تمہارے گیت ضرور چلیں گے

عینی نیازی  بدھ 23 اگست 2017

برصغیرکے لیجینڈ موسیقار سچدیو برمن کوسیریس ہارٹ اٹیک ہوا،اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں تھے آر، ڈی برمن کو چند منٹ کے لیے باپ سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ برمن کمرے میں داخل ہوئے تو انتہائی خاموشی تھی دل کی دھڑکن والی مشین پرصرف ہارٹ بیٹ کی لہروں کے ساتھ ایک معمولی سی آوازکا شور تھا ۔ سچدیو مشین میں آتی جاتی لہروں کو دیکھ رہے تھے، انھوں نے بیٹے کو قریب آنے کا شارہ کیا اور مشین کی جانب دیکھ کرکہا ’’دیکھو اصل بیٹ یہ ہے جب تک تمھارے گیتوں میں یہ بیٹ رہے گی تمھارے گیت چلیں گے۔‘‘

موسیقی کی تاریخ بتاتی ہے کہ سنگیت کی کوئی بھی شکل ہوخواہ کلاسیکی، فوک ، راک یا پھر پاپ میوزک۔ موسیقی کا ردھم سرمیں ہو تب ہی بات بنتی ہے، اس وقت ہماری نئی نسل کے فنکار پاپ میوزک کی جنگ میں شریک ہیں، ہم سب ہی کو اس شو کا انتظار تھا، نئے چہرے، نئی آوازیں امید سی بندھی ہے کچھ نیا سامنے ہے جوکانوں اور دل کو بھلا لگے۔ بے شک گیت وسنگیت کا تعلق دل سے ہے جہاںموسیقی سرتال کا جادو اپنا الگ ہی رنگ دکھاتے ہیں روح کسی ایسی ویسی موسیقی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی بدہضمی کا ڈر ہوتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب پاپ سنگرزکو اتنے مو اقعے نہیں تھے کہ وہ اپنے فن کا مظا ہرہ کسی بہتر پلیٹ فارم پر کرسکیں ایک واحد قومی چینل پی ٹی وی تھا جس پر عالمگیر اور محمد علی شہکی وغیرہ کا طوطی بولتا تھا۔ ان گلوکاروں نے بہت جان ماری تھی یہ فنکار پاپ سنگیت کو اس انداز سے پیش کرتے تھے کہ ناظرین سامعین سب ہی سن کر مزہ لے سکتے تھے پھر نا زیہ حسن اور زوہیب نے اس میدان میں اپنے جوہر دکھائے اور بلاشبہ ان کے گانوں اور پرفارمنس کو پینتیس سال گزر جانے کے باوجود بھی دیکھ کر ہم سبھی لطف اندوزہوتے ہیں۔

وائٹل سائن ، سجاد علی، جواد، عاطف اسلم، علی حیدر، شہزاد رائے، بلال و فیصل،حدیقہ کیانی، ابرارالحق، نجم شیراز، جنون اور بہت سارے نام تھے جنھوںنے انٹری دی اورہم سب کے آنکھوں کے تارے بن گئے بہت سارے گانوں نے شہرت کی بلندی کو چھوا اور پاپ گیت ہوتے ہوئے بھی فوک سونگ بن گئے گیت یاد رہا سننے والے شاعرموسیقار اورگلوگار سب کو بھول گئے۔ نئی نسل کلاسیکی موسیقی پر پاپ گیتوں کو فو قیت دینے لگی تھی اور کیوں نہ دیتی کہ سنگرز اسے بڑی محنت سے گاتے میوزک اور لیرکس بھی جاندار ہوتے الفاظ سمجھ میں آتے تھے، شاعری اچھی لگتی تھی لیکن آہستہ آہستہ معیارکم ہونے لگا، آواز پر توجہ نہیں رہی، اب گانے بنتے نہیں ڈیزائن کیے جاتے ہیں،شاعری کی جگہ تک بندی نے لے لی۔

اسی لیے میوزک بے ہنگم ہونے لگا جو کانوں کو ناگوار گزرتا تو ہمیں سمجھایا گیا کہ پاپ سنگرز ایسے ہی گاتے ہیں، ادھر ہماری بے بے نے خفا ہوکر دورفٹے کہا اور بڑھ کر ریکارڈ پلیئر بندکردیا۔گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب ان کی موجودگی میں آپ اسے کبھی نہیں بجاسکتے خیر ان میںکچھ سنگرز نے اچھا بھی گایا اور اس پر بے بے کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوا کہ ان کی خاموشی نیم رضا مندی تھی۔

کوک اسٹوڈیو والوں کو ان بے روزگارغریب فنکاروں پر رحم آیا اور انھوں نے کوک کی بوتل کے ساتھ اسٹوڈیوزکے دروازے کھول دیے کہ چلو بھئی تسی خود بھی کماؤ تے ساڈی مشہوری بھی کراؤ۔ پہلا سیشن دیکھ کر ہم سب عش عش کرنے لگے ہر طرف ان کی واہ واہ ہوئی، پڑوسی ملک بھی دیکھ کر رشک کرنے لگا وہ ہماری طرح کا پروگرام نہ کرسکا، تو ہم اور بھی خوش ہو ئے تمام گلوکاروں اور میوزیشنز نے بہترین دھنیں تخلیق کی سب نے داد دی ۔اب تو یہ سلسلہ چل نکلا کئی سیزن بنائے گئے لیکن آگے چل کرکام کا معیار وہ نہ تھا جس کی توقع ہم کررہے تھے۔

نئے فنکارپرانے گانے گاتے ہوئے تو برداشت کرلیے جاتے ہیں لیکن یہ گلوکار جو پندرہ بیس سال سے گائیکی پر اجارہ داری قائم کیے بیٹھے ہیں،انھیں کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ پرانے ہٹ گانوں کو ری مکس یا کورکرکے گائیں ہم تو امیدکیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ یہ ہمیں کچھ نیا اورمزید بہتر میوزک دیں گے لیکن ایسے پروگرام دیکھ کر مایوسی ہی ہوتی ہے جب کہ موسیقی کے نئے تجربات اور نئے کون کی آمد لازماً ہونی چاہیے، نئے سیزن کے وقفے میں جاری تخلیق کے لیے مزید محنت کی ضرورت ہے، کوک اسٹوڈیو انتطامیہ کے پاس تو وسائل بھی ہوتے ہیں اور بہترین آکسٹرا بھی میسر ہو تا ہے۔

تجربہ کار افراد بھی، شاید ہم زیادہ ایکسپٹشن کرنے لگے ہیں، اور اس کی گنجائش بھی ہے، موسیقی تنوع مانگتی ہے، شاعری، دھن،آواز کی اس دنیا میں شائقین اور اہل نظر خوب سے خوب تر چاہتے ہیں لیکن! معیار تو محنت کی بھٹی میں کندن ہوکر نکھرنے کا نام ہے جس کے لیے کڑی تپسیا کی ضرورت ہو تی ہے وہ ہوتی نظر آتی ہے، لیکن اس بھٹی سے ابھی مزید فنکارون کو کندن بنا کر نکالنے کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہو کہ ناقدان ہنر و فن اس الزام کو بڑھاوا دے دیں کہ جس کی امید ہم لگائے بیٹھے ہیں ان لوازمات سے سے شاید یہ نابلد ہے۔ ایسا تاثر نہیں ابھرنا چاہیے، افق روشن ہے، جو نوجوان جلدی سے دولت و شہرت چاہتے ہیں وہ اپنے فن کی نمود کے لیے خون جگر بھی صرف کریں، مسابقت کی دنیا بڑی ظالم ہے۔

کوک اسٹوڈیو نے گلوکاروں کو نئی پہچان دی اس لیے کسی کو اس بات کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ ویل ڈن، مگر اقربا پروری، جان پہچان کی بندربانٹ نے اس خوبصورت پلیٹ فام کو غیر معیاری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کئی اجارہ دار فنکاروں اور دولتیوں نے اپنے نا کارہ اولادوں کو راتوں رات شہرت کی بلندی پر پرواز کے لیے سوار کروا دیا اور یوں وہ ایک سفر جو بہت ساری امیدوں،خواہشوں ،آرزوں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا زمین بوس ہوگیا۔

اب سنجیدگی سے اس کی پر امید و توانا باقیات کواکھٹا کرکے دوبارہ تاج محل بنانے کی سعی کی جائے۔ اس کے لیے بہت ریاضت کی ضروت ہوگی، صرف پرانی بوتل نئے مشروب سے کام نہیں چلے گا، گلیمرکے ساتھ پر فارمنس پر بھی محنت کرنا ہو گی وہ چاہے دھن پر ہوں شاعری پر یا پھر آواز ہو سب ہی توجہ طلب ہیں۔ اب کوک اسٹوڈیوکے بعد پیپسی نے بھی بیٹل آف دی بینڈزکاآغاز کیا جس میں نئے بینڈزکے ساتھ اس کی چار اقساط پیش کی گئی ہیں، بہت ساری ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں جن سے موسیقی کی ترقی اور نوجوان گلوکاروں اور موسیقاروں کے بہتر اور تابناک مستقبل مشروط ہے، ہم سب کی خواہش ہے کہ پا کستان میں پاپ موسیقی اپنے عروج پر پہنچے، اس کی رگوں میں محنت،توجہ، اختراع اور جدت و تخیلق کے سبھی رنگ سمائے ہوئے ہوں۔ جن میں قابلیت ہے وہ اپنی صلاحیتوں کے بل پر آگے آئیں، کامیاب ہوں کہ جو گیت دل کے تار چھوتے ہیں، وہی گیت چلتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔