خوشامد اور نااہلی کی دیوی

راؤ منظر حیات  پير 21 اگست 2017
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

تین برس پہلے ساؤتھ افریقہ جانے کااتفاق ہوا۔ سرکاری وفدمیں شامل تھا۔وہاں مختلف کارخانوں میں جانے کااتفاق ہوا۔کپڑے دھونے کے پاؤڈر بنانے کا ایک وسیع یونٹ بھی فہرست میں شامل تھا۔ایکڑوں پرپھیلی ہوئی کشادہ فیکٹری، منظم اورخوبصورت عمارت۔اس میں سیکڑوں لوگ کام کررہے تھے۔جدیدترین کارخانے کامالک پاکستانی تھا۔کراچی سے تعلق رکھنے والاشخص۔جنوبی افریقہ میں واشنگ پاؤڈربنانے کاسب سے بڑاسیٹھ تھا۔

خوشی بھی ہوئی اورتعجب بھی۔ خوشی اسلیے کہ اپناہم وطن پردیس میں بے حدکامیاب تھا۔تعجب اسلیے کہ اکثرپاکستانی یورپ یاامریکا جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں مگرکوئی بھی افریقہ جاکر کاروبار کرنے کی واضح خواہش نہیں پالتا۔ وطن کواس درجہ کامیاب دیکھ کرایک عجیب طرح کی تسلی ہوئی۔

مل دیکھنے کے بعدوہ صاحب اپنے دفترلے گئے۔ دیدہ زیب اورشانداردفترتھا، افریقی نوادرات سے بھرپور۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سے لائے گئے غالیچے اور قالین بھی بچھے ہوئے تھے۔مقامی اوراپنے وطن کی خوشبو  سے بھرپور اور آرام دہ دفترمیں سرکاری ملاقات ایک ذاتی حیثیت اختیارکرگئی۔دیارِغیرمیں مادری زبان میں بات کرنا ویسے بھی اچھالگتاہے۔اپنائیت کاوہ احساس ہوتاہے جو صرف اورصرف ملک سے باہررہنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

مجھے اس شخص کانام بھول گیا ہے۔حالانکہ اس نے مجھے اپنا کارڈ بھی دیا تھا۔ لاپرواہی کی بدولت وزٹنگ کارڈ بھی اِدھراُدھرہوگیا۔اس تحریرکے لیے اس کا نام مقصود تصور کرلیتے ہیں۔مقصودصاحب سے سب سے پہلاسوال تھا کہ آپ یہاں کب آئے بلکہ کیوں آئے۔سوال نے اس شخص کوبے حدسنجیدہ کردیا۔ بتانے لگاکہ پہلے کراچی اور پھر لاہورمیں کئی سال نوکری کرتارہا۔شائددس سال ۔پھرایک دن فیصلہ کیا کہ ملک چھوڑکرکسی ایسے ملک میں کاروبار کیا جائے جہاں پھلنے پھولنے کے بہترمواقع ہوں۔ پڑھا لکھا شخص تھا۔

ساؤتھ افریقہ جانے کاتجزیہ کیاتووہاں حالات بہت موافق نظرآئے۔لہذاسیدھاوہاں پہنچ گیا۔مگرسوال کا ایک حصہ مکمل طورپرتشنہ تھا۔پاکستان کیوں چھوڑا۔مختلف باتوں سے پہلے مقصودنے ایک قصہ سنایاجوچندمہینے پہلے سوشل میڈیاپربھی کافی مقبول رہا۔یہ قصہ تین برس پہلے اس تارکِ وطن پاکستانی نے سنایاتھا۔روس کے حصے بخرے ہونے سے پہلے ایک اہم سرکاری افسرکے متعلق خفیہ اداروں نے رپورٹ کی کہ وہ ایک امریکی ایجنٹ ہے۔ سویت یونین میں اس سے سنگین جرم کوئی ہوہی نہیں سکتا تھا۔

رپورٹ کے بعد ایک نظرنہ آنے والازلزلہ سا آگیا۔ کیونکہ وہ شخص پورے روس میں سرکاری اہلکاروں کے تبادلے اورترقیوں کے معاملات دیکھتا تھا۔ بہت اہم شخص تھا۔اپنے ملک میں اسے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے برابر کا اہلکارکہہ سکتے ہیں۔کڑی نگرانی شروع ہوگئی۔اس کے دفتراورگھرکے ہرکمرے میں جاسوسی کے آلات لگادیے گئے ۔جوبات کرتاتھا، خفیہ ادارے والے سنتے بھی تھے اور ریکارڈبھی کرتے تھے۔ اس کے ٹیلیفون بھی ٹیپ ہوناشروع ہوگئے۔

کئی مہینوں کی انتہائی جابرنگرانی کے بعدکسی بھی خفیہ ادارے کواس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔کوئی ایساسراغ تک نہ ملاجسکی بدولت اسے امریکی ایجنٹ یاجاسوس یاتعاون کنندہ سمجھا جاسکے۔ جب سویت یونین کی یولٹ بیوروکوتفتیش کے نتائج بتائے گئے توفیصلہ ہواکہ افسرکواسی پوسٹ پررکھاجائے۔ جس ادارے نے الزام لگایاتھا،اس کے سربراہ کی بھرپورسرزنش کی گئی۔خیرکئی سال گزرگئے۔سرکاری افسر ریٹائر ہوگیا اور اس کے بعد امریکا منتقل ہوگیا۔

چندمہینے بعد اسی خفیہ ادارے کے سربراہ کا، جس نے شکایت کی تھی، سرکاری کام سے امریکا آنا ہوا۔ ایک جگہ دونوں کی ملاقات ہوئی۔خفیہ ادارے کے سربراہ نے کہاکہ ہمیں یقین تھاکہ آپ امریکی ایجنٹ ہیں مگرتحقیق کے بعدالزام غلط ثابت ہوا۔ریٹائرڈافسرنے ٹھنڈا سانس لیا۔کافی کے گھونٹ پی کرکہنے لگا۔آپکاالزام سوفیصد درست تھا۔میں واقعی امریکی مفادات کی نگرانی کررہا تھا۔ سویت یونین سے امریکا منتقل ہونابھی اسی کام کاایک طرح کاانعام ہے۔خفیہ ادارے والاششدررہ گیا۔ مگر کیسے۔ ہماری تفتیش توانتہائی جامع تھی۔

آپ نے کوئی ایساکام نہیں کیاجسکی بدولت یہ الزام ثابت ہوجائے۔بوڑھے روسی نے قہقہہ لگایا۔کہاکہ جناب آپ مکمل طورپرصحیح تھے مگرمیں نے آپ کوغلط ثابت کیا۔اسلیے کہ میں نے صرف ایک کام سرانجام دیا۔مجھے امریکی حکومت نے اس لیے نوازا تھاکہ میں ہرعہدے پرنااہل لوگ تعینات کروں۔اہلیت والے افسروں کوکھڈے لائن رکھوں۔ جتنااہم عہدہ ہوتاتھا، اس کے مطابق نااہل ترین انسان کووہاں لگاتاتھا۔بیس سال کے طویل دورمیں نے کسی بھی اہل سرکاری ملازم کومناسب جگہ نہیں لگنے دیا۔یہ کام میں بہت آسانی سے کرتارہا۔اس کی بدولت نااہل اہلکاروں کی ایسی کھیپ تیارکرڈالی جس سے ملک کی چولیں ہل گئیں۔

یونین کی بنیادیں کھوکھلی ہوگئیں۔ اب تمہاراملک اپنابوجھ اُٹھانے میں بھی ناکام ہے۔ مقصود آرام سے کہنے لگا۔پاکستان میں نوکری کرنے کے بعد یقین ہوگیاکہ یہاں اہلیت دراصل گناہ کبیرہ ہے۔اہل اور لائق آدمی کوہرقیمت پرکھڈے لائن لگایا جاتاہے۔اوروہ وہیں سڑتا رہتا ہے۔ بوڑھے روسی افسرکی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دراصل ہم اہلیت سے گھبرانے والے لوگ ہیں۔ جنوبی افریقہ میں مجھے اس طرح کی مثالیں بہت کم نظر آئیں۔

جب تک گورے صدور رہے تویہاں کسی قسم کی  سفارش اور اقرباپروری کانام ونشان نہیں تھا۔لیکن جب سے مقامی لوگ مسند اقتدار پر آئے ہیں یہاں بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔پرابھی بھی اکثرکام بہترنظام کی بدولت ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔کہنے لگا، پاکستان کے حالات کوآپ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔وہاں اصل میں کیاہوتاہے۔کام کیسے کروایاجاتاہے۔ سب کومعلوم ہے۔کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

مقصوداپنے دل کاغبارنکال رہاتھا۔بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگا۔جب کلیدی اداروں پرنااہل لوگ تعینات ہوتے ہیں،توانھیں بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ اس عہدے کے قابل نہیں ہیں۔چنانچہ ایک اَن دیکھانظام حرکت میں آتاہے۔نالائق لوگوں کواپنی پوسٹ بچانے کے لیے آگے لایاجاتاہے۔مقصدایک اوربھی ہوتاہے کہ کوئی ان کی جگہ نہ لے لے۔چنانچہ ایک پوراپہیہ چلتاہے۔جس میں نااہل لوگ اپنے اردگردنااہل ترین لوگوں ہی کوپنپنے دیتے ہیں۔پاکستان میں بالکل یہی کچھ ہورہاہے۔

اَن دیکھے نظام پرکوئی بھی تنقیدنہیں کرتا۔کیونکہ یہ اکثریت کے مفادمیں ہے۔سیاست سے لے کرسرکارکی نوکری تک، مذہبی پیشواؤں سے لے کرنجی اداروں تک،بالکل ایک جیسا حال ہے۔مقصودکی پی اے اتنی دیرمیں دفترکے اندرداخل ہوئی۔ سب نے کافی کے ایک اوردورکاشریفانہ سامطالبہ کیا۔ چند منٹوں بعدکافی ہمارے سامنے موجودتھی۔برتنوں سے بھاپ نکل رہی تھی۔ مقصودنے کہاکہ وہ دنیاکی بہترین امریکی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے۔اسے پاکستان کابہت کم تجربہ تھا۔ مگر چند سالوں میں نااہلیت اوراس کے ساتھ منسلک مسائل کاادراک ہوگیا۔

کافی پیتے ہوئے مقصودایک دم غمگین ساہوگیا۔بات آگے بڑھنے لگی۔سوچ کرکہنے لگاکہ جب نااہلیت کی دیوی طاقتورہوتی ہے تووہ سب سے خوفناک ہتھیاراستعمال کرتی ہے اوروہ ہے خوشامد۔بلکہ بے انتہا خوشامدکا۔پاکستان میں کام کرتے ہوئے اندازہ ہواکہ اس ہتھیارکاکوئی توڑنہیں ہے۔یہ ہیرے کے جگرکوکاٹ سکتا ہے۔پتھرکوموم میں بدل کربے ثمرکرسکتاہے۔مقصودکے مطابق خوشامدسے پاکستان میں کوئی بھی ادنیٰ انسان بے پناہ ترقی کرسکتا ہے۔ بلکہ کچھ بھی کرسکتاہے۔کچھ بھی کرواسکتا ہے۔

نااہل لوگ اہم عہدوں پرپہنچ کراپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے خوشامدجیسے مہلک ہتھیارکابے دریغ استعمال کرتے ہیں۔لائق لوگوں کی اکثریت خوشامدکی سائنس کوسمجھ ہی نہیں پاتی۔جب تک انھیں کچھ ہوش آتی ہے، معاملات ان سے بہت آگے جاچکے ہوتے ہیں۔زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہوتا ہے۔ اہل افسریالائق آدمی کو “نکو” بناکرپیش کردیا جاتا ہے۔ نااہلیت کی دیوی وہ رقص کرتی ہے جس سے حکومتیں ختم ہوجاتی ہیں اورملک ٹوٹ جاتے ہیں۔دوگھنٹے کے عرصے میں مقصودنے بہت سی مثالیں دیں۔کئی باتیں لکھ سکتاہوں مگر اکثرضبط تحریرنہیں کرسکتا۔

تین سال پہلے کی باتوں پر جب پاکستان کے حالات کے مطابق غورکرتاہوں تولگتاہے کہ مقصودبالکل سچ بول رہا تھا۔اس کی ایک ایک بات حقیقت تھی۔ ہمارے نظام میں نااہلی،خوشامداوراہلیت کی تذلیل نے ہرمعاملہ بربادکر رکھا ہے۔ستم یہ بھی ہے کہ جب تک کسی صدر، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کوسب کچھ پتہ چلتاہے کہ اس کا دردناک انجام سامنے آچکتاہے اورپردہ گرنے والا ہوتا ہے۔اس وقت بہت دیرہوچکی ہوتی ہے۔جب حقیقت پتہ چلتی ہے تووہ اس وقت تک نحیف اوربے حدلاغر ہوچکے ہوتے ہیں۔ انھیں تاریخ نہیں بلکہ ہرطرح کے کوڑے دان میں مستقل پھینک دیاجاتا ہے۔

مسند اقتدار سے اُترنے کے بعدجب اپنے زوال کی داستان پرغور کرتے ہیں توسمجھ جاتے ہیں کہ انھیں کسی دشمن نے نہیں،بلکہ نااہل اورخوشامدی درباریوں نے کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔ مگر اس وقت تک ہرچیزبدل چکی ہوتی ہے۔چہرے بھی، دربار بھی، چوبداربھی اورمشیران کرام بھی۔مگرحیرت انگیزبات ایک اوربھی ہے۔وہی نااہل درباری جوپہلے بادشاہ کو فنا کرچکے ہوتے ہیں،انتہائی معصوم شکلیں بناکرنئے بادشاہ کے سامنے دوزانوہوجاتے ہیں۔بلکہ کئی توسربسجودنظرآتے ہیں۔

نیاحاکم،انھی لوگوں کونئی شاہی خلعت عطا کرتا ہے۔ یہی کاری گرلوگ نئے نئے قصیدے کہتے ہیں۔نئے بادشاہ کے اقبال کی بلندی کی دعائیں مانگتے ہیں۔مگراندرسے یہ خوب قہقہے لگاتے ہیں، کہ واہ،کیسے سب کوکمال ہوشیاری سے چاروں شانے چت کرڈالا۔بادشاہ ماراجاتاہے مگردرباری ہمیشہ قائم ودائم رہتے ہیں۔یہی ہمارے ملک کانظام ہے اوریہی ہماری بربادی کاقصہ۔نااہلی اورخوشامدکی دیوی اس ملک پرہمیشہ قابض رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔