جمہوری استحکام کیلئے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا ہوگا

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 21 اگست 2017
’’موجودہ سیاسی صورتحال ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں سیاسی رہنماؤں کا اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

’’موجودہ سیاسی صورتحال ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں سیاسی رہنماؤں کا اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے ملک کا سیاسی ماحول روز بروز گرم ہوتا جارہا ہے۔

گزشتہ دنوں محمد نواز شریف پنجاب ہاؤس سے براستہ جی ٹی روڈ ، لاہور آئے اور پاور شو کیا جس میں ان کا لب و لہجہ جارحانہ تھا۔ جمعرات کو نیب کی جانب سے میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کو طلب کیا گیا مگر وہ اس میں پیش نہیں ہوئے۔ یہ سال جمہوری حکومت کی پانچ سالہ مدت کا آخری سال یعنی انتخابات کا سال ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیںخاصی سرگرم ہیں جبکہ حلقہ این اے 120کا الیکشن بھی قریب ہے۔ اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ’’ ملک کی موجودہ صورتحال‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیاگیا جس میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

نوید چودھری (مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

موجودہ ملکی صورتحال میں لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ کیا یہ سب کسی ایک فرد کو تبدیل کرنے کے لیے ہورہا ہے یا پھر پورے نظام کو؟ جو جماعتیں احتساب کا نعرہ لیکر نکلی ہیں، کیا ان سیاسی جماعتوں کی نظر میں صرف مخصوص لوگ کرپٹ ہیں یا پھر انہیں سب کا احتساب مقصود ہے؟ ماضی میں بھی ہر 10 سے 15 سال بعد ایسا ہی ایشو بنایا جاتا رہاہے۔ 1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تب بھی کرپشن سمیت اسی طرح کے دیگر مسائل اٹھائے گئے، پھر کاسمیٹک قسم کے اقدامات کیے گئے اور ہر نیا نظام خوبصورتی کے لیے کاسمیٹک تبدیلیاں لاتا ہے ۔ طویل اور مشکل جدوجہد کے بعد 1973ء کا آئین بنا اور اس کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت بنایا گیا مگر آج لوگ پارلیمنٹ پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ۔ افسوس ہے کہ بار بار قدغن لگا کر جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا اور صرف سیاستدانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ کرپٹ ہیں اور باقی سب ٹھیک ہیں۔ 62/63بھی صرف سیاستدان پر ہی لاگو ہوتی ہے اور اس کے ذریعے سیاستدانوں کا مذاق بنایا جاتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ملکی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں وہ چور راستے تلاش کرتے ہیں، انتخابی راستہ اپنانے کے بجائے شب خون مارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگوں کا سیاسی نظام سے اعتبار اٹھتا جارہا ہے اور جو بھی سیاستدان آواز اٹھاتا ہے اس پر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ جو ہورہا ہے یہ مکافات عمل ہے۔ بے نظیر بھٹو پر کیسز چلائے گئے، آصف زرداری کو سزا ہوئی اور احتساب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ماضی میں جب ہم انہیں کہتے تھے کہ یہ کام نہ کریں تو ہماری نہیں سنتے تھے اور پھر اس طرح کے احتسابی نظام کا سب سے زیادہ فائدہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اٹھایا۔ میرے نزدیک جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود وقیود میں رہ کر کام کریں۔ اس وقت جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ نواز شریف صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ دھرنوں کے وقت ہم نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کا تحفظ کیا مگر جب حالات ٹھیک ہوئے تو میاں نواز شریف پارلیمنٹ اور سینیٹ میں نہیں آتے تھے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ اس وقت مرکز اور صوبوں میں جمہوری حکومتیں ہیں۔ نمائندوں کو چاہیے کہ مثبت کردار ادا کریں۔ نواز شریف کو چاہیے کہ جمہوریت کے تسلسل کو آگے بڑھائیں۔ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اسے اپنے منشور کا حصہ بنائیں اور آئندہ انتخابات کی تیاری کریں۔ نواز شریف کے خلاف نیب میں ریفرنس شفاف طریقے سے چلایا جائے اور لوگوں کو انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔ کیس پنڈی میں چل رہا ہے اور پوری ٹیم کیس سنے کے لیے لاہور آگئی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سپریم کورٹ جانے کے حق میں نہیں تھے اور چاہتے تھے کہ معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے مگر تحریک انصاف و دیگر جماعتیں عدالت گئیں اور انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق درست کیا۔ عدالت کے فیصلے کے بعد بظاہر تو اچھی باتیں ہورہی ہیں، عوام میں شعور پیدا ہورہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ بات صرف یہاں ختم ہوجائے گی یا اس کے لیے کوئی پلاننگ موجود ہے؟ میرے نزدیک موثر نظام بنا کر جمہوریت کے تسلسل کو آگے بڑھایا جائے۔ گرینڈ ڈائیلاگ کا وقت گزر چکاتاہم پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) جب پارلیمنٹ میں کوئی بات کرے گی تو اس پر غور کیا جائے گا۔

عظمیٰ بخاری (رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن) و صوبائی پارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن و کلچر)

جمہوریت کی جو تعریف اعجاز چودھری نے بیان کی ہے یہ کتابی طور پر بہترین ہے ۔ جب یہ بات ان کی اپنی جماعت کی طرف جاتی ہے تو پھر تمام تعریفیں تبدیل ہوجاتی ہیں اور تضاد واضح نظر آتا ہے ۔ آرٹیکل 184(3) کے تحت تحریک انصاف سپریم کورٹ سے وزیراعظم کی نااہلی کا مطالبہ کررہی تھی مگر جب اپنی باری آئی تو ان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت اس آرٹیکل کے تحت عمران خان کو نا اہل نہیں کرسکتی۔ سیاستدانوں کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ بہت تلخ ہے اور یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ یہ سیاستدان ہی ہیں جو آمر کے کاندھے پر سوار ہوکر آتے ہیں اور کسی کا ماضی اس سے پاک نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ جب کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے تو اسی قسم کی فضا پیدا کردی جاتی ہے کہ سب سے برے سیاستدان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ، فوج و دیگر اداروں میں کرپشن نہیں ہے؟ عدلیہ میں سپریم جوڈیشل کونسل ہے، وہ خود ہی کرپشن کا معاملہ سنتے ہیں، ججوں سے استعفیٰ لے لیتے ہیں اور کسی دوسرے کو علم بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح فوج کا بھی اپنا طریقہ کار ہے۔ این آئی سی ایل میں 6 جرنیلوں کے نام آئے اور ان سے چند کروڑ روپے لے کر فارغ کردیا گیا۔ میں اعجاز چودھری کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے ۔ ان کی اپنی جماعت کے رہنما شہرام ترکئی، ان کا خاندان، جہانگیر ترین، علیم خان و دیگر کا نام پانامہ لیکس میں ہے۔ ان کے نام پی ٹی آئی تسلیم نہیں کرتی، الٹا یہ لوگ احتساب کی بات کرتے ہیں اور اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے لیے بھی کوشش کرتے رہے۔ قوم کو یاد ہے کہ گزشتہ 4برسوں میں منتخب حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کی گئیں، دھرنا ’’ون‘‘ ، دھرنا ’’ٹو‘‘، ایمپائر کی انگلی ، عمران خان کا یہ بیان کہ مجھے معزز جج نے عدالت میں آنے کی درخواست کی، جاوید ہاشمی کے بیانات و دیگر عوامل سے سازش واضح نظر آتی ہے۔ اسی طرح جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے واٹس ایپ کال، ممبران کی سیاسی وابستگیاں و دیگر عوامل بھی مشکوک ہیں جبکہ فیصلے میں ملکی قانون کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ہم نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت مٹھائیاں بانٹی کیونکہ ہم نہیں سمجھتے تھے کہ ایسا کوئی پلان موجود ہے جس کے ذریعے ایک بار پھر منتخب جمہوری وزیراعظم کو رخصت کردیا جائے گا۔ لوگ نواز شریف کو ووٹ ڈالتے ہیں اور وہ انہیں ہی وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس کا عملی ثبوت عوام نے سڑکوں پر دیا جب وہ اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے۔ عوامی نظام کہاں گیا؟ ووٹ کی حرمت کو پامال کیوں کیا گیا؟ ہمیں آج تک اس واٹس ایپ کال کی تفصیل نہیں دی گئی۔ کیوں اپنی مرضی کے لوگ جے آئی ٹی میں لگوائے گئے اور ان لوگوں کو چنا گیا جن کا سیاسی بیک گراؤنڈ ہے۔ یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ واجد ضیاء نے لندن میں مقیم اپنے اس کزن کی کمپنی کو ہائر کیا، جو خود اور ان کی اہلیہ تحریک انصاف کے لیے فنڈ اکٹھا کرتی ہیں۔ میں قانون کی طالب علم ہوں اور میرے استاد جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے۔ عدلیہ کی 70 سالہ تاریخ میں کوئی رکن اسمبلی، عدالت سے نا اہل نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے بعد اپیل نہیں ہوتی۔ نچلی سطح پر فیئر ٹرائل کا حق ملتا ہے اور بعدازاں بات سپریم کورٹ تک جاتی ہے۔ نواز شریف کے کیس میں ہر بات ہی عجیب ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کے بعد ہم پر امید تھے کہ جمہوری عمل میں بہتری آ رہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ساری محنت رائیگاں چلی گئی ہے اور اب بھی پلاننگ کہیں اور ہوتی ہے اور اس کے مطابق کام ہوتا ہے۔ ابھی صرف یہ کوشش ہورہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت لینے سے روکا جاسکے۔ اس وقت ہمارا مقصد اپنی مدت پوری کرنا ہے کیونکہ ہمارے وعدے اور منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں، ہمیں انہیں مکمل کرنا ہے تاکہ 2018ء میں عوام میں سرخرو ہو سکیں۔ انتشار پھیلانا بہت آسان ہوتا ہے اور یہاں ہر کوئی فساد کی بات کررہا ہے۔ نواز شریف نے یہ راستہ نہیں اپنایا بلکہ خود پر جبر برداشت کیا اور قانون کا سامنا کیا۔ انہیں “Black’s law dictionary” میں موجود تنخواہ کی تعریف پر نا اہل کردیا گیا حالانکہ ہمارے قانون میں تنخواہ کی تعریف موجود ہے۔ عدالت نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اسمبلی میں موجود شادی شدہ خواتین کا حق مہر عندالطلب ہوتا ہے۔ ہم نے کبھی اسے ڈکلیئر نہیں کیا مگر ہم جب چاہیں اس کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق مہر بھی اثاثہ ہے اور اس کی بنیاد پر نا اہل کیا جاسکتا ہے؟ 62/63 جنرل ضیاء الحق نے شامل کی۔ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے اور ماضی میں بھی ترامیم ہوتی رہی ہیں۔ 62/63 صرف سیاستدانوں کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ ججوں نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے، ان کا صادق اور امین ہونا بھی لازمی ہے۔ اسی طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے،ان کا صادق اور امین ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ میرے نزدیک سب کو صادق اور امین ہونا چاہیے۔ ہم 62/63کو ختم نہیں کررہے بلکہ اس کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا اور اس میں دیگر اداروں کو بھی شامل کیا جائے گا جبکہ دفاعی بجٹ کو بھی پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔ پانامہ کیس میں نواز شریف پر کچھ ثابت نہیں ہوا اور اب وہی پرانے کیس کھولے جارہے ہیں جو ماضی میں بنائے گئے۔ افسوس ہے کہ فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ ہمیں اب بھی ریلیف کی امید نہیں ہے تاہم حقائق کی درستگی کے لیے ہم نے اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ نیب کی سربراہی سپریم کورٹ کررہی ہے جس سے فیئر ٹرائل نظر نہیں آرہا کیونکہ یہ نیب قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان کا فارن فنڈنگ کا کیس ڈھائی برس سے چل رہا ہے۔ اب 25ویں سماعت میں انہیںا ٓخری مہلت دی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ دہرا معیار کیوں برتا جا رہا ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت کے علاوہ دوسرا کوئی بھی نظام نہیں چل سکتا۔ ہم عوام کے پاس جارہے ہیں جو ہمارا جمہوری حق ہے کیونکہ اصل فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔ 17 ستمبر کو این اے 120 اور 2018ء کے عام انتخابات میں عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ وزیراعظم انقلاب کی بات کررہے ہیں اور اس کا وقت بھی وہی بتائیں گے۔ یقینا پاکستان کی تاریخ میں یہ انقلاب ہوگا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ میں مشاورت کے بعد ضروری ترامیم بھی لائی جاسکتی ہیں۔

 اعجاز چودھری ( مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)

جمہوریت محض کسی بھی طرح سے ووٹ لیکر کامیاب ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب شفاف انتخابات ہیں جو ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے ناپید ہیں اور جو جماعتیں حکومت نہیں بناتیں ان سب کا اس مسئلے پر اتفاق ہوتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کو 22 سیاسی جماعتوں نے دھاندلی زدہ قرار دیا۔ جمہوریت کی بنیادیں احتساب، قانون کی حکمرانی، شفافیت اور گڈ گورننس پر استوار ہوتی ہیں۔ اگر ان میں سے ایک نقطہ بھی مفقود ہے تو اسے جمہوریت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ غربت، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم و علاج کا فقدان و دیگر بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کرپشن کی وجہ ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر کے مطابق اسلامی جمہوری فلاحی ریاست نہیں بنا سکے۔ فلاحی ریاست میں عوام محور ہوتے ہیں لیکن ہمارا نظام حکمران اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دیتا ہے جبکہ عوام استحصال کاشکار ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم کس راستے پر چل رہے ہیں۔ نئے اعداد و شمار کے مطابق ہماری آبادی 24کروڑ تک پہنچ چکی ہے جبکہ 2سے 3فیصد اشرافیہ ملکی وسائل کے مزے لوٹ رہی ہے اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ان کے مال و دولت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان وسائل سے مالامال ہے مگر ہم پھر بھی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔70ء کی دہائی تک ہم مصیبت کی گھڑی میں دنیا کی مدد کرتے تھے مگر جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ہم نے قرض لینا شروع کیا اور پھر اس قرض میں اضافہ ہوتا گیا۔ 90ء کی دہائی میں نواز شریف نے آئی ایم ایف سے قرض لیا اور ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس وقت ہم ہر پہلو سے اقتصادی طور پر بحران کا شکار ہیں۔ دسمبر میں ہمیں قرض کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینا ہوں گے ورنہ ہم ڈیفالٹر ہو جائیں گے۔ اس ساری صورتحال کو تحریک انصاف نے بھانپ لیا اور طے کیا کہ اگر وسائل کی چوری کو روک لیا جائے تو ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ آج کل یہ بات زور و شور سے کی جارہی ہے کہ صرف سیاستدانوں کا احتساب ہی کیوں؟ سیاستدان عوامی خدمت کا نعرہ لے کر سامنے آتے ہیں، اس لیے ان کا احتساب سب سے اہم ہے اور ان کا آرٹیکل 62/63 پر پورا اترنا لازمی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی غالب اکثریت صادق اور امین ہے۔ آئین پاکستان 62/63کا بنیادی تقاضہ کرتا ہے اور میں اس کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ اگر میری جماعت نے اس کی مخالفت کی تب بھی میں اپنے موقف پر ڈٹا رہوں گا۔ پارلیمنٹ کے 34اراکین 62f(1) کے تحت اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل ہوچکے ہیں تو نواز شریف کی نااہلی میں کیا مسئلہ ہے؟ میرے نزدیک اس وقت نواز شریف نفسیاتی دباؤ میں ہیں، ان کے چہرے پر ہار نمایاں ہے اور اب جمہوریت کے چیمپئن اداروں کا سامنا کرنے سے بھاگ رہے ہیں۔ نواز شریف عدلیہ پر الزامات لگا کر قوم کو گمراہ کر رہے ہیں جبکہ عدلیہ بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے خاموش ہے۔ یہ نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں۔ یہ انتخابات کا سال ہے، تمام جماعتوں کو اس کی تیاری کرنی چاہیے اور پاکستان کو لوگوں کی مرضی کے مطابق چلانا چاہیے۔ نواز شریف غلط کہتے ہیں کہ نظام لپیٹ دیا گیا حالانکہ صرف وزیراعظم کو ہٹایا گیا نظام تو چل رہا ہے۔ نواز شریف انقلاب نہیں لاسکتے بلکہ وہ محض بیان بازی کررہے ہیں اور عوام کا سامنا کرنے کے لیے بیانیہ تیار کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف تمام کرپٹ لوگوں کے احتساب کے حق میں ہے۔ عمران خان نے خود کو بھی احتساب کے لیے پیش کیا ہے، ہم فیصلہ اپنے خلاف آنے پر سپریم کورٹ کو برا نہیں کہیں گے۔

امیر العظیم ( مرکزی سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی )

پاکستان میں جمہوریت چل نہیں رہی اور اس کی گاڑی بار بار پٹری سے اتر جاتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ جہاں بھی جمہوریت جوان ہوئی اس کی بنیادیں دو چیزوں پر مشتمل ہوتی ہیں، ایک نظریہ جبکہ دوسرا سیاسی جماعتیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے اور اگر ہے تو محض تقریر اور منشور کی حد تک اس کے علاوہ اس نظریے پر کام نہیں ہوتا،عوام سے کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے جمہوریت کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ ان میں دستور ہے نہ ہی انتخابات۔ ایک ہی خاندان جماعت پر قابض رہتا ہے اور محض ایک وصیت پر لیڈرشپ منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ دو بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ہاں جمہوریت کمزور ہے۔ نوازشریف کا جارحانہ انداز سسٹم کی تبدیلی کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بیانات سے کیس کو میچور کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ایک بیانیہ تیار کررہے ہیں تاکہ وہ کیس میں عوام کا سامنا کرسکیں۔ وہ خود اسی سسٹم سے نکل کر آئے ہیں لہٰذا اسی سسٹم کے اندر رہتے ہوئے سسٹم کو بدلا نہیں جاسکتا۔ ہمارا سسٹم سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ جب کسی کو سیڑھی دے دی جاتی ہے، وہ ٹاپ پر پہنچ جاتا ہے، طاقت حاصل کرلیتا ہے توپھر سیڑھی دینے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ جب آگے سانپ نظر آتے ہیں ، ڈسنے لگتے ہیں تو سیڑھی نہیں ملتی اور پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہنا شروع کردیتا ہے ۔ میرے نزدیک ہمیں اس سانپ اور سیڑھی کے کھیل سے نکل کر نیا سسٹم بنانا ہوگا۔ نواز شریف اس وقت انقلاب، ووٹ کی حرمت اور سسٹم کی تبدیلی کا جو بیانیہ تیار کررہے ہیں اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو مسئلہ سسٹم کا نہیں فرد کا ہے۔ اس وقت سسٹم میں تبدیلی کی صرف 5فیصد گنجائش ہے جبکہ دستور میں موجود 95فیصد قوائد و ضوابط پر عملدرآمد یقینی بنانا ضروری ہے ورنہ یہ سسٹم انتقام لیتا رہے گا۔عجیب بات ہے کہ ایک طویل عرصہ نواز شریف اقتدار میں رہے اور اب کہہ رہے ہیں کہ جرنیلوں، ججوں و دیگر لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک اگر آئین پر اصل روح میں عمل ہوجائے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ انقلاب ،دعوؤں سے نہیں ڈیلیور کرنے سے آتا ہے۔ ترکی میں انقلاب کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں کی حکومت نے ڈیلیور کیا، معیشت مضبوط ہوئی، عوام کے مسائل حل ہوئے اور پھر وہ قوم اپنے ووٹ کی حرمت کے لیے فوج سے ٹکرا گئی۔ جہاں تک میاں نواز شریف کے انقلاب کی بات ہے تو میرے نزدیک وہ انقلابی شخصیت نہیں ہیں اور ادارو ں کے ساتھ ٹکراؤ کی ہمت نہیں رکھتے۔ انہیں علم ہے کہ نیب میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، اس لیے وہ بیانیہ تیار کررہے ہیں کہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے جیل میں جائیں اور یہ کہیں کہ چونکہ میں انقلاب لانا چاہتا تھا، ووٹ کی حرمت قائم کرنا چاہتا تھا، غریب کو اس کا حق دلوانا چاہتا تھا اس لیے مجھے سزا دی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔