ سے وہ ہندوؤں کی مراعاتی پیشکش کے سامنے سر نہیں جھکاتے، بلکہ کشمیر پر پاکستانی پرچم لہرانے کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں۔ لیکن ہندوستانی فوج کشمیری مجاہدین کی ذرا سی دیر کی خوشی بھی برداشت نہیں کرپاتی ہے اور اسی پاکستانی پرچم کو ان کا کفن بنادیا جاتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی وردی پہننے پر بھی انھیں ایسی ہی سزا دی جاتی ہے۔

تنگ نظری، نفرت اور تعصب کی انتہا ہوچکی ہے۔ ان دنوں بھی بھارتی دہشتگردی عروج پر ہے، ہر روز نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو اغوا کرنا اور پھر انھیں بے دردی سے قتل کردینا روز کا معمول بن چکا ہے۔ بہادر اور دلیر مجاہدین موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آزادی کی جنگ لڑ رہے  ہیں اور بھارتی حکومت کی جلائی ہوئی آگ میں جھلس رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا تھا کہ انھوں نے کشمیری نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں پر دہشتگردی کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ اپنے ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ انھوں نے اپنی فوج کے ہاتھ باندھ کر نہیں رکھے ہیں، ہم فوج کو جدید سے جدید اسلحہ ہی فراہم نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ہم نے ان کا نفسیاتی طور پر ساتھ دیا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی بھی فوج کی پشت پر کھڑے ہیں۔

ایک اور بیان میں انھوں نے انسانیت سوز رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کے دفاع کے لیے بنائے گئے کالے قوانین ختم نہیں ہوں گے، شہری علاقوں میں فوج کو مختلف عسکری کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کالے قوانین انتہائی ضروری ہیں۔ انھی قوانین کے تحت مقبوضہ کشمیر میں دردناک اموات تقسیم ہورہی ہیں۔ کوئی بھارتیوں کے ہاتھ سے اسلحہ چھیننے والا نہیں۔

آج حالات یہ ہیں امت مسلمہ پر ہونے والے ظلم پر اقوام متحدہ جیسا ادارہ خاموش ہے۔ جب کہ اس ادارے کے چند بنیادی مقاصد تھے جن میں تمام ریاستوں کو خودمختاری اور انصاف کی فراہمی لازم و ملزوم ہے۔ لیکن کشمیر اور دوسرے اسلامی ممالک کے حوالے سے اقوام متحدہ اور اس کے دوسرے بڑے اور اہم ادارے سلامتی کونسل نے اپنا کردار ادا کرنے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور تقریباً 8 لاکھ افواج نہتے اور اپنا جائز حق مانگنے والے کشمیریوں پر مسلط کی ہوئی ہے۔

یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اقوام متحدہ اپنے قول و فعل میں ناکام ہوچکی ہے اور کشمیریوں کا خون پانی سے زیادہ ارزاں ہوچکا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت کے جریدے ’’آؤٹ لک‘‘ میں ارون دھتی رائے نے بھارت کو اس کا مکروہ چہرہ دکھانے کی کوشش کی تھی، وہ لکھتی ہیں کہ ’’جب ہم بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں پر مظالم اور نوجوانوں کو اندھا  بنانے کے لیے پیلٹ گنوں کا استعمال دیکھتے ہیں، تب ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اصل بحث کشمیر میں محض حقوق انسانی کی نہیں ہے کشمیر کے لوگ بھارتی مظالم کے خلاف جو جدوجہد کر رہے ہیں وہ صرف اور صرف بھارت سے آزادی کے لیے ہے۔ اس کے لیے وہ پتھروں کے سہارے لڑنے کے لیے تیار ہیں، وہ جان دینے کے لیے تیار ہیں، اسلحہ تھام کر کٹ مرنے کے لیے تیار ہیں۔ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جوان موت مر رہے ہیں کشمیری ثابت کرچکے ہیں کہ تحریک آزادی کچلی نہیں جاسکتی‘‘۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں بلکہ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے آزادی کی تحریک شدت پکڑتی جا رہی ہے۔ اس بات کا احساس بھارت میں ہر سطح پر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں سونیا گاندھی جو انڈین نیشنل کانگریس کی سربراہ ہیں، انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سیاست کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے، اگر اس کو حل نہیں کیا گیا تو جنوبی ایشیا میں جنگ چھڑ جانے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں آجاتی ہیں تو سب سے پہلے اس مسئلے کو حل کریں گی اور کشمیریوں کو ان کے حق سے محروم نہیں کریں گی، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی لیڈر اپنے وعدوں کو یکسر فراموش کردیتے ہیں جس طرح بھارت کے بانی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ کے مندوب برائے ہند و پاک کے نام پر ٹیلی گرام 16 اگست 1950ء میں رائے شماری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے ہرگز منکر نہیں ہیں کہ ہم کشمیر کے مستقبل کے لیے قراردادوں پر عمل پیرا نہیں ہوں گے، انھوں نے 12 فروری 1951ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں اپنی بات کو دہراتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہمارا کشمیری عوام سے یہ عہد ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کو ہی کرنا ہے۔

اسی طرح یکم مئی 1954ء کو کہا جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے وہ اب بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ ایسے بیانات پنڈت جواہر لعل نہرو نے بارہا دیے لیکن وہ اپنی بات سے مکرتے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت بددیانتی اور مکر و فریب کا سہارا لے کر مقبوضہ کشمیر کو اپنی ملکیت بنانا چاہتی ہے۔ یہ لوگ حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں، پوری دنیا کے سامنے ان کا گھناؤنا چہرہ آگیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر وعدہ خلافی کی اتنی بڑی اور شرمناک مثال دنیا بھر کی تاریخ میں شاید ہی ملے۔ بھارتی حکمران یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ پوری دنیا سے جھوٹ پر گواہی حاصل کرلیں گے لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے۔

بھارت کی سنگدلی اور جنون اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب وہ نہتے اور بے قصور کشمیریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں اور نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال آزادانہ کر رہا ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے گلی، کوچوں میں جنگ آزادی کا لفظ لکھ دیا ہے، بھارتیوں نے گلی کے سروں پر ریڈار لگا دیے ہیں تاکہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ ان دیواروں پر نعرے کون لکھ رہا ہے؟

اسرائیلی جو مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں اور ان کی عیاری کے واقعات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں انھوں نے بھارتیوں کو یہ سبق دیا ہے کہ کشمیریوں پر نت نئے مظالم کرتے رہیں تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں۔ انھیں دبانے کا یہی طریقہ ہے۔ بھارت تو خود جبر و تشدد کی فضا کو پروان چڑھانے اور مسلمانوں کا خون پینے میں خودکفیل ہوچکا ہے۔

2005ء میں چندی گڑھ میں اسرائیلی ایڈمرل نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطین کا کوئی حل نہیں بجز ان کے ان سب کو ختم کردیا جائے۔ یہ اسی قوم کا شخص تھا جو ہولوکاسٹ کا رونا روتی ہے۔ فلسطینی، کشمیری، شامی اور برما کے مسلمانوں کے علاوہ انڈیا اور دوسرے ملکوں میں بسنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے۔ لیکن دوسروں سے بھلا کیا شکوہ، مسلمان حکمران ان حالات میں بھی چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ اور خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ انھیں آنے والے وقت سے ڈرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔