عید قرباں اور صفائی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 21 اگست 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کراچی، جس کا شمار آبادی کے اعتبار سے دنیا کے چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے، اب اس شہر کو ایک اور اعزاز یہ حاصل ہوگیا ہے کہ اس کا شمار دنیا کے چند گندے ترین شہروں میں بھی ہونے لگا ہے۔ یہ ’اعزاز‘ ہماری صوبائی حکومت کی انتھک کوششوں سے حاصل ہوا ہے، جس میں ہمارے شہر کے منتخب نمایندوں کا بھی خاصا حصہ ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں باران رحمت کے بغیر بھی زمینی بارش (یعنی گٹروں سے برآمد ہونے والا سیوریج کا پانی) مختلف علاقوں میں وافر مقدار میں تالاب کی سہولت پیش کردیتے ہیں۔ راقم نے اس مسئلے پر اپنے کالموں میں اس طرف بھی توجہ کئی مرتبہ دلائی ہے کہ اس میں عوام کا بھی بہت حد تک کردار ہے۔

آج دوبارہ اس مسئلے پر کالم تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس گندے ترین شہر کے باسی عید قرباں کے لیے جانور خرید کر گھر لا رہے ہیں اور ابھی سے یہ عمل شہر میں مسائل میں اضافے کا باعث بننا شروع ہوگیا ہے، اگر اس اہم مسئلے پر ہماری توجہ نہ گئی تو جانوروں کی قربانی ہونے بعد بھی صحت و صفائی کے مسائل بڑھیں گے، جس سے ڈینگی وغیرہ جیسے امراض بھی جنم لے سکتے ہیں۔ اگر عوام اپنے طور پر کوشش کریں تو حکومت اور بلدیاتی اداروں کی خراب کارکردگی کے باوجود مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں سب سے پہلا مسئلہ ٹریفک جام ہونے کا ہے۔ ابھی سے جگہ جگہ چارہ فروخت کرنے والے آباد ہوگئے ہیں اور قوی امید ہے کہ عید تک یہ مین شاہراہوں سے لے کر ہر محلہ اور گلی کے کونے پر بھی موجود ہوں گے۔ یہ عمل ٹریفک جام کا باعث ہوتا ہے کیونکہ عموماً چارہ وغیرہ فٹ پاتھ یا سڑک کے کناروں پر رکھ کر فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر کوئی چارے والا سڑک سے دور فروخت کر بھی رہا ہو تو یہاں آنے والے خریدار سڑک پر ہی اپنی گاڑیاں کھڑی کرنا شروع کردیتے ہیں اور کوئی ان کو ٹوکے تو کہتے ہیں کہ ’بس ابھی آیا، ایک منٹ!‘ یوں ایک ایک کرکے گاڑیاں پارک ہوتی رہتی ہیں اور ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔

اگر ہم صرف ایک منٹ کے لیے ہی گاڑی درست جگہ پر پارک کردیں تو ٹریفک جام ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کوئی فرد ایک گائے لے کر آتا ہے اور اسے گلی میں باندھ کر پوری گلی ہی بند کردیتا ہے، یا کبھی سڑک کے کنارے باندھ دیتا ہے جس سے سڑک مزید تنگ ہوجاتی ہے اور ٹریفک جام ہونے لگتا ہے۔ یہ بڑا عجیب مزاج ہے کہ ایک شخص اپنا جانور راستے میں باندھ کر خود تو انجوائے کرتا ہے اور اپنے اس دکھاوے پر بڑا خوش ہوتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت پریشان ہوتی ہے۔

عید قرباں سے بہت پہلے خرید کر جانور گھر کے باہر باندھنا بھی ایک کلچر بنتا جا رہا ہے، کوئی اپنی تنگ گلی میں جانور باندھتا ہے تو کوئی بکروں کو فلیٹ کے دروازے کے ساتھ باندھتا ہے، یوں ہفتوں قبل لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے اور متوسط علاقوں میں تو گلیاں ویسے ہی اتنی چھوٹی اور تنگ ہوتی ہیں کہ ایک چھوٹی کار بھی مشکل سے گزرتی ہے اور کہیں موٹر سائیکل کا گزر بھی مشکل ہوتا ہے، اس کے باوجود چند ایک غلط لوگوں کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اپارٹمنٹس اور فلیٹوں میں تو روشنی اور ہوا کا گزر بھی نہیں ہوتا، ایسے ماحول میں جانورں کی غلاظت اور بدبو کیا حال کرتی ہوگی اس کا شاید ہمیں احساس نہیں۔ عوام کی ایک بڑی خاموش اکثریت ایسی ہے کہ وہ اس مسئلے پر زبان نہیں کھولتی، دل ہی دل میں کڑھتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اس مسئلے پر اظہار خیال کریں اور لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

اس کے بعد اگلا مرحلہ جانور قربان کرنے کا ہوتا ہے کہ جس میں عموماً ہر دوسرا فرد اپنے دروازے پر ہی جانور قربان کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس کے باعث ہر گلی میں خون، پانی، کیچڑ اور جانور کی باقیات اور فضلہ پڑا ہوتا ہے، یوں اس طرح وہ ماحول اور فضا بنتی ہے کہ کسی بھی گلی سے گزرنا اور سانس لینا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔

جو لوگ یہ عمل کرتے ہیں ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، صبح و شام جن نالیوں اور گٹروں سے سیوریج کا پانی نہیں گزرتا اور گٹر ابلتے ہیں، وہاں سے قربانی کے جانوروں کے خون کا اخراج کیسے ہوگا؟ اور جن گلیوں سے جمعدار کچرا اٹھا نے نہیں آتا وہاں اس غلاظت کی صفائی کرنے کون آئے گا؟ آج سے چند دہائیوں قبل لوگ جانور قربان کرنے کے لیے گڑھا بناتے تھے یا پھر کھلے میدان کا رخ کرتے تھے، اب یہ رحجان ہی نہیں، میدان بھی ہمارے نمایندوں نے چائنا کٹنگ کرکے ختم کردیے۔

سوال یہ ہے کہ کیا جانور قربان کرنے کے لیے ہم آج اس قسم کی صفائی کا اہتمام نہیں کرسکتے؟ کرنے والے آج بھی اہتمام کرتے ہیں، جب ہم ہزاروں لاکھوں کا جانور خرید سکتے ہیں تو چند سو روپے اور خرچ کرکے صفائی کو بھی ممکن بناسکتے ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو جانور لانے سے قبل جانور باندھنے کی جگہ پر مٹی دلواتے ہیں اور جب جانور قربان ہوجاتا ہے تو پھر اس مٹی کو پھنکوا دیتے ہیں۔ یوں ان کے دروازے اور گلیاں صاف رہتی ہیں۔

جماعت اسلامی اس سلسلے میں نہایت تعریف کی مستحق ہے کہ اس نے قربانی کے اس عمل میں صفائی کا بھرپور خیال رکھا ہوا ہے، کہیں وہ کھلے میدان میں جانور ذیبحہ کرتے ہیں، کہیں پختہ فرش کے ساتھ نالی بنا کر گڑھے تک جانور کا خون جانے کا راستہ بناتے ہیں، گویا ٹھوس بنیادوں پر صفائی کا اہتمام کرتے ہیں، کچھ اور تنظیمیں بھی ایسا ہی کرتی ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ صفائی کا یہ عمل بہت تھوڑی تعداد میں نظر آتا ہے، لوگوں کی بھاری اکثریت صفائی کے اس عمل سے کوسوں دور ہے اور زیادہ تر دکھاوے کے چکر میں پڑی ہوئی ہے جس سے مسائل میں اضافہ ہے ہو رہا ہے۔

اس سلسلے میں راقم کا خیال ہے کہ علما بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، خاص کر اپنے جمعے کے خطبے میں عوام کی توجہ اس طرف دلا سکتے ہیں اور انھیں باور کراسکتے ہیں کہ یہ مسئلہ حقوق العباد سے جڑا ہوا ہے یعنی کسی دوسرے کو تکلیف پہنچانا کس قدر سخت گناہ ہے۔ اس کے علاوہ کھالیں جمع کرنے والے مختلف گروپ بھی لوگوں کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرا سکتے ہیں، کیونکہ وہ عوام سے براہ راست رابطے میں ہوتے ہیں۔ ہم بطور مسلم ایک باشعور ملت ہیں، ہمیں ایسے مواقعوں پر چاہیے کہ مسلمانوں کی ایک اچھی تصویر پیش کریں تاکہ غیر مسلم بھی اس سے متاثر ہوں اور ایک اچھا پیغام جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔