زرداری نے نواز شریف کو بچایا؟ وضاحت جسٹس جعفری ہی کرسکتے ہیں

مظہر عباس  جمعـء 15 فروری 2013
طیارہ اغوا اور دہشت گردی کے مقدمے میں جسٹس رحمت جعفری نے نوازشریف کے سوا شہبازشریف سمیت تمام ملزموں کو بری کردیا تھا. فوٹو اے ایف پی

طیارہ اغوا اور دہشت گردی کے مقدمے میں جسٹس رحمت جعفری نے نوازشریف کے سوا شہبازشریف سمیت تمام ملزموں کو بری کردیا تھا. فوٹو اے ایف پی

کراچی: صدر آصف زرداری کی طرف سے سابق وزیراعظم نوازشریف کو طیارہ سازش کیس میں سزائے موت سے بچانے کے دعوے کے بعد دو اہم سوال ابھرکر سامنے آتے ہیں۔

ایک یہ کہ کیا مقدمے کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری (جو بعد ازاں جسٹس بنے) پر فوجی حکام کی طرف سے نوازشریف کو پھانسی دینے کا دبائو تھا اور دوئم یہ کہ کیا آصف زرداری نے لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے جج کو فیصلے سے باز رکھنے کیلئے کوئی درخواست کی تھی۔ اس بات کی وضاحت تو خود جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری کرسکتے ہیں تاہم اگر یہ دعویٰ درست ہے تو یہ ایک اتفاق ہوگا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے لاڑکانہ کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو سزائے موت دینے میں دبائو قبول کرلیا، اس بات کا اعتراف خود نسیم حسن شاہ کرچکے ہیں۔

دوسری طرف لاڑکانہ کے جج رحمت جعفری نے لاہور سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کو سزائے موت نہیںسنائی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آرمی چیف جنرل مشرف کا طیارہ اغوأ کرنے کے کیس میں جسٹس جعفری نے نوازشریف کے سوا معزول وزیراعلیٰ شہبازشریف سمیت تمام ملزموں کو بری کردیا تھا اور دہشت گردی اور طیارہ اغوأ کی دفعات لگنے کے باوجود نوازشریف کو عمرقید سنائی گئی۔ سندھ ہائیکورٹ نے وفاق کی طرف سے نوازشریف کو سزائے موت دینے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے قید کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس ضمن میں ایکسپریس نیوز کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز نے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اس بات کا کچھ علم نہیں، اس کی وضاحت خود جسٹس رحمت جعفری کو کرنے دیں، آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے خاندان کے ساتھ جنرل مشرف نے کیا سلوک کیا تھا۔

13

میرے والد کو کراچی اور اٹک جیل میں رکھا گیا، چچا شہباز شریف لاہور جیل میں تھے اور میرے بھائی ایک اور جیل میں تھے‘‘۔ مریم نواز نے فیصلہ سنتے وقت انتہائی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمرہ عدالت میں بھرپور احتجاج کیا تھا۔ صدر آصف زرداری نے نوازشریف کی طرف سے انکے بھائی عباس شریف کی رحلت پر تعزیت کیلئے ملاقات کرنے کی درخواست مسترد ہونے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پھانسی سے بچانے کی بات کی۔ نوازشریف کا یہ کہنا کہ صدر مملکت پہلے ہی فون پر میرے بھائی کے انتقال پر تعزیت کرچکے ہیں۔ شاید اس کی وجہ عام انتخابات سر پر آنے کی وجہ سے سیاسی افواہوں سے بچنا ہے۔

صدر کے غصے کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعزیت کرنے سے روکنے کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ خود نوازشریف نے بے نظیر بھٹو کے قتل پر لاڑکانہ جاکر آصف زرداری سے تعزیت کی تھی۔ صدر زرداری کیلئے نوازشریف کا انکار انتہائی غیرمتوقع تھا اور وہ مثبت سگنل کی امید رکھ رہے تھے۔ قبل ازیں نوازشریف اور صدر آصف زرداری نے آج تک ایک دوسرے کے خلاف زبان استعمال کرنے سے گریز کیا اور دونوں رہنما ایک دوسرے کیلئے ’’میاں صاحب‘‘ اور ’’زرداری صاحب‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے رہے۔

اس کے برعکس وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ہمیشہ صدر مملکت کے خلاف تندوتیز زبان استعمال کی۔ اس تناظر میں دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ کیا نوازشریف عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں بطور وزیراعظم صدر زرداری سے حلف لیں گے، ماضی میں تو وہ کہہ چکے ہیں کہ آصف زرداری آئینی صدر ہیں اور وہ ان سے حلف لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔