خادمین کی بھرتی میں 10 کروڑ کی بے ضابطگیوں کا انکشاف

اسٹاف رپورٹر  بدھ 23 اگست 2017
محکمہ اوقاف بھرتی کردہ خدام کی فہرست قائمہ کمیٹی میں پیش کرنے میں ناکام رہا۔ فوٹو: فائل

محکمہ اوقاف بھرتی کردہ خدام کی فہرست قائمہ کمیٹی میں پیش کرنے میں ناکام رہا۔ فوٹو: فائل

 کراچی: سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے محکمہ اوقاف کے اجلاس میں گزشتہ روز صوبے کی درگاہوں پر عرس کے موقع پر خادمین کی بھرتی میں10 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ انکشاف سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے زکوٰۃ وعشر کے اجلاس کے دوران اس وقت ہوا جب قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن نصرت سحرعباسی اور اراکین نے درگاہوں پر عرس کے انتظامات کے نام پر زائرین کی جانب سے نذرانے کے طورپردیا جانے والا فنڈز خورد برد کرنے کا معاملہ اٹھایا۔

اجلاس میں انکشاف ہوا کہ محکمہ اوقاف زکوٰۃ وعشر سندھ نے درگاہوں پرزائرین کی خدمت کیلیے بھرتی کیے جانے والے خادمین کی بھرتی میں 10کروڑ سے زائد کی خورد بردکی ہے۔ محکمہ اوقاف سندھ نے3برسوں میں درگاہوں پرخدمت کیلیے بھرتی کیے گئے افراد کے نام پر10 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات کیے مگرجب کمیٹی نے محکمہ اوقاف سے بھرتی کردہ خدام کی فہرست طلب کی تو قائمہ کمیٹی میں حکام فہرست پیش کرنے میں ناکام رہے، محکمہ اوقاف سندھ نے خادمین کی بجائے روزانہ اجرت کی بنیاد پرمزدوربھرتی کیے لیکن سرکاری کاغذات میں 500 سے زائد خادمین کی بھرتی دکھاکرایک برس میں سرکاری خزانے کو 10 کروڑروپے کا نقصان پہنچایا۔

قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن نصرت سحر عباسی کا کہنا تھا کہ سرکاری بے ضابطگیوں کا پردہ چاک کرنے اورکرپشن کے خلاف لب کشائی پر انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں اورخاموش ہونے کے لیے کہا جارہا ہے۔ انھوں نے کہاکہ وہ دھمکیوں میں آنے والی نہیں، سندھ حکومت کی کرپشن کا ایوان کے اندراور ایوان کے باہرپردہ چاک کرتی رہیں گی۔

صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندرمیندھرو نے کمیٹی کو بتایاکہ صوبائی زکوٰۃ کونسل کی تشکیل عبوری ہے، نئے چیئرمین کی تقرری کیلیے وزیراعلیٰ کو سمری ارسال کردی گئی ہے، صوبائی زکوٰۃ کونسل کے تمام ارکان کا بھی جلدازسرنو انتخاب ہوگا، دوسری جانب سیکریٹری زکوٰۃ وعشر ریاض احمد سومرو نے قائمہ کمیٹی کو بتایاکہ درگاہوں پر خادمین کی بھرتیاں وزیراعلیٰ سندھ کی اجازت سے کی جاتی ہیں، محکمے میں کوئی ملازم مستقل نہیں اورمحکمہ اوقاف کے 750ملازمین کو مستقل کرنے کی ابھی باضابط منظوری نہیں دی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔