تخیل کا بھنور یا بھونچال؟

ایم قادر خان  بدھ 23 اگست 2017

لکھنا کچھ اور تھا لیکن اب بہت پرانا گانا یاد آیا انڈین فلم ’’بھائی بھائی‘‘ کا بڑا مشہور گانا اپنے زمانے میں اس گانے کو لوگوں نے بہت پسند کیا بلکہ ہر دور میں یہ گانا اپنی طرز پر پورا اترا شاعر نے کہا ہے:

اس دنیا میں سب چور، چور

کوئی مرغی چور تو کوئی دل کا چور

کوئی چوری کرے خزانے کی

تو کوئی آنے کی دو آنے کی

کوئی چھوٹا چور کوئی بڑا چور

اس دنیا میں سب چور، چور

شاعر نے کیا خوب کہا گو کہ فلمی گیت ہے لیکن ان اشعار میں حقائق بہت ہیں، اگر موجودہ دور کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے یہ گیت آج کے زمانے کے لیے کہا گیا۔ واقعی ہمارے خزانے کی چوری ہوتی رہی، بلکہ ہورہی ہے۔ بڑا مال چوری کرنے والا بڑا چور اور ایک معمولی ٹھیلے، چھابڑی والا اگر چوری کرتا ہے تو وہ صرف آنے یا دو آنے کی۔ مثلاً کسی نے ایک یا دوکلو میں ایک خراب پھل ڈال دیا یا کسی نے ترازو میں کمی کر دی، لیکن ان میں وہ لاکھوں روپے نہیں کما رہا بلکہ ہزاروں بھی نہیں شاید سیکڑوں میں بھی نہ ہو۔ اصل مورد الزام تو وہ بڑا چور ہے جو اپنے حاصل کردہ وسائل سے بڑی چوریاں کر رہا ہے سرکاری خزانے کو لوٹ رہا ہے، ٹیکس کی آمدنی کو لوٹ لیتا ہے۔

لوگ اس کی پرستش بھی کرتے ہیں ایک غریب جو اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھر رہا ہے وہ اگر چند سکوں کی چوری کرتا ہے تو ہم اس کو تھانے لے جاکر ایف آئی آرکٹواتے ہیں، عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر جیل کی ہوا کھاتا رہتا ہے جس کی کوئی ضمانت دینے والا بھی نہیں سالوں گزر جاتے ہیں وہ جیل میں پڑا رہتا ہے۔ اس کے بیوی بچے بھوکے رہ جاتے ہیں وہ کیا کریں اب ان کو کون روٹی لاکر دے گا۔

کتنا بڑا المیہ ہے اگر بڑے چور نہ ہوں تو میں یقین سے کہتا ہوں یہ چھوٹے چورکبھی پیدا نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ وہی بڑے بااختیار لوگ عوام کی خوشحالی، روزگار ضروریات کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیں گے پھر بھلا کون چوری کرے گا جس کو پیٹ بھر کھانے کو ملے کیا ضرورت ہے چوری کی۔ ہماری پرانی عادت ہے بنیاد پر نہیں جاتے یہ تو دیکھیں یہ برائیاں کیوں کس لیے عام ہوتی جا رہی ہیں۔

سب چھوٹوں کو گھیر لیتے ہیں پولیس بھی اپنی نفری بڑھانے کے لیے غریب مزدوروں کو پکڑتی ہے۔ اس پولیس نے کیا کسی بڑے آدمی کو پکڑا جواب نہیں؟ کہتے ہیں تخیل کے بھنور عجیب ہوتے ہیں، پہلے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی پھر میں سمجھا سمندر سے زیادہ تخیل کا بھنور ہے۔ زیادہ اس لیے کہ سمندر کے بھنور تو اپنا کام کرکے ختم ہوجاتی ہے، لیکن تخیل کے بھنور ختم نہیں ہوتے جب تک تخیلات سے نجات نہ ملے۔

ماضی میں جائیں تو اس کو آج سے بہتر کہیں گے اور جب یہ حال ماضی بنے گا تو شاید اس کو اچھا کہا جائے۔ یہ فطرت ہے گزرے وقت کو اچھا اور یاد رکھتے ہیں۔ میں نے یہ دیکھا جس کے ساتھ حال اچھا خوشحال فارغ البال رہا وہ بھی حال کو برا کہتا ملا۔ میں نے پوچھا میرے بھائی تم کو کس شے کی کمی ہے مالی حیثیت، اخلاقی حیثیت، معیشت میں مالا مال گھر سے خوشحال پھر کیوں کیا برائی آن پڑی جو آپ حالات صحیح نہیں جب بھی ملا آپ نے کہا کیا بتاؤں حالات صحیح نہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے، یہ بات بیس سال سے میں آپ کی زبان سے سن رہا ہوں۔ لیکن سمجھ نہ سکا آخر کیا کچھ باقی ہے یا آپ کے ساتھ کس قسم کی پریشانی ہے جس کی وجہ سے آپ کہتے ہیں حالات صحیح نہیں۔

پہلے تو موصوف مسکرائے پھر بولے! خان صاحب آپ صحیح کہہ رہے ہیں سب کچھ ہے اللہ کا شکر ہے کسی شے کی کمی نہیں لیکن جس طرح آپ نے کہا بیس سال سے وہی الفاظ سن رہا ہوں آپ صحیح سن رہے ہیں جو جس قدر مالدار، امیر، امرا، رؤسا ہوتا ہے اسی قدر اس کے ساتھ پیچیدگی و مسائل ہوتے ہیں۔

آپ نے سنا ہوگا جتنا بڑا آدمی اتنا بڑا مسئلہ یا اتنی بڑی پریشانی ۔ نہ دولت مند خوش نہ غریب خوش۔ غریب اپنی غربت کا رونا روتا ہے اور دولت مند اپنی پریشانی کا رونا روتا ہے۔ میرے خیال سے سارے دولت مند لوگوں کو اپنی دولت ان غریبوں میں تقسیم کردیں تاکہ وہ زائد دولت کی پریشانی سے تو بچ سکیں اس لیے کہ ان کو اپنی دولت بچانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ جھوٹ بولنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ جعلی دستاویز جمع کرنے میں بھی ان کو شرم نہیں آتی نہ خوف آتا ہے۔

اگر ایک غریب آدمی غلطی سے کوئی جعلی دستاویز کہیں غلطی سے دیدے تو فوری سزا کا مستحق اور جیل جاتا ہے۔ لیکن امیر، امرا، رؤسا یا بلند پائے کے حاکم قطعی خوف نہیں کھاتے جان بوجھ کر جعلی دستاویز بنوا کر عدالت میں داخل کردیتے ہیں۔ ان کو قطعی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ جب یہ جعلسازی ثابت ہوگی تو میرے اوپر قانون کے عملدرآمد ہوجائے گا اور میں ملزم سے مجرم بن جاؤں گا۔ دراصل ان کے ساتھ ایسا ہوتا بھی نہیں اگر ایسا ہوتا تو شاید ان کی کبھی ہمت نہ پڑتی کہ وہ اس قسم کے جعلی کاغذات عدالت عظمیٰ میں پیش کرتے۔

کیا بات لے بیٹھا کہاں سے چلے کہاں پہنچے۔ پرانی بات یاد آرہی ہے تقریباً 50 سال قبل ایک دوست جب ملاقات کرتے خیر خیریت معلوم کرتا تو یہی کہتے بس گزر رہی ہے۔ کیا کروں آج کل کاروبار بڑا مندا ہے۔ یعنی وہ جب بھی ملے اپنے کام کو یعنی جو دکان چلا رہے تھے، اس کی سیل کوکم بتاتے اور یہی کہتے آج کل کاروبار نہیں۔ ان کی ایک دکان تھی مزید چار دکانیں اس سے عالی شان ہوگئیں۔ مکان چار منزلہ بن گیا لیکن بات یہی کیا کریں آج کل کام بہت مندا ہے۔

ایک دن میں نے کہا میں عرصہ دراز سے یہی سن رہا ہوں جب آپ کی صرف ایک دکان تھی جس میں آپ کے والد صاحب اور بھائی بھی کام کرتے۔ والد صاحب کا انتقال ہوگیا، بھائی کی شادی ہوئی اس نے بھی دو دکانیں کرلیں لیکن آپ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کاروبار اچھا ہے، اگرکاروبار نہ ہوتا تو یہ مزید دکانیں، شادیاں، چار منزلہ مکان کیسے ہوتا۔ بولے! یہ تو سب اللہ کی دین ہے۔ میں بولا کیا اوپر سے زر و جواہرات گرے ہیں جو تمام ملکیت کے مالک اور پہلے کی نسبت بے حد خوشحال ہیں بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

کہنے لگے کیوں میرے کاروبار کو نظر لگا رہے ہو۔ بتایا نہیں اللہ کی دین ہے۔ اس نے نوازا یہ سب کچھ۔ میں خاموش ہوگیا یہ سوچ کر انھوں نے میری بات کو نہیں مانا یہ عادت ہے کیا کریں کاروبار آج کل مندا ہے یہ سمجھ لیں ان کا یہ تکیہ کلام ہے۔ ویسے اس کو ناشکرا پن بھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں اگر کسی کو کیا اچھا کاروبار ہے دولت اچھی آرہی ہے تو کہیں کوئی مانگ نہ لے دوسرا ایک ان کا تخیلاتی بھنور جاری ہے اور جاری رہے گا۔ سمندری بھنور تو دور ہوجاتا ہے لیکن اگر اس قسم کی باتوں میں آجائے تو سمجھ لینا آسان ہے یہ اپنے تخیلاتی بھنور میں ہیں۔

یہ بھی دیکھا ہے جس قدر دولت آتی ہے اسی قدر ہوس بڑھتی ہے۔ ہوس تو کبھی ختم نہیں ہوتی بھلے منہ کالا ہو، کردار کشی ہو، بداعمالی ہو، لوگوں کی نظروں میں گر جائیں لیکن ہوس اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ وہ غریب آدمی اچھا ہے جو ہوس میں نہیں بس اتنا ضرور ہے وہ بے چارا غریب ہے اور اپنی غربت ہی تو بیان کرتا ہے اس میں بھی وہ اللہ کا شکر بجا لاتا ہے۔ وہ ناشکرا نہیں اگر خالی پیٹ بھوکا ہے تب بھی وہ اللہ کا شکر ادا کرے گا۔ وہ شخص عظیم ہے یہ اس کی عظمت غربت میں ہوتے ہوئے رب تبارک و تعالیٰ کا دل سے لمحہ بہ لمحہ شکر ادا کرتا ہے۔ دولت مند شاید بتانے کے لیے اللہ کا نام لیتا ہو یہ ظاہر کرنے کے لیے میں مسلمان ہوں اللہ رسول کو مانتا ہوں، لیکن وہ مال و زر کی ہوس میں پھنسا رہتا ہے یہی وہ تخیل کا بھنور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔