ہماری سیاسی تاریخ کی ایک اہم دستاویز

زاہدہ حنا  بدھ 23 اگست 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

حیدرآباد کے تاریخی اور تہذیبی شہر حیدرآباد میں امر سندھو اور عرفانہ ملاح کے قائم کیے ہوئے چائے خانے ’’خانہ بدوش‘‘ کی فضا گرم تھی۔ حسین مسرت انتظامات میں مصروف تھیں۔ حیدرآباد کی اہم سیاسی، سماجی اور ادبی شخصیات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، میں پروفیسر جمال نقوی کی بیٹی گیتی اور ان کے داماد ناصر آرائیں کے ساتھ حیدرآباد پہنچی تھی۔ کراچی سے بھی ان کے بہت سے چاہنے والے آئے ہوئے تھے۔

ان کی یاد میں یہ ایک تعزیتی جلسہ تھا جس کا اہتمام عارف پاشا، ڈاکٹر حمید سومرو، پروفیسر امداد چانڈیو، سہیل سانگی، شبیر شر، مہیش کمار، ڈاکٹر نیاز سومرو، حسین سومرو ، فاروق سومرو نے کیا تھا۔ کراچی سے اسلم خواجہ، ریاض شیخ، ڈاکٹرجعفر احمد، ڈاکٹر توصیف احمد خان، کامریڈ مجید، جاوید اقبال، سلطان کاظمین، وارث رضا، پروفیسر شیر محمد منگریو اور کئی دوسرے آئے تھے۔ امریکا میں بیٹھے ہوئے ندیم اختر بھی وہاں سے اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ تعزیتی جلسہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک شخص ہال میں داخل ہوا اور سناٹا چھا گیا۔ یہ جام ساقی تھے جنھیں ان کا بیٹا سارنگ وہیل چیئر پر لے کر اندر آیا تھا۔ جام ساقی کی وہیل چیئر کو میری کرسی کے برابر رکھ دیا گیا۔ جام نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔

کیا شیر تھا جس پر اس کے قید کرنے والوں نے ہر طرح کا تشدد کیا لیکن وہ اسے توڑ نہیں سکے۔ وہی جام جس کو قید کرنے والے اس سے گھبراتے اور ڈرتے تھے، وہی جام اپنے دونوں ہاتھ گود میں رکھے بیٹھا تھا۔ یہ وہ تھا اور اس کے ساتھ گرفتار ہونے والا نذیر عباسی شہید ہوا تھا اور کمال وارثی اور کئی دوسرے تھے جنھیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’’ضمیرکا قیدی‘‘ قرار دیا تھا۔ ایک ایسی اصطلاح جسے پہلی مرتبہ انگلستان کے صحافی پیٹر بینسن نے مئی 1961 کے اپنے ایک مضمون میں استعمال کیا تھا۔

’’ضمیرکے قیدی‘‘ کی اصطلاح یہیں سے رائج ہوئی جسے بعد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اختیارکیا اور جو ساری دنیا کے ان قیدیوں کے لیے امید کی ایک کرن بن گئی جن کی حکومتوں نے انھیں ان کے سیاسی، مذہبی، نسلی یا کسی جنسی مسئلے پر اختلاف رائے کی سزا میں قید کیا، بدترین تشدد کیا اور پھر کسی تاریک تہ خانے میں ڈال کر بھول گئے۔

لوگوں نے تالیاں بجا کر جام کا استقبال کیا۔ یہ وہی جام تھا جس نے سالہا سال جیل میں گزارے، جس کی نوجوان بیوی سکھاں، جام پر ہونے والا تشدد برداشت نہ کرسکی اور اس نے کنویں میں کود کر خودکشی کی۔ ’’دھرتی مانگے دان‘‘لکھنے والا جام، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والا، سیاسی جلسوں میں شیر کی طرح دھاڑنے والا جام۔ اس روز وہیل چیئر پر تھا اور اس کی گردن اس کے قابو میں نہ تھی لیکن اس کا ضمیر ہمیشہ اس کے قابو میں رہا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس گرم شام جلسے میں آیا تھا اور اپنے استاد پروفیسر جمال نقوی کا ماتم دار تھا۔

جام کو دیکھتے ہوئے اور بعد میں جام کی تقریر سنتے ہوئے مجھے نثار حسین اور عالیہ نثار کی مرتب کردہ وہ کتاب یاد آئی جو دسمبر 1987 میں شایع ہوئی تھی اور جس کا نام ’’ضمیرکے قیدی‘‘ ہے۔ یہ کتاب مجھ سے کوئی دوست لے گئے اور پھر انھوں نے واپس کرنے کی زحمت نہ کی۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کی ایک اہم دستاویز ہے جو اب تقریباً بھلائی جا چکی ہے۔ برادرم علی اوسط جعفری نے اپنی کتابوں کے ذخیرے سے مجھے یہ عنایت کی۔ میں سمجھتی ہوں کہ آج کے حالات میں یہ کتاب نہایت اہم ہے۔

میں نے اگلی سطروں میں جام کے اس بیان سے چند سطریں نقل کی ہیں جو اس نے فوجی عدالت میں دیا تھا۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں جام کی بے گناہی کی گواہی دینے ملک کے اہم سیاستدان فوجی عدالت میں گئے تھے، جس میں بے نظیر بھٹو پیش پیش تھیں ۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’میں فوجی عدالتوں کو نہیں مانتی ۔ جام ساقی اس ملک کا ایک محب وطن شہری ہے اور اسے رہا کرنا چاہیے۔‘‘ جام پر اس کے بعد جو گزری ، اس کے بارے میں کیا لکھوں۔ بس یہی کہوں گی کہ ہمارے یہاں کیسے کیسے جوہر قابل، سفاک افسروں کے ہاتھوں خاک میں ملا دیے گئے۔ وہ جان سے نہیں گیا لیکن اس کے ذہن میں جانے کون سے کابوس رہنے لگے۔

فوجی عدالت میں اپنے اس تاریخی بیان میں جام نے کہا تھا: حضرات! ملک ، عوام، جغرافیہ، تاریخ اور بعض دیگر عناصر کا مجموعہ ہے جب کہ ہر پارٹی کی اپنی آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ اس ٹولے (اس وقت کی حکومت) کی آئیڈیا لوجی کوڑے مارنا، ہاتھ کاٹنا، پھانسی، تشدد، اجارہ دار سرمایہ داروں کی غیر قومیانے کے ذریعے خدمت، جاگیرداری کی رعایتیں دے کر اور کسانوں کو قتل کر کے خدمت اور سامراجیوں سے معاہدوں اور افغانستان میں مداخلت کرکے خدمت کرنا ہے۔ میرا نظریۂ پاکستان، سائنسی سوشلزم ہے، بنیادی زرعی اصلاحات ہیں۔ بنیادی صنعتوں اور سامراجی سرمائے کو قومیانے کی بات ہے، امریکا سے 59 ء کا دو طرفہ معاہدہ توڑنا ہے اور چھوٹی قومیتوں کے حقوق کی بحالی ہے۔

جناب ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ دنیا بھر کے تمام ملکوں کو عمومی طور پر اور ہمارے خطے کے ملکوں کو خصوصی طور پر خوش گوار ہمسائیگی کے تعلقات استوار کرنے چاہیئں تاکہ ایشیائی ملکوں کا اتحاد اس قابل ہوسکے کہ عالمی سامراج کے شکنجوں کو توڑ سکے۔ اس پالیسی کو حال میں ایشیائی سیکیورٹی کا نظام کہا جاتا ہے۔ یہ پالیسی جس پر ہم خلوص دل سے عمل پیرا ہیں ریاستوں کو توڑنے حتیٰ کہ ریاستوں کی جغرافیائی سرحدوں کی تبدیلی کی بھی مخالفت کرتی ہے کیونکہ اس سے ہمارے خطے کی سامراج دشمن ریاستوں کا اتحاد کمزور پڑتا ہے۔ ہماری پارٹی پاکستان کے اقتدار اعلیٰ اور یکجہتی کی بھرپور حمایت کرتی ہے، کسی مضحکہ خیز آمر کے خوف سے نہیں بلکہ اپنے نظریہ کی وجہ سے۔ اس کا ثبوت ہماری پارٹی کے بیانات اور ہمارے سیکریٹری جنرل کامریڈ امام علی نازش کے بیانات سے بھی مل جاتا ہے۔

جام نے کہا تھا کہ حال ہی میں حکومت نے مستقبل میں جمہوریت کی لہر کو روکنے کے لیے عدالتوں سے مزید اختیارات چھین لیے ہیں لیکن عوام کی بے چینی پہلے ہی عوامی تحریک میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ تمام جمہوریت پسند، محب وطن ، محنت کش عوام اپنے مطالبات کے حصول کی جدوجہد میں سرگرم ہورہے ہیں اور ان کی صفوں میں اتحاد بڑھ رہا ہے۔

عدالت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے… وہ اپنے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے فوجی عدالت کو بتاتا ہے کہ اس کے پاس سے جو ’’خطرناک‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ مواد برآمد ہوا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:’’میرے پاس اکتوبر اور نومبر 78ء کے دو نیو ٹائمز تھے اور ایک کتاب ’’جدلیاتی مادیت کیا ہے‘‘ بھی تھی۔ یہ سب بازار میں دستیاب ہیں۔ میرے پاس ’’عوامی جمہوریت‘‘ نامی ہفت روزہ کا بھی ایک شمارہ تھا، یہ خوب ہے کہ ڈیکلریشن سے شایع ہونے والا اخبار بھی جب میرے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ بھی قابل اعتراض بن جاتا ہے۔

تاہم ان اخبارات، کتب، رسائل اور پمفلٹوں میں سے کوئی بھی خلاف قانون قرار نہیں دیا گیا ہے اس لیے ان کو پاس رکھنا کوئی جرم نہیں۔ حضرات بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دو طرح کی لغتوں کا رواج ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک اذیت گاہ میں اس لیے معتوب رہا کہ میں نے 1970 میں سندھ یونیورسٹی میں ایک تقریرکے دوران مطالبہ کیا تھا کہ فوج کو تمام صوبوں سے بھرتی کیا جائے۔

مجھے بتایا گیا کہ یہ شرپسندی ہے اور تب بھی جب مجھ سے صحافیوں کی تحریک کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو میں نے کہا کہ اگر حکومت اتنی عقلمند ہے تو ان کے مطالبات تسلیم کرے لیکن یہ سب گڑبڑ اور کوڑے لگانے سے پہلے کرلیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرا یہ تبصرہ بھی شرپسندی کے ذیل میں آتا ہے غالباً اسی وجہ سے لوگ شرپسندی کا مطلب عقلمندی سے لینے لگے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرے بیان کو حکومت کی نئی مذموم لغت کی روشنی میں نہیں پڑھا  جائے گا بلکہ اسے سیاسی طور پر سمجھا جائے گا۔

آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی تاریخ کے برعکس فیصلے کرتی رہی ہیں کچھ برسوں کے بعد انھیں یہ موقعہ مل جاتاہے کہ عاصمہ جیلانی کیس ڈوسا کیس، یا مولوی تمیز الدین کیس وغیرہ کو یاد کریں لیکن اس عدالت کو اس کا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا کہ یہ اپنے فیصلوں کو تاریخ سے ہم آہنگ کرسکے۔

اس لیے، جناب صدر اور اراکین عدالت! یہ آپ کا پہلا اور آخری موقع ہے جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ (جون 1980)۔

جام کا یہ بیان ہزاروں الفاظ پر مشتمل ہے۔ یہاں تو اس کے بس چند پیراگراف دیے گئے ہیں۔ حیدرآباد کی اس گرم شام میرے کانوں میں جام ساقی، بزنجو صاحب، عبدالولی خان اور بے نظیر بھٹو کے جملے گونجتے رہے، ہماری اسٹیبلشمنت نے کچھ نہی سیکھا ۔ آج بھی اس سے اختلاف کرنے والے اٹھا لیے جاتے ہیں اور پھر ان کی تشدد زدہ لاشیں ملتی ہیں اور کبھی وہ بھی نہیں ملتیں۔ مختلف لوگوں کے لکھنے اور بولنے پر پابندیاں ہیں۔ واقعی ہم نے تاریخ سے یہ سیکھا کہ اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ کاش یہ اہم دستاویز ایک بار پھر سے شایع ہو، تا کہ ہماری نوجوان نسل اسے پڑھ کر کچھ سمجھ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔