دہشتگردوں کی حمایت کرتے تو 73 ہزار جانیں کیوں جاتیں؟، ڈی جی آئی ایس پی آر

مولوی فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے اور وہاں وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری لیتا ہے۔ فوٹو: فائل

مولوی فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے اور وہاں وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری لیتا ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر پاکستان دہشتگردوں کی حمایت کرتا تو پھر ہمارے 73ہزار شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں کیوں جاتیں؟

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور سے افغان میڈیا کے 9رکنی وفد نے ملاقات کی جس میں پاک افغان سرحدی امور،باہمی تعلقات کے لئے میڈیا کے کردار پر تبادلہ خیال کیا گیا، آئی ایس پی آر کے مطابق افغان میڈیا وفد کو ایک ہفتے کیلیے پاکستان آیا ہوا ہے، انھیں پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت شمالی وزیرستان کا دورہ بھی کرایا جائے گا۔

میجر جنرل آصف غفور نے افغان صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر پاکستان دہشتگردوں کی حمایت کرتا تو پھر ہمارے 73ہزار شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں کیوں جاتیں؟ امریکی فوجی افسران اور اہلکاروں کو حالیہ دورہ پاکستان کے دوران حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کے شواہد فراہم کیے گئے تھے، افغانستان اور پاکستان مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں، سرحدی میکنزم کا مقصد صرف اور صرف دہشت گردوں کو دونوں ممالک میں داخل ہونے سے روکنا ہے، افغانستان کو اس پر تحفظات ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ تیسرا راستہ کونسا ہے، افغانستان رضا مندہو تو سرحد پر پاکستانی سائیڈ کی طرح افغان سائیڈ پر بھی باڑ اور قلعے لگانے کو تیار ہیں جب کہ بھارت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ ہمیں منفی چیزوں کی بجائے مثبت چیزوں پر توجہ دینی چاہیے۔ میڈیا کو دونوں ممالک کے درمیان پل کا کر دار ادا کر ناچاہیے، ،سرحدیں بند کرنا اچھا اقدام ہے، پاک افغان سرحد پر آمدورفت کے بند راستے چھ سے نو ماہ میں کھول دیے جائیں گے، ابھی ان جگہوں پر طور خم اور چمن کی طرح آلات لگائے جارہے ہیں، پاکستان کی جانب سے سرحد پر نگرانی کا نظام قائم کر نے سے سرحد پار سے حملوں میں کمی آئی ہے، امید ہے کہ افغانستان بھی اپنی جانب ایسے اقدامات اٹھائیگا۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ مولوی فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے اور وہاں وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری لیتا ہے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ افغان حکومت ان حملوں میں ملوث ہے، افغان حکومت نے پاکستان کو جن 64مطلوب افراد کی فہرست دی تھی اس میں شامل حقانی نیٹ ورک کے سات اراکین افغانستان میں مارے گئے ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اس فہرست میں درجنوں شدت پسند افغانستان میں موجود ہیں اور کئی مارے گئے ہیں، شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد حقانی نیٹ ورک کا وہاں سے صفایا کیا گیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک مرتبہ پھر پاک فوج کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز کو اپنے مراکز میں تربیت دینے کی پیش کش کی، انھوں نے کہاکہ امریکی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک یا کسی اور گروپ کے درمیان مواصلاتی رابطوں کا پتہ لگا سکتی ہے، حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کی حمایت کا تاثر مضحکہ خیز ہے، افغانستان و پاکستان کے درمیان براہ راست اور آزادانہ تعلقات ہونے چاہئیں ،پاکستان اور افغانستان کو یہاں رہناہے اور بھارت اور دیگر یہاں سے چلے جائیں گے۔

علاوہ ازیں ترجمان پاک فوج نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صحافیوں کیلیے خیر سگالی کا پیغام بھیجا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔