میں نظریاتی ہوگیا ہوں

ظہیر اختر بیدری  پير 21 اگست 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے سابق وزیراعظم نواز شریف وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد بڑی دلچسپ باتیں کررہے ہیں۔ آج کل وہ عوام کو بتارہے ہیں کہ وہ ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ اب تک غیر نظریاتی تھے۔ سیاست دانوں کے لیے نظریہ ایک لباس ہوتا ہے، اگر کوئی سیاست دان غیر نظریاتی ہوتا ہے تو اہل خرد اسے بے لباس کہتے ہیں۔ عشروں سے غیر نظریاتی ہوتے ہوئے عوام پر حکومت کی جا رہی ہے۔

جب نواز شریف مسلسل ملک کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو یہ سوال ذہن میں فطری طور پر آتا ہے کہ کیا میاں صاحب کی یہ ترقی کسی نظریے کے تحت ہوئی ہے یا محض ہواؤں میں ہوئی ہے۔ کیونکہ کسی نظریے کے تحت ہونے والی ترقی نظر بھی آتی ہے اور غیر نظریاتی ترقی ہوتی تو ہے لیکن نظر نہیں آتی، کیونکہ وہ ہواؤں میں ہوتی ہے۔ نظریاتی حوالوں سے ہونے والی ترقی عوام کی زندگی میں نظر آتی ہے، غیر نظریاتی ترقی ہمیشہ ایلیٹ کلاس ہی میں ہوتی ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

بلاشبہ نظریہ سیاست دانوں کا لباس ہوتا ہے لیکن لباس کے کئی رنگ ہوتے ہیں، کالا، پیلا، ہرا، نیلا، سرخ وغیرہ۔ میاں صاحب کا نظریاتی ہونا بہتر ہے لیکن میاں صاحب کے نظریاتی لباس کا رنگ کیا ہے، اس کا مشاہدہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک میاں صاحب اپنے تازہ نظریے کی وضاحت نہیں کریںگے یا اسے کوئی نام نہیں دیںگے۔

اگر نظریاتی حوالوں سے کسی نظریے کی عمومی وضاحت کی جائے تو وہ دائیں بازو اور بائیں بازو کے حوالوں سے کی جاتی ہے۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کے حوالوں سے انسانوں کی غریب اور امیر میں تقسیم کو تقسیم کرنا اور اسے خدا کی مرضی کا نام دینا ہوتا ہے  اور بائیں بازو کا مطلب طبقات کو تقسیم کرنے سے انکار کرنا اسے ظلم اور نا انصافی سمجھنا اور اسے خدا کی مرضی نہیں بلکہ اشرافیہ کا جبر اور ظلم سمجھتے ہوئے اسے غیر منصفانہ قرار دینا، اس کے خلاف مزاحمت کرنا ہوتا ہے۔

بائیں بازو کا ایک نظریاتی مفہوم سائنس و ٹیکنالوجی تحقیق و انکشافات کو تسلیم کرنا اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان سے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے، جب کہ دائیں بازو کا ایک مطلب سائنس ٹیکنالوجی، تحقیق و انکشافات کو تسلیم نہ کرنا اور ہمیشہ لکیر کے فقیر بنے رہنا ہوتا ہے۔

آج ساری دنیا خاص طور پرجمہوری دنیا عملاً اور فکری حوالوں سے سائنس ٹیکنالوجی اور تحقیق و انکشافات پر عمل نہ بھی کرے تو وہ انھیں تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ یہ صورتحال صرف ترقی یافتہ ملکوں ہی میں موجود نہیں بلکہ بیشتر ترقی پذیر ملکوں میں بھی موجود ہے، کیونکہ آئی ٹی کے انقلاب اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دریافتوں اور انکشافات سے انکار اب اس لیے ممکن نہیں رہا کہ اس کے فوائد سے دنیا استفادہ کر رہی ہے۔ مثلاً جن بیماریوں کو صدیوں سے لاعلاج اور بدقسمتی کہا جاتا تھا اب ان کے موثر اور حتمی علاج دریافت کیے جاچکے ہیں اور خلق خدا اس سے فائدہ بھی اٹھارہی ہے، اب یہ بات نہ تقدیر سے وابستہ کی جاسکتی ہے نہ اسے خدا کی مرضی کہا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے ایک پرانی مثال دی جاسکتی ہے کہ زیادہ دور کی بات نہیں بلکہ چند صدیوں پہلے کی بات ہے کہ دنیا زمین کو ساکن اور سورج کو زمین کے گرد گردش کناں سمجھتی تھی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سورج ساکن ہے اور زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔

اس سچ کا انکشاف کرنے والوں کو کیمیائی نظام کے ناخداؤں نے مذہب سے بغاوت کا نام دے کر انھیں سزائے موت سنا دی اور سچ بولنے والوں کے ہاتھوں میں زہر کا پیالہ تھماکر اسے زبردستی سچ بولنے والوں کو پلایا۔ آج وہی یورپ اور امریکا کی ترقی کا سبب سائنس اور ٹیکنالوجی ہی ہے جو زمین آسمان چاند سورج اور کائنات کے سر بستہ رازوں سے پردے ہٹاکر انسانوں کو چاند پر پہنچارہی ہے مریخ پر بستیاں بسانے کی منصوبہ بندیوں کا حوصلہ بخش رہی ہے۔

بات چلی تھی میاں نواز شریف کے نظریاتی ہونے کے دعوے سے اور پہنچی چاند سورج زمین آسمان مریخ اور کائنات تک۔ میاں صاحب اپنے نظریاتی ہونے کا دعویٰ تو کررہے ہیں لیکن یہ نہیں بتارہے کہ وہ کس حوالے سے نظریاتی ہوگئے ہیں۔ ہم نے دائیں بازو اور بائیں بازو کی مختصر وضاحت تو کردی ہے لیکن جدید علوم کی روشنی میں بائیں بازو کی اقتصادی اپروچ کا ذکر نہیں کیا۔ دنیا صدیوں سے جس اقتصادی نظام میں جکڑی ہوئی ہے اس نظام کو سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے۔

اس صدیوں پر محیط نظام کا ایک بہتر متبادل مارکس نے سوشلزم کے نام سے پیش کیا اور یہ ثابت بھی کیا کہ سوشلزم صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ قابل عمل وہ اقتصادی نظام ہے جو انسانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو ختم کرکے انسانوں کو قسمت اور تقدیر کے چکروں سے نکالتا ہے اور اقتصادی ناانصافیوں کے ذمے داروں کی نشان دہی ہی نہیں کرتا بلکہ انھیں معاشرہ بدر کرکے مظلوم انسانوں کی داد رسی بھی کرتا ہے اگرچہ یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کے میڈیا کی اڑائی دھول میں گم ہوکر رہ گیا ہے لیکن جب تک غریب اور امیر کے درمیان فرق رہے گا یہ نظریہ زندہ رہے گا اور حیات نو سے مستفید ہوگا۔

ہمارے ملک میں سیاسی حوالوں سے جو تفریق دائیں بازو اور بائیں بازو کے حوالے سے پائی جاتی ہے عوام اس حوالے سے میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت کو دائیں بازو کی صف میں کھڑا کرتے ہیں اور اپنے اس دعوے کی دلیل کے طور پر ان پر ارتکازِ زر کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ جو دائیں بازو کی پہچان ہے پاکستان کے 22 کروڑ عوام 70 سال سے طبقاتی مظالم سہتے آرہے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنارہا ہے۔ جس ترقی کا صبح شام ذکر کیا جا رہا ہے وہ یہی اشرافیائی ترقی ہے یعنی غریب غریب تر اور امیر امیر تر بن رہا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان پر کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کر رہی ہے لیکن غریب کے غریب تر اور امیر کے امیر تر ہونے کا سلسلہ نہیں رک سکا اور یہ سلسلہ اس لیے نہ رک سکا کہ حکمران طبقات عوام کی محنت سے بنایا ہوا اربوں کا سرمایہ کھلے بندوں لوٹ رہے ہیں اور اس سرمائے سے اربوں کی جائیداد ترقی یافتہ ملکوں میں خرید رہے ہیں۔

میاں صاحب بار بار یہ سوال کررہے ہیں کہ ’’مجھے کیوں اقتدار سے نکالا گیا؟‘‘ اس سوال کا جواب اگرچہ مخالف سیاست دان دے رہے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کو جو سیاسی نقصان عوام کے سیاسی شعور میں اضافے کی وجہ سے ہورہاہے اور 2018 کے الیکشن میں ہوسکتا ہے اس سے بچنے کے لیے میاں صاحب کو اپنے نظریے کو عوام کے طبقاتی مفادات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ایسا نظریہ اپنانا ہوگا جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنانے سے روکے اور صدیوں سے اشرافیہ کے غلام بنے رہنے والے عوام کو اشرافیہ کے مظالم سے نجات دلائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔