پشاور میں ڈینگی کیسز میں اضافہ، مریض سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے

ویب ڈیسک  اتوار 20 اگست 2017
 80 سے زائد مریضوں کے خون کے نمونے لئے جاچکے ہیں جن میں سے 20 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے، ڈاکٹر مطلوب : فوٹو : فائل

80 سے زائد مریضوں کے خون کے نمونے لئے جاچکے ہیں جن میں سے 20 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے، ڈاکٹر مطلوب : فوٹو : فائل

پشاور: خیبرپختون خوا میں ڈینگی کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تاہم مریض تحریک انصاف اور (ن) لیگ کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیرصحت پنجاب خواجہ عمران نذیر کا کہنا ہے کہ ہم جذبہ خیر سگالی کے تحت ڈینگی کے مریضوں کی مدد کےلیے پشاور  آئے ہیں لیکن خیبرپختون خوا کے وزیرصحت نے ملنے سے انکار کردیا۔

پشاور میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے اور اب تک 800 سے زائد افراد میں وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ گزشتہ روز ایکسپریس نیوز پر خبر نشر ہونے کے بعد محکمہ صحت پنجاب نے صوبے سے ماہر ڈاکٹروں کو پشاور بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اور کے پی کے اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کی اسکریننگ کے علاوہ ادویات فراہم کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا تھا۔ تاہم مبینہ طور پر محکمہ صحت کے پی  نے اسپتال حکام کو ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی معلومات فراہم کرنے سے روک دیا ہے اور خیبرٹیچنگ اسپتال انتظامیہ نے کہا ہے کہ حکومت کی ہدایت کے مطابق ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کرسکتے، ڈینگی سے متعلق تمام امور ضلعی انتظامیہ دیکھے گی۔ کے ٹی ایچ انتظامیہ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اسپتال میں اس وقت ڈینگی کے سب سے زیادہ 132 مریض زیر علاج ہیں اور صوبے بھر میں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 800 سے تجاوز کرچکی ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: پشاور میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد 800 سے تجاوز کرگئی

ایڈ منسٹریٹر موبائل یونٹ پنجاب ڈاکٹر مطلوب نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پنجاب سے پشاور پہنچنے والی موبائل ہیلتھ یونٹ کی ٹیم تہکال پایاں کے علاقے میں واقع سابق ایم پی اے عاطف خان کے حجرے میں مریضوں کا معائنہ کرنے پر مجبور ہے اور مریضوں کی اسکریننگ حجرے میں ہی کی جارہی ہے۔ ہیلتھ یونٹ میں مریضوں کے خون کے نمونے کی اسکریننگ کی جارہی ہے اور اب تک 80 سے زائد مریضوں کے خون کے نمونے لئے جاچکے ہیں جن میں سے 20 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے تاہم اسکریننگ کے بعد مریضوں کو ضروری ہدایات کے ساتھ ادویات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کو ترجیحی بنیادوں پر اسپتالوں میں داخل کرنے کی ضرورت ہے تاہم محکمہ صحت کے پی کی ہدایت پر اسپتال انتظامیہ تعاون نہیں کررہی جب کہ محکمہ صحت کے پی نے اسپتالوں کو ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: زیکا، ڈینگی اور چکن گونیا پھیلانے والے مچھروں سے نمٹنے کا انوکھا منصوبہ

دوسری جانب مسلم لیگ(ن) خیبرپختون خوا کے صدر امیر مقام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرصحت پنجاب خواجہ عمران نذیر کا کہنا تھا کہ ہم پشاور میں سیاست کرنے نہیں آئے لیکن ہمیں کہا گیا کہ ہمارے آنے سے سارا معاملہ سیاست کی جانب جارہا ہے اس لئے فیصلہ کیا کہ ہم واپس لاہور چلے جائیں اور اگر دو تین دن مین مسئلہ حل نہ ہوا تو دوبارہ واپس آئیں گے۔

خواجہ عمران نذیر کا کہنا تھا کہ ڈینگی کے خاتمے کے لئے جو خدمات اور اشیا ضروری ہیں ہم فراہم کریں گے ہمارے ساتھ آنے والی موبائل ٹیمیں اور سروے یونٹ پشاور میں ہی رہیں گی ڈینگی کی روک تھام کے لئے پنجاب موبائل یونٹ کے پی حکومت کے حوالے کردی ہیں جب کہ 3 ڈینگی مشینیں اور 8 اسپیشل ایمبولینسز پنجاب سے آرہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاروے کو ختم کرنے کے لئے کے پی حکومت کے پاس کچھ نہیں صرف ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی ایک مشین موجود ہے جس سے لاروا کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔

اس سے قبل ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے خواجہ عمران نذیر نے بتایا کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں اور نا ہی ہم پنجاب سے سیاست کرنے آئے ہیں ہم جذبہ خیرسگالی کے تحت دکھی انسانیت کی خدمت اور مریضوں کے مفاد کی خاطر آئے ہیں، ہمیں ڈینگی کے خلاف کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے لیکن ہم نے اس حوالے وزیرصحت خیبرپختون خوا سے ملاقات کے لئے بار بار فون کیا تاہم وہ ہمارا فون تک نہیں اٹھا  رہے۔

وزیرصحت پنجاب کا کہنا تھا کہ پشاور کے علاقے تہکال میں ڈینگی کے سیکڑوں مریض موجود ہیں اور فوری علاج کی ضرورت ہے لیکن پشاور کے اسپتالوں میں ان مریضوں کو داخل نہیں کیا جارہا اور کے پی حکومت ڈینگی کے مسئلے کو آسان لے رہی ہے، ہم نے پنجاب سے مزید ادویات اور ٹیسٹ کے لئے کیٹس منگوالئے ہیں جب کہ مزید 2 موبائل ٹرک بھی آج  پشاور پہنچ جائیں گے اگر وزیر صحت نے اپنی ہٹ دھرمی نہ چھوڑی تو ہم سامان امیرمقام کو دےکر واپس چلے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔