شیر کی زندگی

میرشاہد حسین  منگل 22 اگست 2017
علی ابرار کے دوستوں کو تو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن اِس نوجوان کے قاتل ہم  سب ہیں جو معاشرہ کی بہتری کے لیے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

علی ابرار کے دوستوں کو تو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن اِس نوجوان کے قاتل ہم سب ہیں جو معاشرہ کی بہتری کے لیے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

منہاس راجپوت گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ 1968ء میں سینٹ پیٹرک اسکول کراچی سے سینئر کیمبرج کیا۔ خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے بھی اپنا آئیڈیل فوجی زندگی کو بنایا اور اپنے ماموں ونگ کمانڈر سعید سے جذباتی وابستگی کی بناء پر فضائیہ کا انتخاب کیا۔ تربیت کے لیے پہلے کوہاٹ اور پھر پاکستان ائیر فورس اکیڈمی رسالپور بھیجے گئے۔ فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے انگریزی، ائیر فورس لاء، ملٹری ہسٹری، الیکڑانکس، موسمیات، جہاز رانی، ہوائی حرکیات وغیرہ میں بی ایس سی کیا۔ بعد ازاں تربیت کے لیے کراچی بھیجے گئے اور اگست 1971ء میں پائلٹ آفیسر بنے۔

20 اگست 1971ء کو راشد کی تیسری تنہا پرواز تھی۔ وہ ٹرینر جیٹ طیارے میں سوار ہوئے ہی تھے کہ اُن کا انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان خطرے کا سگنل دے کر کاک پٹ میں داخل ہوگیا اور طیارے کا رُخ بھارت کی سرحد کی طرف موڑ دیا۔ راشد نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور سے رابطہ قائم کیا تو انہیں ہدایت کی گئی کہ طیارے کو ہر قیمت پر اغواء ہونے سے بچایا جائے۔ اگلے پانچ منٹ راشد اور انسٹرکٹر کے درمیان کشمکش میں گزرے اور اُسی کشمکش کے دوران طیارہ زمین پر گر کر تباہ ہوگیا۔ راشد نے شہادت کا درجہ پایا اور انہیں اِس عظیم کارنامے کے صلے میں سب سے بڑا فوجی اعزاز ’نشانِ حیدر‘ دیا گیا۔

گجرانوالہ کا 19 سالہ نوجوان علی ابرار اپنے دوستوں کے ساتھ مری کے قریب نیلم پکنک پوائنٹ پر پکنک منانے گیا تھا۔ جہاں اُس کی اپنے دوستوں سے موبائل فون اور 15 ہزار کے عوض شرط لگی کہ وہ دریا کو تیر کر عبور کرے گا۔ دوستوں کے اُکسانے پر اُس نے دریا میں چھلانگ لگادی اور یوں اُس نے اپنی جان دے دی۔

عجیب اتفاق ہے کہ 20 اگست بروز اتوار کے دن یہ دو ایسی خبریں سننے کو ملیں کہ جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق تھا۔ اُس دن ایک پاکستانی نوجوان راشد منہاس شہید کا 46واں یوم شہادت منایا جارہا تھا، جس نے اپنے وطن کی آبرو کی خاطر اپنی جان قربان کردی تھی، تو دوسری طرف اُسی دن ایک نوجوان علی ابرار نے فقط ایک موبائل اور 15 ہزار کے عوض اپنی جان دریائے نیلم کی نذر کردی۔ بظاہر تو دیکھنے میں اِن دونوں خبروں کا آپس میں کوئی گہرا رشتہ معلوم نہیں ہوتا لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی خبریں تھیں۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ پاکستانی نوجوان بہت کچھ کر دکھانے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے لیکن جب اِن نوجوانوں کو درست راستہ اور رہنمائی نہیں ملے گی تو ایسے نوجوان اُسی طرح شرطیں لگا کر اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے۔ چاہے وہ ون ویل موٹر سائیکل کا کرتب ہو یا دریا میں چھلانگ لگانے کا تماشا ہو، ہمارے نوجوان اِسی طرح اپنی صلاحیتوں کو منفی سرگرمیوں کی نذر کرتے رہیں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کی درست رہنمائی کی جائے۔

علی ابرار کے دوستوں کو تو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس نوجوان کے قاتل ہم اور آپ سب ہیں جو اِس معاشرہ میں رہتے ہیں لیکن معاشرہ کی بہتری کے لیے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرتے، والدین اپنے بچوں کی تربیت کی طرف سے غفلت برتتے ہیں، اساتذہ اپنے طلبہ پر توجہ نہیں دیتے، میڈیا ایسی سرگرمیوں کو پروان چڑھاتا ہے جس سے نوجوانوں میں بے راہ روی پھیلتی ہے۔ اگر ہم نے اپنا اپنا کردار ادا نہیں کیا تو یاد رکھیں وہ علی کل آپ کا اور میرا بھی ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

میرشاہد حسین

میرشاہد حسین

میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے معروف رسالہ سے 1995ء میں کیا۔ بعد ازاں آپ اسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ آپ کو بچوں کے ادب میں بہترین ادیب کا ایوارڈ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے دیا گیا۔ آج کل بچوں کے بڑوں پر بھی اپنے قلم کے جوہر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔