اشرافیہ کی اندرونی کشمکش

مقتدا منصور  پير 21 اگست 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

عدلیہ کے ہاتھوں نااہلی کا زخم کھائے میاں نواز شریف جہاں ایک طرف اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کو چیلنج کررہے ہیں، وہیں دوسری طرف انھوں نے نیب میں اگلی پیشیوں اور ممکنہ طور پر سیاسی عمل سے بے دخلی کے خوف کے باعث بلوچستان سے سینیٹر سردار یعقوب ناصر کو پارٹی کا عارضی صدر نامزد کردیا ہے۔ جس کی توثیق جماعت کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بھی کردی ہے۔

یہ وہی سردار یعقوب ناصر ہیں، جنھوں نے چند برس قبل سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’غریب تو امیروں کی خدمت کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ اس بیان سے ان کے خیالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہرحال اب وہ مسلم لیگ (نواز) کے کچھ عرصہ کے لیے صدر ہیں۔ مگر ان کے صدر منتخب ہوتے ہی پارٹی کے اندرونی تضادات بھی کھل کر سامنے آگئے۔ معلومات کے مطابق کئی ایسے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی ہیں، جنھیں حکومت کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں ہے اور جو کسی مناسب وقت اور طاقتور شخصیت کی جانب سے سرکشی کے منتظر تھے، اور اس کے ساتھ کھڑے ہونے والے ہیں۔

ہمارے بہت سے دوست اس غلط فہمی (Illusion) کا شکار ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت جمہوریت کی بقا کی لڑائی لڑ رہی ہے اور ریاست کے طاقتور ستونوں سے نبرد آزما ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں جو لڑائی ہوتی نظر آرہی ہے، وہ دراصل جمہوریت کی بقا کے بجائے ذاتی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش ہے۔

البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت گو کہ ذاتی مفاد ہی میں سہی، پالیسی سازی پر اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول کو بہرحال چیلنج کررہی ہے۔ جو کسی چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے کسی سیاسی رہنما کے لیے ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت کی حب الوطنی پر ریاست کے مقتدر حلقے یقین کرنے پر کبھی آمادہ نہیں رہے ہیں۔ اس لحاظ سے مسلم لیگ ن کی قیادت کو دیگر سیاسی رہنماؤں پر فوقیت دی جاسکتی ہے۔

لیکن اگر جمہوریت اور وفاقیت کے مستقبل، سیاسی عمل کی بقا اور فکری کثرتیت کے حوالے سے ان کی جماعت کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ان کی جماعت بیشتر بین الاقوامی، علاقائی اور قومی معاملات میں شدید کنفیوژن میں مبتلا نظر آتی ہے، جس کے جابجا شواہد موجود ہیں۔

سال بھر قبل جب میاں صاحب دیوالی کی تقریب میں ہندو کمیونٹی کو اپنی مذہبی رواداری اور وسیع القلبی کا یقین دلا رہے تھے، ان کے ایک وفاقی وزیر ایک مولوی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ پھر جب یہی وزیر افغان دہشت گردوں کے ڈرون حملوں میں ہلاکتوں پر پریس کانفرنسوں میں مذمت کررہے تھے، تو حکمران اور ان کی پوری کابینہ خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔ جس سے دہرے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی قیادت خود کو اس الزام سے بھی مبرا قرار نہیں دلا سکتی کہ اپنے تیسرے اقتدار کے ابتدائی برس کے دوران وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی حامی تھی۔ اگر APS پشاور کا واقعہ نہ ہوجاتا، تو ان کی جماعت کچھ اپنے نظریات کے باعث اور کچھ تحریک انصاف کے دباؤ میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرچکی ہوتی۔ پھر وہ اس الزام سے بھی خود کو مبرا قرار نہیں دے سکتی کہ انھوں نے فوجی عدالتیں قائم کرنے اور ملزمان کا 90 روزہ ریمانڈ دینے کے لیے قانون سازی کرکے جمہوری عمل کی پشت میں خنجر گھونپا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ بلکہ وہ جب بھی اقتدار میں آئے انھوں نے ہر بار تین کام ترجیحی بنیادوں پر کیے۔ اول، کراچی پر آپریشن کے نام پر چڑھائی کی (جسے نادیدہ قوت کی خواہش ظاہر کیا گیا)۔ دوئم، فوجی عدالتیں قائم کرکے ملک میں جاری نظام عدل کے متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کی کوشش کی۔ سوئم، جب اپنا اقتدار خطرے میں نظر آیا تو پارلیمان کے ذریعے اپنا اقتدار بچانے کی کوشش کرنے کے بجائے ادارہ جاتی تصادم کو ہوا دینے کی کوشش کی۔

ہماری سیاسی جماعتیں جب بھی اقتدار میں آتی ہیں، پارلیمان کو نظرانداز کرتے ہوئے، اہم قومی فیصلے بالا ہی بالا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ طرز عمل کسی بھی طور جمہوری نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے برعکس آمر جو مطلق العنان ہوتے ہیں، وہ بھی لولی لنگڑی پارلیمان بنا کر اس سے اپنے فیصلوں کی توثیق کراتے رہے ہیں۔ ایوب خان نے تو خیر اپنا آئین اور اپنی پارلیمان تشکیل دے کر فیصلے کرائے تھے۔ لیکن ضیا الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم غیر جماعتی بنیادوں پر قائم اسمبلی سے منظور کراکے اپنے اقتدار کو طول دینے کا آئینی جواز حاصل کیا تھا۔

پرویز مشرف نے سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنے بیشتر اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ آج بھی ضیا الحق کی جانب سے کیے گئے بعض غیر جمہوری فیصلے آئین کا حصہ ہیں اور سیاسی جماعتیں پارلیمان میں موجود ہونے کے باوجود ان ترامیم کو منسوخ یا ان میں اصلاحات لانے کی جرأت نہیں کر پارہیں۔

پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار (2008 تا 2013) میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے دور آمریت کے بیشتر قوانین کو منسوخ یا ان میں ترامیم کردیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت اپنے چار سالہ دور میں کوئی ایسی آئینی ترمیم لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی، جو جمہوری اداروں کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنتی۔ انھوں نے نہ تو عدالتی نظام میں اصلاحات کی کوشش کی، نہ انتخابی اصلاحات لانے کے لیے کوئی ٹھوس پیش رفت کی۔ حالانکہ ان کے اقتدار میں آنے کے ایک برس بعد ہی تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا کر اسلام آباد کا گھیراؤ کیا تھا۔

اگر اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر اس وقت حل کرلیا جاتا، تو بہت سے معاملات حل ہوجاتے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ اس 31 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی ہیں، جو چار برس قبل انتخابات میں اصلاحات کے لیے قائم کی گئی تھی۔ خدا کرے کہ اس کمیٹی کی تجاویز عوام دوست اور پائیدار بنیاد رکھتی ہوں، تاکہ ایک آزاد، غیرجانبدار اور بااختیار الیکشن کمیشن کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ جو اگلے انتخابات شفاف اور غیر متنازع کراسکے۔

پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ عوامی مسائل کے حل اور وفاقیت کی بنیاد پر جمہوری نظم حکمرانی کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار سے الگ ہونے کے بعد یہ الزام تو عائد کرتی ہیں کہ انھیں کام نہیں کرنے دیا گیا اور ایوان اقتدار سے کبھی آمریت اور کبھی عدالتی کارروائی کے ذریعے بے دخل کیا جاتا ہے۔ لیکن کسی صاحب اقتدار سیاسی جماعت نے درج بالا الزام کی بنیاد پر حکومت سے مستعفی ہوکر عوام کی عدالت میں جانے کا راستہ کبھی اختیار نہیں کیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوران اقتدار سب اچھا نظر آرہا ہوتا ہے، مگر جیسے ہی اقتدار چھنتا ہے، سازش کی بو محسوس ہونے لگتی ہے۔

میاں صاحب سے عرض ہے کہ وہ اپنی عدالتی نااہلی کو ایشو بنانے کے بجائے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں۔ ان اسباب پر غور کریں، جن کی وجہ سے انھیں اقتدار سے تیسری بار غیر فطری انداز میں بے دخل ہونا پڑا ہے۔ انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف وہ پارلیمان کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں۔

وفاق، پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ان کی جماعت کی حکومتیں قائم ہیں۔ اگر وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون سے پارلیمان کے ذریعے ایسی آئینی ترامیم کو منسوخ یا ان میں اصلاحات لانے کی کوشش کریں، جو جمہوری عمل کے تسلسل کی راہ میں رکاوٹ ہیں، تو یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے، جو کچھ ہورہا ہے، وہ اشرافیہ کی اندرونی کشمکش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔