افغانستان کا بحران اور اس کا حل

شکیل فاروقی  منگل 22 اگست 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

امریکی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں سال کے چارماہ کے دوران افغان طالبان کے حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافے کے باعث 6 ہزار سے زائد افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک یا زخمی ہوئے۔

امریکا کا خیال تھا کہ وہ افغانستان کے خلاف ایک سپر پاور ہونے کی حیثیت سے حملہ کرکے اسے باآسانی زیرکرلے گا جس میں اسے افغانستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں سے مدد اور تعاون حاصل ہوگا، لیکن جو کچھ ہوا وہ امریکا کی تمام توقعات کے برعکس تھا جس کے نتیجے میں افغانستان روسی افواج کی طرح امریکا اوراس کی اتحادی افواج کا قبرستان بن گیا۔ امریکا کے سابق صدور نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیا مگر انھیں مایوسی اور ناکامی کے سوائے اور کچھ نہیں ملا۔

ماضی کی طرح امریکا نے ایک بار پھر پاکستان سے ’’ڈومور‘‘کامطالبہ کردیا ہے پچھلے دنوں امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلس کی قیادت میں ایک امریکی وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا عمل جاری تھا لیکن اس کے باوجود ایلس ویلس نے اپنا یہ دورہ ترک نہیں کیا۔ اس باعث ان کی ملاقات وزیر اعظم سمیت کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار سے نہیں ہو پائی۔ تاہم امریکی وفد نے نئی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی وفد کے ساتھ مذاکرات کیے۔

اس موقعے پر امریکا کی جانب سے پاکستان پر پھر زور دیا گیا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث مختلف گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اس ضمن میں پاکستان کو امریکا کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔ پاکستان کا موقف تھا کہ اس کے عوام، افواج اور پولیس نے دہشت گردی کے خلاف بے تحاشا قربانیاں دی ہیں۔ سیکریٹری خارجہ نے اس امید کا اظہارکیا کہ امریکا کی نئی افغان پالیسی میں پاکستان کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔

امریکا میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود مشکوک رویہ برقرار رہنا یقینا قابل تشویش ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخالفتیں مول لے کر جو قربانیاں دی ہیں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اس کا صلہ دینے کے بجائے الٹا الزام تراشیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نئے امریکی صدر تو اس معاملے میں سابق امریکی صدور سے چار ہاتھ آگے ہیں۔

صدر ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے سخت تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے امریکی فورسز کے سب سے اعلیٰ کمانڈر کی برطرفی سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کی للچائی ہوئی نظریں افغانستان کے قدرتی وسائل پر مرکوز ہیں۔ دوسری جانب ان کے سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک پورے ملک پر کنٹرول حاصل نہیں ہوگا تب تک افغانستان کی معدنی دولت کی مارکیٹ میں داخل ہونا قطعی ناممکن ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغان جنگ کے حوالے سے شکوک و شبہات کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں امریکی حکمت عملی تاخیرکا شکار ہے۔

وائٹ ہاؤس کے Situation Room میں ہونے والے ایک اجلاس میں صدر ٹرمپ نے نیشنل سیکیورٹی کے اعلیٰ حکام سے اختتامی صورتحال سے متعلق مزید معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اجلاس میں شریک اعلیٰ عہدیداروں کی موجودگی میں یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’ہم جیت نہیں رہے‘‘ دریں اثنا امریکی صدر نے عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ معاہدے کو احمقانہ قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے امریکا نے کچھ حاصل نہیں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے احمقانہ معاہدے طے کرنے کے لیے یہ شخصیات کہاں سے ملیں اس کا مجھے کچھ پتا نہیں۔

ادھر افغان طالبان نے امریکی صدر کے نام لکھے گئے اپنے حالیہ خط میں کہا ہے کہ افغانستان میں مزید فوج بھجوانے کے بجائے وہ امریکی افواج کے انخلا پر غور کریں کیونکہ امریکی اور اتحادی افواج کی سولہ سالہ موجودگی کے باوجود افغانستان میں تاحال امن قائم نہیں ہوسکا جب کہ افغانستان انتظامی معاملات میں سب سے کرپٹ اور معاشی لحاظ سے غریب ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ منگل 15 اگست کو صدر ٹرمپ کے نام لکھے گئے خط میں افغان طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان میں تمہاری سولہ سالہ موجودگی کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ ملک آج سیکیورٹی کے لحاظ سے سب سے زیادہ بے امن اور انتظامی امور میں سب سے کرپٹ اور معاشی اعتبار سے غریب ترین ملک گنا جاتا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں بیرونی جارحیت کے ذریعے افغان غیور عوام اور ان کے ملک کی باگ ڈور کو ایسے افراد کے حوالے کیا جاچکا ہے جو اجنبی غلامی کے سبب افغان عوام کے درمیان سب سے منحوس، قابل نفرت اور بدقسمت چہرے تصورکیے جاتے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام امریکا سمیت دنیا کے کسی ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن اگر کوئی ان کی سرزمین پر ہلہ بول دے تو پھر وہ غاصبوں کو مار بھگانے کا بہترین تجربہ رکھتے ہیں۔ 1600 الفاظ پر مشتمل نوٹ میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے نتیجے میں امریکی فوجی دستوں کو نقصان سے نجات ملے گی اور وراثتی جنگ کا بھی خاتمہ ہوگا۔

ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور نے کہا ہے کہ امریکی حکومت اور افغانستان میں موجود فورسز منشیات اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں اور ہم سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ نہ کریں۔ ابھی حال ہی میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا جو اجلاس منعقد ہوا تھا اس سے پاکستان کی اس مخلصانہ خواہش کی عکاسی ہوتی ہے کہ افغان حکام حقائق کا صحیح ادراک کریں اور دہشت گردی کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے موثر اور ٹھوس کارروائی کریں۔ کمیٹی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان آمد اور سرحد پار سے فائرنگ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

اجلاس کے شرکا نے افغانستان میں امن واستحکام کی خاطر افغانوں پر مشتمل امن عمل کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان پر بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ افغان حکومت کو پاکستان کے دو ٹوک موقف سے مطلع کردیا گیا ہے اور واضح کردیا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر قسم کے مصالحتی عمل میں تعاون کے لیے پرعزم ہے، لیکن افغانستان کو بھی اس عمل میں پورے اخلاص کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خطے میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز کرنا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اس حقیقت کی تصدیق امریکی فوج کی مرکزی کمان کے کمانڈنگ جنرل لیفٹیننٹ جنرل مائیکل گیریٹ نے بذات خود کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں چھ رکنی وفد کے ساتھ پاکستان کا 3 روزہ دورہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے میں اہم اتحادی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی صورتحال انتہائی گمبھیر اور پیچیدہ ہے۔ کئی مسلح گروپ اور جہادی لشکروں نے افغان سرزمین کو اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔ یہ حقیقت بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افغانستان میں قائم بھارت کے قونصل خانے دن رات پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی پوری دنیا واقف ہوچکی ہے کہ بلوچستان میں افغانستان سے براہ راست مداخلت اور دہشت گردی ہو رہی ہے جب کہ افغان حکام اس بات کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔ امید ہے کہ افغانستان پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کا مثبت جواب دے گا کیونکہ اس خطے میں امن و سلامتی اسی صورت میں ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔