رو بہ زوال معاشرہ؟

رئیس فاطمہ  اتوار 20 اگست 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ایک طبقہ وہ ہے جو ہزار پانچ سوکا پیزا شوقیہ کھاتے ہیں۔ برگر، کولڈ ڈرنک اور دیگر مشروبات سمیت سجی، تندوری، ران، تکہ اور کباب کھانا جن کے معمولات میں شامل ہے۔ گھروں میں کھانا پکانے کا رواج آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے۔ لاکھ ڈاکٹر اور حکیم اس جانب توجہ دلائیں کہ بازار کے کھانے اور تلی ہوئی اشیا معدے اور جگر کے لیے نقصان دہ ہیں۔ مشروبات تیزابیت پیدا کرتے ہیں، موٹاپا بڑھاتے ہیں لیکن لوگوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ بڑے ذوق و شوق سے بازار اور ہوٹل کے کھانے کھائے جاتے ہیں اور پھر ان کی زیادتی سے جنم لینے والے امراض کے لیے ڈاکٹروں کے کلینک بھرے نظر آتے ہیں۔

صحت عامہ سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے صرف لوگ کھانے کے لیے زندہ ہیں ۔ مرغن اشیا کولیسٹرول بڑھاتی ہیں ۔ دیگر مسائل بھی پیدا کرتی ہیں جن میں سرفہرست بلڈ پریشر کا ہائی ہونا اور شوگر ہونا عام ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ دونوں امراض بعض دفعہ ڈپریشن، اداسی اور مایوسی سے بھی جنم لیتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام خصوصاً شہروں میں رہنے والے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی سے بھی بیمار ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بڑے شہروں کے باسیوں کے لیے امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہے۔

اسپتالوں کی حالت بھی اچھی نہیں، سرکاری اسپتالوں کو تو اسپتال کہنا ہی نہیں چاہیے۔ دنیا بھر کی غلاظت ان اسپتالوں کے اندر اور باہر پائی جاتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کا رویہ مریضوں کے ساتھ نہایت خراب ہوتا ہے۔ جھڑک کر بات کرنا بیمار کا حال سنے بغیر نسخہ لکھ کر تھما دینا عام سی بات ہے۔ اگر کوئی ذمے دار یا باشعور شہری ان کے رویے پر احتجاج کرے تو برملا کہتے ہیں کہ ’’تفصیل سے دکھانا ہو تو میرے کلینک آئیے‘‘ اور ساتھ ہی اپنا وزیٹنگ کارڈ ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ اور ’’Next‘‘ کی آواز لگا کر دوسرے مریض کے لیے قلم گھسیٹنے لگتے ہیں۔

ڈاکٹروں کا اور کوچنگ سینٹرز کے اساتذہ کا رویہ بالکل ایک جیسا ہے۔ کوچنگ مافیا بھی کالجوں اور اسکولوں کے بجائے ٹیوشن پڑھانے پر ترجیح دیتی ہے۔ اسپتال اور اسکولوں کے معیار کو بڑھانے کے لیے حکومت کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ دنیا بھر میں مہذب ممالک سب سے زیادہ بجٹ صحت اور تعلیم کے لیے رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں سب سے زیادہ یہی دونوں شعبے نظرانداز کیے جاتے ہیں۔

سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں اور کوڑے سے رزق کمانے والے بچوں کی قسمت ایک ہی جیسی ہے جب کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بہترین کوالیفائیڈ ٹیچرز اور پروفیسرز ہوتے ہیں لیکن ان کی بے توجہی اور کافی حد تک کوچنگ سینٹرزکا اسٹیٹس سمبل بن جانا آڑے آتا ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں کبھی بھی نہ مہنگائی کا سدباب کرنا تھا، نہ بے روزگاری کا اور نہ غربت کا۔ یہ تینوں عناصر مل کر چوری، ڈکیتی، احساس محرومی اور سنگدلی کو جنم دیتے ہیں۔

مفلسی ہر احساس پر بھاری ہوتی ہے۔ بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح کے پیچھے بنیادی سبب مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب نو دولتیے خاندانوں کے بگڑے ہوئے وہ نوجوان بھی ہیں جو محض ’’انجوائے منٹ‘‘ یا اپنی بری عادتوں کی پرورش کے لیے چوریاں، ڈکیتیاں کرتے ہیں۔ گن پوائنٹ پہ لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ لیکن اکثریت کا تعلق اول الذکر وجہ سے ہے۔

دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کے لیے ایک وقت کا کھانا بھی مہیا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے صبح صبح اسکول جانے کے بجائے آٹو ورکشاپ میں جاکر پلاس اور پانے پکڑ کر زندگی کی راہ پہ چلنا سیکھتے ہیں۔ بستہ اٹھائے اسکول جانے والے بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور آنسو بہاکر دوبارہ کام میں مگن ہوجاتے ہیں۔  ورکشاپوں میں، ہوٹلوں میں اور کارخانوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں پر جو زیادتی ہوتی ہے اس کا نہ کبھی کوئی پرچہ کٹتا ہے نہ مقدمہ درج ہوتا ہے۔

یہ وہ محروم و مظلوم طبقہ ہے جو برگر شاپ پہ برگر کھانے والوں کو حسرت سے دیکھتا ہے ۔ حلوہ پوری، نہاری روٹی، بریانی ان کا مقدر نہیں، البتہ کوئی رحم دل، بھلا مانس انسان کبھی کبھی کچھ پیسے دے کر ان کا پیٹ بھروا دیتا ہے، لیکن وہ منظر بڑا دل خراش ہوتا ہے۔ جب دی گئی رقم میں کھانے والوں کی تعداد پوری ہوتے ہی ہوٹل والا یا حلوہ پوری والا اشارے سے انھیں روک دیتا ہے۔ ’’بس گنتی پوری ہوگئی، اب تمہاری باری بعد میں جب کوئی دوسرا سخی شخص آئے گا۔‘‘ اور ہاتھ کے اشارے پر کسمپرسی لیے لوگ لائن میں بیٹھ کر کسی دوسرے شخص کا انتظارکرتے ہیں۔

تعلیم اور صحت کے شعبے جس زوال کا شکار ہیں اس سے سب ہی واقف ہیں، شوگر، ڈپریشن اور امراض قلب کی دوائیں اتنی مہنگی کہ اس کے مقابلے میں مرنا آسان ۔ فارما سیوٹیکل کمپنیاں آئے دن قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیتی ہیں۔ جب کسی بھی دوا کی قیمت بڑھانا ہوتی ہے۔ اسے عارضی طور پر غائب کردیا جاتا ہے۔  پھرکچھ عرصے بعد نئی پیکنگ میں قیمت میں اضافے کے ساتھ مارکیٹ میں پھینک دی جاتی ہیں۔ چالاک اور ہوشیارکیمسٹ خود ہی ان دواؤں پہ نئی قیمت لکھ دیتے ہیں جن کے بارے میں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ آیندہ اسٹاک مہنگا ہوگا۔

ایکسپائر ڈیٹ کی دوائیں نئے لیبل کے ساتھ دوبارہ مارکیٹ میں آجاتی ہیں۔ جن کے استعمال سے نہ جانے کتنے لوگ اب تک موت کے منہ میں جاچکے ہوں گے۔ لیکن حکومت کو ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کسی کو سرے محل اور فرانس میں شاطو بنانے ہیں،کوئی بیرون ملک ملین ڈالرز کے اثاثے بنانے میں مگن ہے۔ جن قوتوں کو احتساب کرنا ہوتا ہے۔ ان کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ وہی بات دہراؤں گی کہ قانون اور عدالتیں وہ رقاصہ ہیں جو نوٹوں کی گڈیوں اور طلائی سکوں کی جھنکار پر ناچتی ہیں۔ ’’اقتدار نہیں چھوڑوں گا‘‘ جیسے جملے یوں ہی تو منہ سے نہیں نکلتے، ان کے تانے بانے دور بہت دور تک ملتے ہیں۔ جہاں گھنگھروکی جھنکار اور طبلے کی تھاپ کی آواز سب دولت کی دیوی کے اشارے پر نکلتی ہیں۔

تعلیمی اداروں میں طلبا منشیات کا استعمال بلا دھڑک کر رہے ہیں ،گورنر سندھ نے کہا ہے تعلیمی اداروں کے اطراف منشیات فروشوں پہ کڑی نگاہ رکھی جائے۔ نیز یہ بھی کہ ہر سال طلبا و طالبات کے خون ٹیسٹ کیے جائیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی روک تھام کے لیے یہ اعلانات کیے گئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان اعلانات پر عمل بھی ہوگا یا یہ بھی محض زبانی احکامات تک رہ جائیں گے۔ جیساکہ شادی ہالوں کو 10 بجے بند کرنے اور ون ڈش کی پابندی والے اعلانات، محترم وزیر اعلیٰ نے عہدہ سنبھالتے ہی ون ڈش کی پابندی کی خوش خبری عوام کو سنائی تھی، لیکن اس اعلان پر عمل درآمد کیوں نہ ہوسکا؟ شاید اعلان منسوخ کروانے میں ہاتھ اور شخصیات زیادہ طاقتور تھیں۔

اب یہ جو تعلیمی اداروں کے اطراف منشیات فروشوں کی نقل و حرکت پہ نظر رکھنے کی بات ہو رہی ہے، کیا اس پر سنجیدگی سے عمل ہوسکے گا؟ نشے کے عادی طالب علم ان ٹھکانوں اور لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو یہ زہر بیچ رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں کے پاس ہی ہوں۔ کیا خبر طلبا ہی میں سے کچھ منشیات فروشوں کے کارندے ہوں۔ مہذب ملکوں میں اٹھارہ سال سے کم عمر والے سگریٹ تک نہیں خرید سکتے۔ لیکن ہمارے ہاں چرس، بھنگ، شیشہ بار اور نشے کی سگریٹ، گٹکا عام ہے۔ نہ بیچنے والوں کو کوئی خوف اور پکڑے جانے کا ڈر۔ نہ ہی طلبا کو۔

روز مرہ کے عام نظارے ہیں کہ طلبا اسکول اور کالج سے چھٹی کے بعد ہونٹوں میں سگریٹ دبائے اور لمبے لمبے کش لیتے نظر آتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکول اور پرائیویٹ کالج کے مالکان خون ٹیسٹ کرانے کی زحمت کیوں کریں گے۔ ان کے لیے آئے دن مختلف مدوں میں بہانے بہانے سے طلبا سے رقم نکلوانا زیادہ ضروری ہے۔ رہ گئے سرکاری اسکول اورکالج، تو وہاں بھی یہ اعلان صرف کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہے گا۔ کیونکہ کوئی بھی یہاں سنجیدہ نہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے دن بہ دن روبہ زوال ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ حکومت کا درد سر نہیں۔ کاش بھٹو تعلیمی اداروں کو نیشنلائز نہ کرتے تو کم ازکم تعلیم اتنی روبہ زوال نہ ہوتی جتنی آج ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔