دیوانوں کے غول کے غول

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 23 اگست 2017

اگر موجودہ ملکی نظام اور موجودہ کرپٹ سیاست دانوں کے ذریعے کوئی یہ دعویٰ کرنے بیٹھ جائے کہ یہ دونوں ملک کو ترقی، کامیابی، خوشحالی،آزادی کی جانب لے جاسکتے ہیں اور لوگوں کو درپیش مسائل سے نجات دلوا سکتے ہیں تو آپ ایک سیکنڈ لگائے بغیر اسے دیوانہ مان کر اسی وقت اس کا ہاتھ پکڑ پاگل خانے لے جاکر داخل کروا دیجیے گا کیونکہ اس شخص کی آزادانہ نقل و حرکت کسی بھی وقت دوسروں کے لیے سنگین نتائج کو جنم دے سکتی ہے۔ دوسرے اس کی وجہ سے کسی بھی وقت اسپتال میں داخل ہوسکتے ہیں۔

موجودہ ملکی نظام اور کرپٹ سیاستدان ملک و قوم کو مزید تباہی و بربادی کی جانب تو لے جاسکتے ہیں لیکن ترقی، کامیابی، خوشحالی کی جانب کسی بھی طور پر نہیں لے جاسکتے کیونکہ یہ تباہی اور بربادی جو ملک اور قوم میں پھیلی ہوئی ہے اس کے ذمے دار یہ ہی تو ہیں، اگر آپ کو اس بات میں ذرا برابر شبہ ہے تو پھر ایسا کیجیے کہ آپ فوراً اپنے آپ کو گھر کے کسی کمرے میں بند کر لیجیے اور گھر والوں کو سختی کے ساتھ تاکید کر دیجیے کہ جب تک وہ خود کمرے سے باہر نہ آئیں کوئی انھیں پریشان کرنے کی گستاخی نہ کرے اور پھر آپ ایک کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ جائیں اور آپ کو اور ملک کودرپیش تمام کرپٹ لیڈروں کی فہرست مکمل کرکے ان کی خوبیاں ان کے نام کے سامنے لکھنے بیٹھ جائیں۔

صبح سے شام اور شام سے صبح ہوجائے گی لیکن انشاء اللہ آپ ایک بھی خوبی کسی بھی لیڈر کی نہیں لکھ پائیں گے اگر آپ ایک بھی خوبی کسی بھی کرپٹ لیڈر کی ڈھونڈ پائے تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا۔ اس ساری Exercise کے بعد آپ کی بھی آزادانہ نقل و حرکت پر نظر رکھنا بہت ضروری ہوجائے گا کیونکہ یہ ظاہر ہو چکا ہوگا کہ آپ بھی اصل میں دیوانوں کے ہی ساتھی ہیں موجودہ ملکی نظام اس قدر زہریلا ہوچکا ہے کہ وہ معاشرے میں صرف زہر پھیلانے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کر رہا۔

ملک سے شرافت، رواداری، برداشت، میرٹ، شفافیت، ایمانداری، سچ کو مٹاتا جا رہا ہے جو صرف دولت کے دیوانوں کے غول کے غول پیدا کرتا جا رہا ہے اور وہ دیوانے پورے ملک میں بری طرح سے لوٹ مار کرتے پھرتے رہے ہیں اور انھوں نے ملک میں شریفوں اور ایمانداروں کا جینا حرام کررکھا ہے، وہ دیوانے دولت لوٹنے میں اس قدر مست ہیں کہ وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ انسانی تاریخ میں یہ بات بار بار ثابت ہوتی آئی ہے کہ انسان دولت کو نہیں کھاتا بلکہ دولت انسان کو کھا جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ میں کوئی اور بات مسلسل اور تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہوئی ہے۔

1923ء میں دنیا کے آٹھ امیر ترین افراد کی ملاقات ہوئی ان کی مجموعی دولت اس وقت کے امریکی حکومت کے اس زمانے کے خزانے سے زیادہ تھی وہ لوگ یقیناً دولت کمانا اور اسے جمع کرنا جانتے تھے، تاہم اگلے 25 سال میں ان کے ساتھ کیا ہوا (1) سب سے بڑی اسٹیل کمپنی کا صدر چارلس شواب دیوالیہ ہوکر مرگیا وہ اپنی موت سے پانچ سال پہلے سے قرض پر جی رہا تھا (2) سب سے بڑی گیس کمپنی کا صدر ہاورڈ پسن پاگل ہوگیا (3) سب سے بڑا تاجر آرتھو کٹن مفلس ہوکر فوت ہوگیا(4) نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے صدر رچرڈ ونٹی کو جیل بھیج دیا گیا (5)صدر کی کابینہ کے رکن ایلبر ٹ فال کو جیل بھیجا گیا پھر معافی دے کر گھر بھیج دیا گیا وہاں وہ فوت ہوگیا- (6) ایک بہت بڑے تاجر جیسی لیور مور نے خود کشی کرلی (7) دنیا کے سب سے بڑی اجارہ داری کے صدر آئیورکروگر نے خود کشی کرلی (8) بینک آف انٹر نیشنل سٹیلمینٹ کے صدر لیون فریزر نے بھی خود کشی کر لی۔

تاریخ میں آپ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی اولادوں کا انجام پڑھ لیں۔ صدر صدام کے بیٹے مارے گئے اور بیٹیوں کی حالت دیکھ کر دل لرز جاتے ہیں۔ معمر قذافی کا جو واحد بیٹا زندہ رہا گینگرین کی وجہ سے انگلیاں اس کی کٹ چکی ہیں۔ ایک مغل شہزادی کو باورچی سے شادی کرنا پڑی۔

ان ہی دولت کے دیوانوں کی وجہ سے پاکستان میں ذیابیطس کے حوالے سے کیے جانے والے قومی سرو ے 2017ء کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 26 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہوگیا ہے۔ ملک میں 20 سال کی عمر سے زیادہ کے چارکروڑ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ اس مر ض میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجوہات فکر معاش اور معاشرتی مسائل ہیں ملک کی تین چوتھائی آبادی ڈپریشن کا شکار ہو چکی ہے، جن کے ذمے دار یہ ہی دولت کے دیوانے ہیں۔ اس ملک کے لوگوں کی حالت مقبرے میں قید ان انسانوں کی طرح کردی گئی ہے جہاں ہوا آنے کے تمام دروازے بند ہوں اور وہ سب گھٹ گھٹ کر مر رہے ہوں اور مقبرے کے چاروں طرف دولت کے دیوانے خوشی سے ناچ رہے ہوں۔ یاد رکھیں ہم سب کو ’’نہ سلجھ پانے والی کشمکش‘‘ میں مبتلا کر دیا گیا ہے اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت کے دیوانوں نے ملک کے وسائل، اختیار پر قبضہ کر لیا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ قبضہ ہمارے نام پر کر رکھا ہے اور اب وہ اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ ملک کے آئین اور قانون تک کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا اس بات پر اصرار ہے کہ انھیں لوٹ مارکرنے کی تاحیات آزادانہ اجازت دے دی جائے اور وہ پورے ملک میں جہاں چاہییں جب چاہیں آزادانہ کارروائیاں کرسکیں ہم سب کی کہانی درج ذیل سے مختلف نہیں ہے ’’وہ رات سب پر بھاری گزرتی تھی کال کوٹھڑیوں میں ویسے ہی یاسیت منڈلاتی رہتی تھی اور سزائے موت یافتہ قیدیوں کے ستے ہوئے چہرے گھمبیرتا میں مزید اضافہ کر دیتے تھے، لیکن وہ رات خدا کی پناہ سانسوں میں پھندے لگا دیتی تھی اور وہ وقت کراہتا ہوا گزرتا۔ صبح یوں لگتا تھا جیسے سب قیدیوں کو اجتماعی پھانسی دے دی گئی ہو۔

وہ رات مردے کی واک کی رات ہوا کرتی تھی۔ اس رات صرف قیدی ہی نہیں،جیلر اور سپاہی بھی قابل رحم حالت میں نظر آتے۔ واحد شخص جس کا چہرہ سپاٹ نظرآتا تھا،الیکٹرک چیئر پر بیٹھنے والا سزائے موت کا مستحق وہ قیدی ہوا کرتا تھا۔ جس کے لیے سارا کھیل رچایا جاتا تھا۔ وگرنہ سب کے قدم ڈگمگا تے تھے اور آنکھوں میں دھند لہراتی تھی ’’ڈیڈ مین واکنگ۔ ڈیڈ مین واکنگ‘ مرد ہ آرہا ہے ’مرد ہ آرہا ہے‘ایک سپاہی کال کوٹھڑی کی سلاخوں سے چھڑی ٹکراتے ہوئے آواز لگا تا اور جیلر،سزائے موت یافتہ قیدی کو لیے پتھریلے چہرے کے ساتھ کال کوٹھڑی سے لے کر الیکٹر ک چیئر تک کا سفر طے کرتا، چند سو قدموں کا یہ سفر ’’گرین مائل(Green Mile) کہلاتا ہے۔

ایسا سفر جو فاصلوں میں لمحوںاور اذیت میں صدیوں پر محیط ہوجاتا ہے اور ہر روز دنیا کے کتنے ہی قید خانوں میں طے کیا جاتا ہے۔ ’’گرین مائل‘‘ ایک دن جیلر نے آنکھیں بند کرتے اور پیشانی مسلتے ہوئے کہا ’’سچ تویہ ہے کہ سبز میل کا سفر صرف وہ قیدی ہی طے نہیں کرتا جسے سزائے موت دی جانی ہوتی ہے بلکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے گرین مائل کا سفر طے کرتا ہے۔ زندگی کے آغاز سے لے کر ہم قدم بہ قدم لمحہ بہ لمحہ اپنے انجام کی طرف بڑھتے ہیں۔ ہمارا گرین مائل چاہے 7 منٹ کا ہو یا 70 سال کا،آخر موت پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔