سیاست میں فنکاروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی، شوبز کے مسائل حل ہوپائیں گے؟

قیصر افتخار  منگل 22 اگست 2017
فنکاربرادری کوبہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے حل کیلئے ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا۔ فوٹو : فائل

فنکاربرادری کوبہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے حل کیلئے ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا۔ فوٹو : فائل

 فنون لطیفہ کے تمام شعبوں سے وابستہ فنکار اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت ہمیشہ ہی لوگوں کے دلوں پرراج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں فنکاروں کوایک خاص مقام حاصل رہتا ہے۔

دیکھا جائے توعموماً فنکارکسی بھی ملک کی فن وثقافت کے عکاس ہوتے ہیں اوریہی وہ لوگ ہیں جومعاشرے کے اہم مسائل کواپنی صلاحیتوں کے بل پرکچھ اس طرح سامنے لاتے ہیں کہ لوگوں کی بڑی تعداد جہاں ان کی پرفارمنس سے محظوظ ہوتی ہے، وہیں وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں بہتری کے لئے اقدامات بھی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اسی لئے توفنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کے لوگوں کا فن سرحدوں کا محتاج نہیں رہتا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ فنکارطبقہ بہت ہی حساس اور ذمہ دار ہوتا ہے۔ خاص طورپرماضی اورموجودہ دورمیں ایسے بہت سے فنکار گزرے اورموجود ہیں کہ جن کے چاہنے والے ان کے ہرایک انداز کو اپناتے ہیں۔ دوسری جانب اگربات کریں ان فنکاروں کی جنہوں نے معاشرے کو سدھار کیلئے ناصرف فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں خوب نام کمایا، بلکہ سیاسی میدان میں اترنے کے بعد بھی ان کے ’ دبنگ ‘ انداز نے سیاسی میدانوں کوگرمائے رکھا۔

اس سلسلے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے معروف فنکاروں نے سیاست کے کٹھن میدان میں اترتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ بڑے پردے پررومانوی گیت فلمبند کروانے والوں کو گلی محلوں کے اہم مسائل حکومت کے ’’ اعلیٰ ایوانوں‘‘ میں اٹھانے کا موقع ملے گا۔ مگراس کے باوجود بالی وڈ کے ’ بگ بی ‘ امیتابھ بچن نے جب کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی اورعملی طور پر سیاست میں قدم رکھا توان کی ایک جھلک کوترسنے والے سیاستدانوں کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد نے بھی ان کا خیرمقدم کیا۔

اسی طرح امیتابھ کے بعد معروف اداکارشتروگھن سنہا، راجیش کھنہ، راج ببر، نغمہ، سمرتی ایرانی، ہیمامالنی، جیا پرادھا، جیا بچن اورسلمیٰ آغا سمیت بہت سے معروف فنکاروں نے سیاسی اننگزکھیلیں اورکچھ توآج بھی اس شعبے سے وابستہ ہیں اورمختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے معاشرے میں سدھارلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس دوران انہیں کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا لیکن اس کے باوجود بھارت میں فنکاروں کی کثیر تعداد اب بھی سیاست میں آرہی ہے اوربھارت کی دومعروف سیاسی جماعتیں کانگریس اوربی جے پی اس سلسلہ میں فنکاروںکواپنا حصہ بنانے کیلئے بہت سرگرم ہیں۔

اسی طرح اگرہم پاکستان میں شوبزانڈسٹری کی بات کریں توماضی میں ایک یا دوفنکارایسے تھے جن کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی کا سب کو پتہ تھا ، وگرنہ فنکاروںکی اکثریت سیاست سے دوررہنا ہی بہترسمجھتی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تویہ تھی کہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی سب سے بڑی سزا سرکاری ٹی وی،ریڈیو اورآرٹس کونسلوں میں پابندی کا باعث بھی بنتی تھی، جس سے ایک فنکارکوبہت نقصان پہنچتا تھا۔ لیکن اب تویہ معاملہ بالکل ہی الٹ ہوچکا ہے۔ پاکستان میں جب سے میڈیا ہاؤسز نے نیوزچینلز کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ چینلز بنائے ہیں، فنکاروں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگیاں کھل کرسامنے آنے لگی ہیں۔

کسی کواب بین ہونے کا ڈر ہے اورنہ ہی کام نہ ملنے کا خوف۔ اسی لئے توسیاسی جلسوں میں فنکاربرادری کی کثیرتعداد دکھائی دیتی ہے۔ اس کا کریڈٹ اگر ایم کیوایم اورتحریک انصاف کودیاجائے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ فنکاروںکی اکثریت نے انہی دوجماعتوں میں زیادہ شمولیت اختیارکی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ( ن ) ، پاکستان پیپلزپارٹی اوردیگرجماعتوں سے بھی اب فنکاربرادری وابستہ ہورہی ہے۔ یہی نہیں اب توبہت سے فنکارقومی اورصوبائی اسمبلیوں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ جن میں ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والی معروف میزبان خوش بخت شجاعت اور مسلم لیگ ( ن ) سے معروف اداکارہ کنول نعمان پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔ اس کے علاوہ اداکارسعود، عمرشریف، ہدایتکارہ سنگیتا اورامجد صابری مرحوم باقاعدہ طورپرایم کیوایم کے رکن ہونے کے علاوہ اپنی جماعت کے کلچرونگ کومضبوط بنانے کیلئے مہم بھی چلاتے رہتے تھے۔

ان کے بعد حمزہ علی عباسی، سلمان احمد ، کاشف محمود اورناروے سے تعلق رکھنے والی اداکارہ سونیا خان سمیت دیگرنے باقاعدہ طور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اوران کے دبنگ بیانات نے سوشل میڈیا پرخوب شہرت حاصل کی۔ اسی طرح مسلم لیگ ( ن ) میں اداکارہ کنول نعمان کے علاوہ معروف ڈرامہ پروڈیوسر یامین ملک، طاہرانجم، ماہ نور اوردیگرنے شمولیت اختیارکی اوراب ایک سرگرم کارکن کے طورپراپنی جماعت اوررہنماؤں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی سے ماضی کے معروف اداکار مصطفی قریشی کی بہت پرانی وابستگی ہے۔ انہیں ایک طویل عرصہ تک پیپلزپارٹی کلچرل ونگ کی کمانڈ بھی دی گئی لیکن سابق صدرآصف علی زرداری کے دورحکومت میں وہ خاصے دلبرداشتہ رہے۔ اداکارہ عتیقہ اوڈھو، ایوب کھوسہ اورمسرت شاہین بھی سیاسی میدان میں سرگرم ہیں۔ خاص طورپرپشتوفلموں پربرسوں راج کرنے والی مسرت شاہین نے توباقاعدہ اپنی سیاسی جماعت بنائی اوروہ خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمان کے مقابل الیکشن بھی لڑتی ہیں۔

فنکاروںکی سیاسی جماعتوں سے وابستگی اور بطور سیاستدان کارکردگی کے حوالے سے شوبز کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک دورتھا جب فنکاربرادری سے سیاست کے موضوع پربات کی جاتی تووہ اس پررائے دینا تودورکی بات ، اس موضوع پربات تک کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ سیاست اورسیاستدانوںکو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اب توفنکاروںکی بڑی تعداد سیاست میں ناصرف دلچسپی لیتی ہے بلکہ وہ سیاسی جماعتوںکا حصہ بھی بن رہے ہیں۔

یہ ایک طرح سے خوش آئندبات ہے کیونکہ قیام پاکستان سے آج تک فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کو حکومتی حلقوں نے نظرانداز کیا ہے، اب جوفنکارقومی اورصوبائی اسمبلیوں تک پہنچ چکے ہیں، ان کوچاہئے کہ وہ فن وثقافت کے فروغ اورفنکاروں کی فلاح وبہبود کیلئے اقدامات کرنے کیلئے حکومتوں کی توجہ دلوائیں۔

فنکاربرادری کوبہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے حل کیلئے ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا۔ اب یہ سنہری موقع ہے کہ فنکاراپنی ہی برادری کیلئے ایسے اقدامات کریں، جس سے اس شعبے کے دیرینہ مسائل کا حل نکلے، اگرانہوں نے ایسا نہ کیا توپھر ان کا بھی وہی حال ہوگا ، جوعام سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پران کی اداکاری کی تعریف کرنے والے انہیں ایسے القابات سے نوازنے کے ساتھ تاریخ کی ایسی بدترین مثال بنادیں گے کہ ان کی بقیہ عمر صرف صفائیاں دیتے ہی گزرجائے گی۔

واضح رہے کہ سیاسی وابستگیوں کی بناء پرماضی میں اورموجودہ دور میں بھی بہت سے فنکاروں کوثقافتی اداروں کے اعلیٰ منصبوں پرفائز کیا جا چکا ہے لیکن ان کے ساتھی فنکارہی فن وثقافت کے فروغ کیلئے ان کی ’’اعلیٰ کارکردگیوں ‘‘ کی کہانیاں سناتے دکھائی دیتے ہیں، جواس شعبے سے وابستہ فنکاروں کے مسائل میں کمی نہ ہونے کی ایک واضح مثال بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔