گلالئی یخ شمال لگیگی

سعد اللہ جان برق  منگل 22 اگست 2017
barq@email.com

[email protected]

گلالئی کے نام سے چونکنے یا ایسا ویسا سوچنے کی ضرورت نہیں، یہ اس گلالئی کا ذکر ہے ہی نہیں جس کے ہر طرف چرچے ہیں بلکہ یہ اس گلالئی کا ذکر ہے جس کے چرچے کہیں بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ ایک سیدھے سادے رومانوی قصے کا کردار ہے۔ پہلے وہ گیت جس میں گلالئی کا ذکر ہے۔

گودر نہ مہ زہ زرزری شال دے لمدیگی
گلالئی یخ شمال لگیگی

اس پر تو بعد میں روشنی بلکہ رنگ ڈالیں گے کہ اس گیت میں جس گلالئی کا ذکر ہے وہ کون تھی؟ لیکن گیت کا کردار اسے کہتا ہے کہ

پنگھٹ پر مت جاؤ تیری زریں شال بھیگ جائے گی
اور اے گلالئی ٹھنڈی شمال لگ رہی ہے

یعنی تم اس وقت پنگھٹ پر مت جاؤ کہ ٹھنڈی ٹھار شمالی برفیلی ہوائیں چل رہی ہیں ،کہیں تمہاری زر زری شال بھیگ نہ جائے۔ گلالئی نام کی یہ تحقیق ہم محض افادہ عام کے لیے کررہے ہیں ۔لیکن اس سے پہلے ہم ذرا اپنی محققانہ طبعیت کی تھوڑی سی تسکین کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ گلالئی کوئی نام نہیں ہے بلکہ صفت ہے جیسے پھول، چاند ، حسینہ ، مہ جبین ، نازک بدن ، سروقد ، شاخ گل ، سراپا ناز ، وغیرہ ہوتے ہیں جو بعد میں نام کے طور پر بھی مروج ہو جاتے ہیں ۔

گلالئی کا مطلب گل لالہ جوایک نازک سا صحرائی سرخ رنگ کا پھول ہوتا ہے اور چونکہ زیادہ تر پھول سرخ رنگ کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ اس لیے پھول کے ساتھ سرخی بھی اس میں شامل ہوتی ہے جو استعارتاً ہر خوبصورت سرخ و سفید عورت کے لیے مناسب ہوتا ہے ۔ اردو میں ایک لفظ گلال بھی اسی نسبت سے ہے، سرتاسرخ اور نازک ۔

وشال بھردواج نامی ایک فلمساز نے اس نام کی ایک فلم بھی بنائی ہے جس کا ایک آئیٹم سانگ بڑا مشہور ہے۔ شاید آپ سوچ رہے ہیں کہ ہم کس طرف نکل گئے تو ساتھ ہی آپ یہ بھی بھول رہے ہیںکہ ہماری طبیعت محققانہ ہے جو ہمیں کھینچ کر کسی نہ کسی طرح اپنی پسندیدہ راہ میں ڈال لیتی ہے۔ فلم گلال کا یہ آئیٹم سانگ جو اس کی بیوی ریکھا بھر دواج نے گایا ہے کمال کا ہے ۔ بظاہر ایک عام سا آئیٹم سانگ ہے لیکن اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ کمال کی ہیں۔ ’’رانا جی غصے میں آئے ‘سوسو بل کھائے گھبرائے ماروچن ‘‘

یہاں تک تو بات سیدھی ہے لیکن اس کے بعد ’’راناجی ‘‘ کے غصے میں کیا کیا ڈالا گیا ہے یہ دیکھیے

جیسے دور دیس کے ٹاور میں گھس جائے ایروپلین
جیسے سرعام عراق میں جاکر جم گئے انکل سام
جیسے بناباد کے افغانستان کا بج گیا بھیا بینڈ

یہ سارے ’’راناجی ‘‘ کے غصے کے اظہارات اور مشابہات ہیں ۔

اب رانا جی کون ہے جو غصے میں آئے ۔ یہ جاننا آپ کا کام ہے، ہم نے تو کلیو دے دیا ہے۔ مزید کلیو یہ کہ رانا ’’جی ‘‘رانا‘‘بھی ہے اور غصہ ور بھی اور فلم ’’گلال ‘‘ کا ہیروہے، وہی گلال جس کی نسبت سے گلالئی کا نام مروج ہے۔وہ گلالئی جو یہ گلالئی نہیں ہے، انتہائی سرد اور برفیلی رت میں ’’گودر ‘‘ جا رہی ہے گودر اس مقام کو کہتے ہیں جہاں اکثر دو شیزائیں جن میں کثرت ’’گلالیوں‘‘ کی ہوتی ہے پانی بھرنے جایا کرتی ہیں۔ یہ کوئی چشمہ بھی ہو سکتا ہے اور دریا بھی لیکن ضروری یہ ہے کہ پانی ہو اور گلالیاں وہاں سے اپنے گھڑوں میں پانی بھرنے جایا کرتی ہوں ۔

یہ گیتوں میں بڑا رومانوی نام و مقام ہے جس کے بارے میں شعرا اور عشاق نے طرح طرح کی خیال آرایاں کی ہوئی ہیں جسے گودر کے راستے میں ہر جھاڑی ایک دوا ہے کیونکہ آتی جاتی گلالیوں کے آنچل اسے چھوتی رہتی ہیں ۔ یا اگر تمہیں میری دید پسند ہو تو گودر کا مقام ’’اجارے میرے نو۔۔یا میں گودر جارہی ہوں تم بھی آؤ کہ تیرے لیے میں گھڑے میں چھپا کر پراٹھے لائی ہوں۔

اے گودر خدا تجھے اُجاڑ دے کہ تونے لڑکیوں کو دمہ کا مریض بنا دیا ہے۔ گھڑے بھر کر چڑھائی چڑھتے گلالیوں کی سانس پھول جانے کی رعایت سے ۔ بہرحال گلالیوں کا خاص الخاص ایک ’’مقام ‘‘ جہاں سے وہ ’’اپنے گھڑے ‘‘ بھر کر لاتی ہیں، ایک طرح آپ اسے رائے ونڈ ، بلاول ہاؤس اور بنی گلالہ بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ جس میں گھڑے بھرنے کے ساتھ ساتھ عقیدت بھی شامل ہوتی ہے۔

تو وہ گلالئی جوتھی ہمیشہ کی طرح کچھ نادان سی بھی تھی جو نہایت ہی ناساز گار موسم میں گھڑالے کر پانی لینے کے لیے چل پڑی تھی ۔ اس لیے اس کا ہمدرداسے سمجھاتا ہے کہ گودر مت جا بڑی سخت اور تیز شمالی ہوائیں چل رہی ہیں کہیں تمہارے انچل کو بھگو نہ ڈالیں اور تمہیں سردی زکام نہ ہوجائے۔ہماری تحقیق کہتی ہے کہ گلالئی نے یہ بات نہیں مانی اور پنگھٹ پر چلی گئی جہاں تیز ہواؤں نے صرف اس کا آنچل ہی نہیں بھگویا بلکہ بچاری کو گھڑے سمیت پانی میں بھی گرادیا۔

بچاری کے سارے زری کپڑے بھیگ گئے اور وہ گرتی پڑتی خالی گھڑا لے کر بڑی مشکل سے واپس پہنچی اور سخت سردی ، زکام ہو گیا جو بگڑ کر نمونیا اور کھانسی کی صورت اختیار کر گیا اور بڑی مشکل سے جانبر ہو سکی لیکن کھانسی ہمیشہ کے لیے لاحق ہوگئی لیکن باوجود تحقیق کے ہم یہ نہیں جان پائے کہ یہ مقام اور گودر کہاں تھا لیکن جہاں گلالیاں گھڑا بھرنے جاتی ہیں اور حادثوں کا شکار ہو جاتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔