اسحٰق ڈار سے پاناما فیصلے کیخلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر دی

سماعت3 ججز اورفیصلہ5 ججز نے سنایا،2ججز فیصلے میں کیسے شامل ہوگئے؟، سپریم کورٹ سے استدعا۔ فوٹو: فائل

سماعت3 ججز اورفیصلہ5 ججز نے سنایا،2ججز فیصلے میں کیسے شامل ہوگئے؟، سپریم کورٹ سے استدعا۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد /  لاہور: وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بھی پاناما لیکس کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائرکردی ہے۔

اسحاق ڈار کی جانب سے گزشتہ روز پاناما فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں استدعاکی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے 28جولائی کو سنائے گئے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہیں لہذا متفقہ کوفیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔علاوہ ازیں پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اس ضمن میں سپریم کورٹ کے پاناما فیصلے کی روشنی میں نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اور شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین جاوید کیانی نیب کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو گئے۔

ڈی جی نیب کی سربراہی میں 5 رکنی ٹیم نے دونوں شخصیات سے شریف خاندان کے ایون فیلڈ کے فلیٹس، مبینہ منی لانڈرنگ ،حدیبیہ پیپر ملز اور اسحق ڈار کی آمدنی سے زائد جائیداد رکھنے کے معاملے پرپوچھ گچھ کی،نیب حکام نے سابق وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس کی تیاری کے لیے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے 6 ارکان کے بیان ریکارڈ کرنے کے بارے میں بھی رابطہ کیا ہے تاہم ابھی تک ان افراد کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق نیشنل بینک کے صدرلاہور میں واقع نیب کے دفتر میں پیش ہوئے۔ دریں اثنااسحق ڈار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظر ثانی درخواست 9 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ دیگر منسلکہ جات ، و دستاویزات تقریبا6سوصفحات پرمشتمل ہیں، درخواست وفاقی وزیر کے وکیل شاہد حامد اور ڈاکٹر طارق حسن کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی درخواست کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے20اپریل اور 28جولائی کوسنائے گئے فیصلے،جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم نمبرایک اور والیم نمبر2کے اسحق ڈار سے متعلقہ صفحات اور وکلا کے وکالت نامے شامل ہیں۔

درخواست میں عمران خان، نیب، وفاق، سیکریٹری داخلہ، ایف بی آر، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز،کیپٹن رٹائرڈ صفدر اورسابق وزیر اعظم نواز شریف کو فریق بنایاگیا ہے ۔وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی جانب سے آئین کے آرٹیکل188کے تحت دائر درخواست میں موقف اختیار کیاگیا ہے کہ میرے خلاف نام نہاد اعترافی بیان کا الزام لگایا گیا، درخواست گزارکی جانب سے آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام نہیں لگایا گیا تھا، جے آئی ٹی کی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں، اپنا تمام مالیاتی ریکارڈ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو دے چکا ہوں۔ 1983 سے 2016 تک کا مکمل انکم اور ویلتھ ٹیکس ریکارڈ فراہم کیا گیا اور ٹیکس اتھارٹیز نے میرے گوشواروں کو قبول کیا۔ بطوروزیر خزانہ اثاثوں میں 544 ملین کی کمی ہوئی جبکہ اثاثوں میں اضافہ-09 2008 میں ہوا جس کی وجہ 6 سالہ غیر ملکی آمدن تھی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو اثاثوں کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا تھا لیکن اس ضمن میں تحقیقات کرکے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا جبکہ3 رکنی بینچ کے روبرو جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف ہمارے اعتراضات کو زیرغور نہیں لایا گیا،عدالت نے بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ایک مشتبہ بات کہ اسحق ڈار نے ریکارڈفراہم نہیں کیا جس پر مینڈیٹ سے تجاوزکرتے ہوئے ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیاحالانکہ عوامی نمائندگی ایکٹ1976کے مطابق الیکشن کمیشن کے سامنے 2002سے2008تک کے ملکی و غیرملکی اثاثے ظاہرکیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہیں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سماعت 3 ججز اور فیصلہ 5 ججزنے سنایا، جن 2 ججز نے سنا نہیں وہ فیصلے میں کیسے شامل ہوگئے جبکہ نگراں جج کے تقرر سے عدالت بظاہر شکایت کنندہ بن گئی اور نگراں جج کی تعیناتی ٹرائل پر اثراندازہو گی، نگراں جج کی تعیناتی اور 28 جولائی کا حکم آرٹیکل 175 اور 203 کی خلاف ورزی ہے لہذا 28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیاجائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے حکم میں نیب کے قانون میں دیے گئے 3 مراحل میں سے 2 مراحل (انکوائری، تحقیقات)ختم کردیے گئے ہیں جو کہ درخواست گزار کے بنیادی حقوق کے آرٹیکل10-Aکے منافی ہے کیونکہ نیب کو صرف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل184(3) کے تحت عدالت کو حاصل اختیارات کو اس حد تک نہیں بڑھایا جاسکتا کہ جس سے آرٹیکل4,9,10-Aاور25کی خلاف ورزی ہو۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسحق ڈار کی جانب سے عمران خان کی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر اعتراضات نہیں اٹھائے تاہم عدالت عظمی کے پاس آئین کے آرٹیکل184(3)کے تحت یہ اختیار نہیں کہ وہ درخواست گزار کے خلاف اس طرح کے الزامات کو سنے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی طرف سے استغاثہ، نیب،ایگزیکٹوبورڈ نیب،چیئرمین ، پراسیکیوٹرنیب کے اختیارات استعمال کرنا عدلیہ کے اختیارات کی علیحدگی کے قانون کے مینڈیٹ سے متصادم ہے ۔ عدالت کے اس اقدام سے بھی درخواست گزار کا حق متاثر ہوگا کہ نیب عدالت میں ان ریفرنسز کی سماعت کی نگرانی عدالت عظمیٰ کا ایک جج کرے گا جو اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر بنائی گئی ہے جس کی تعریف عدالت نے اپنے فیصلہ میں کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 28جولائی کا حکم آرٹیکل 175(2)(3) اور آرٹیکل203سمیت دیگرشقوں کی خلاف ورزی ہے ، اس لیے عدالت سے درخواست ہے کہ نظرثانی اپیل سماعت کے لیے منظور کی جائے اور عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دے کر عمران خان کی طرف سے دائر درخواست مستردکی جائے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اس نظرثانی اپیل کا حتمی فیصلہ آنے تک اسحق ڈارکے خلاف دائر کیے جانے والے ریفرنسزکیخلاف حکم امتناع جاری کیا جائے۔

واضح رہے سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سمیت ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اور اسحق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔اس فیصلے کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے 15اپریل کو چیلنج کیا تھا جبکہ نواز شریف کے بچوں کی طرف سے فیصلہ رواں ہفتے چیلنج کیے جانے کا امکان ہے۔ دریں اثنا نیشنل بنک کے سربراہ سے جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کئی گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ سعید احمد کے 5 بینک اکاؤنٹس کے ذریعے بھاری رقوم بیرون ملک منتقل کی گئیں اور ان کے ذریعے موسیٰ غنی اور اسحق ڈار مستفید ہوتے رہے جبکہ ان کے بینک اکاؤنٹس سے ہجویری گروپ کو رقوم منتقل کی گئیں جہاں سے شریف فیملی کو قرضے دیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق سعید احمد کے بینک اکاؤنٹس سے اسحق ڈار کی کمپنیوں کو 76 لاکھ 20 ہزار ڈالر جبکہ تبسم اسحق ڈار کو 3 لاکھ 26 ہزار ڈالر کے قرضے فراہم کیے گئے تھے۔ سعید احمد کے بینک اکاؤنٹس میں کل ایک کروڑ 15 لاکھ 45 ہزار683ڈالر جمع کرائے گئے جو 98-1997 کے دوران کم ہو کر بیرون ملک منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے۔

دریں اثنا نیب لاہور نے محکمہ ایکسائز سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیل طلب کرلی جبکہ مالیاتی اداروں سے بھی منی لانڈرنگ کے حوالے سے ریکارڈ مانگ لیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب لاہور نے وزیر خزانہ کو آج طلب کیا ہے۔علاوہ ازیں سعید احمد کے قریبی ساتھی اور شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین جاوید کیانی بھی نیب کے طلب کرنے پر گزشتہ روز پیش ہوئے جن سے اسی تناظر میں سوالات کیے گئے۔

ادھر حکمراں جماعت کا دعویٰ ہے جب تک نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ کے28 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک نواز شریف اور ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد نیب کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 28 جولائی کو اپنے متفقہ فیصلے میں قومی احتساب بیورو کو 6 ہفتوں میں سابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف 4 ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔