لاپتہ افراد کا معاملہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 23 اگست 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

قائداعظم محمدعلی جناح کے قائم کردہ روزنامہ ’ڈان‘ اخبار میں خبر شایع ہوئی ہے کہ بدین میں قوم پرست تنظیم جئے سندھ قومی محاذ (J.S.Q.M) کے 35 کے قریب کارکنوں نے قوم پرستی کو ترک کرنے اور قومی سیاست میں حصہ ڈالنے کا اعلان کیا۔

سابق قوم پرست رہنماؤں جاوید احمد میمن، ممتاز علی، زوار محمدعلی خاصخیلی، غلام اکبر اور بابو بروہی نے صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ قوم پرست سیاست سے شہرکے لوگوں کی کوئی خدمت نہ کر پائے۔ انھوں نے نام نہاد سندھو دیش کی تحریک چلانے والے گمراہ کن کارکنوں کے عزائم کی مذمت کی اور ان عناصر کی جو کسی اور طاقت کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ عظیم قوم پرست رہنما جی ایم سید کے پرانے ساتھ استاد محمد رحیمو تین ماہ قبل گولاچی سے لاپتہ ہوگئے تھے ۔

انھوں نے اپنے گھر پہنچنے کے بعد صحافیوں سے ملاقات کی اور ان کارکنوں کی طرح قوم پرست سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا ۔ سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ دو تین مہینوں کے دوران سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ دراز ہوگیا ہے۔ لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے ایک پرانے قوم پرست کارکن پنہل ساریو نے ایک کمیٹی قائم کی تھی مگر نامعلوم افراد انھیں ساتھ لے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں میں اس صورتحال پر سخت تشویش پائی جاتی ہے۔

گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) اور سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں نے پنہور اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کراچی اور حیدر آباد میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور دونوں شہروں کے پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے کیے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ اس ملک میں اس صدی سے شروع ہوتا ہے۔

نائن الیون کے بعد جب امریکا اور اتحادی افواج نے کابل پر یلغار کی تو امریکی بمبار طیاروں نے تورا بورا کی پہاڑیوں پر بم برسائے تو اس علاقے میں روپورش ہونے والے القاعدہ اور طالبان کے نمایندوں نے قبائلی علاقوں کا رخ کیا۔ نادیدہ قوتوں نے ان عناصر کو شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پوشیدہ ٹھکانوں کا راستہ دیا۔ القاعدہ والوں نے مختلف شہروں میں اپنے نیٹ ورک مضبوط کرلیے۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور ملکی ایجنسیوں نے اس نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے کارروائی کی اور کئی افراد لاپتہ ہوئے۔ ان میں سے کچھ کو افغانستان اور کچھ کو کیوبا کے جزیرے میں پہنچا دیا گیا۔

بلوچستان میں مری قبیلے کے خلاف کارروائی ہوئی اور یہ الزام لگایا جانے لگا کہ مری قبیلے کے بعض کارکن لاپتہ ہوگئے ہیں۔ پورے بلوچستان میں بی ایل ایف اور دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کے کارکنوں نے ہتھیار اٹھالیے۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان ایک نئی شورش کا شکار ہوا۔ دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلا، سرکاری افسروں اور پولیس افسروں ۔ خواتین کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ مختلف عناصر کے لاپتہ ہونے اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ پہلے ملکی اور پھر عالمی سطح پر موضوعِ بحث بنا۔

جب کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آپریشن کیا تو ایم کیو ایم نے یہ الزام لگانا شروع کیا کہ اس کے سیکڑوں کارکنوں کو نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی مسخ شدہ لاشیں ملیں اورکچھ اپنے گھروں کو واپس آئے مگر ایم کیو ایم کی قیادت اب بھی سیکڑوں کارکنوں کی فہرست کچھ دنوں کے وقفے کے بعد جاری کرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کے معاملے پر پہلی دفعہ کارروائی کی۔ حکومت کو لاپتہ ہونے والے کچھ افراد کے بارے میں معلومات عدالت کے سامنے پیش کرنی پڑیں۔کچھ لوگ اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریٹائرڈ جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا۔ سندھ سے جسٹس ریٹائرڈ غوث محمد اس کے رکن بنے۔ یہ کمیشن اب بھی کام کررہا ہے۔

کمیشن کی کوششوں سے کئی لوگ بازیاب ہوئے، کسی کے بارے میں تصدیق ہوئی کہ وہ ملک چھوڑ گئے ہیں اور کئی افراد کے بارے میں تصدیق ہوئی کہ وہ جیلوں میں مقید ہیں مگر لاپتہ افراد کا معاملہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کے ایجنڈے میں سرفہرست آگیا۔ جنیوا میں ہر سال ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایجنڈے میں یہ معاملہ شامل ہوگیا۔ جنیوا میں ہونے والے اجلاسوں کے موقعے پر بہت سے منحرفین وہاں جمع ہوجاتے ہیں۔ جب بھی پاکستانی مندوبین بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھاتے ہیں تو یہ گمراہ کن عناصر پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر شور غوغا کرنے لگتے ہیں۔

سابق دور حکومت میں اقوام متحدہ نے لاپتہ افراد کے بارے میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا تھا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مشن سے کوئی تعاون نہیں کیا اور کسی وزیر یا افسر نے مشن کے اراکین کو بریفنگ نہیں دی مگر انسانی حقوق کی تنظیموں ، سول سوسائٹی کی ایجنسیوں، صحافی اور وکلا اقوام متحدہ کے اس مشن کے سامنے پیش ہوئے، اس مشن کی ایک منفی رپورٹ جنرل اسمبلی کے ریکارڈ پر شامل ہوگئی۔ گزشتہ سال 5 بلاگرز کو نامعلوم افراد اٹھاکر لے گئے۔

اغواء ہونے والوں میں اسلام آباد کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر بھی شامل تھے۔ لاپتہ ہونے والے بلاگرز میں وہ افراد بھی شامل تھے جو پاکستان کے علاوہ ہالینڈ وغیرہ کی شہریت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بلاگرز کے لاپتہ ہونے کے معاملہ میں بین الاقوامی میڈیا میں سر فہرست آگیا ۔ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں دنیا بھر میں بحث و مباحثہ شدت اختیار کر گیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تدبر، بصیرت اور جرات کا ثبوت دیا۔ چوہدری نثار علی خان کی مداخلت سے یہ بلاگرز اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔

سندھ میں سیاسی صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ کسی بھی شہر میں ایجی ٹیشن کی صورتحال نہیں ہے۔ سندھی قوم پرست حلقے ہمیشہ سے ملکی سیاست کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتے ہیں مگر قوم پرستوںکے مختلف گروپ ہر انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ 1970ء سے جاری ہے مگر سندھ کے عوام قوم پرستوں کی تقاریر تو غور سے سنتے ہیں مگر انھیں ووٹ دینے کو کبھی تیار نہیں ہوئے۔

یہی وجہ ہے کہ قوم پرست تلخ حقائق بیان کرنے کے باوجود ہمیشہ ناکام رہتے ہیں مگر جب سے قوم پرستوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، سندھ کے پرامن سیاسی ماحول میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ سیاسی کارکنوں میں ایک خوف کی سی صورتحال ہے۔ اس کا اثر نہ صرف ملک میں بلکہ بین الاقوامی منظرنامے پر بھی ہورہا ہے۔ پاکستان کا انسانی حقوق کے تناظر میں چہرہ داغ دار نظر آنے لگا ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت عوام کے سامنے حقائق پیش کرنے چاہئیں۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو ایک مضبوط وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ لاپتہ افراد کے بارے میں کنفیوزن ختم کیا جائے۔یہی صورتحال وفاقی حکومت کی ہے۔ وفاقی حکومت کو ملک کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہیے۔ جس شخص نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اس کو عدالت سے سز املنی چاہیے۔ اس طریقہ کار سے مجرموں کو مظلوم بننے کا موقع ملتا ہے اور گمراہ کن عناصر کو ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو ورغلانے کے مواقعے میسر آتے ہیں۔ یہ تاثر ہے کہ نادیدہ قوتیں بعض کارکنوں کو اپنا مؤقف تبدیل کرانے میں کردار ادا کررہی ہیں، یہ سیاسی ماحول کو پراگند کرتا ہے، اب سندھی دانشور بھی اس بات پر متفق ہیں۔

اب سندھ میں سول بیوروکریسی بڑا حصہ ہے، فوج میں سندھیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ سندھ کے عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت صوبہ کا نظام چلاتی ہے، یوں سندھ کی علیحدگی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ عوا م کا ووٹ کے ذریعے فیصلہ ہی ہمیشہ گمراہ کن عناصرکے لیے حقیقی سبق ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک جمہوری آئین نافذ ہے۔ صدر، وزیر اعظم اور اداروں کے سربراہوں نے آئین کی پاسداری کا عہد کیا ہے تو پھر پاکستانی ریاست میں سب کچھ آئین کے دائرے میں ہی ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔