کہاں تک در بدر پھرتے رہیں گے

اوریا مقبول جان  ہفتہ 4 اگست 2012
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

میں نے ان کا نام پہلی دفعہ ستر کی دہائی کے بالکل آغاز میں سنا۔ میٹرک کرنے کے بعد جب میں نے زمیندار ڈگری کالج گجرات میں قدم رکھا تو جہاں گجرات سانحہ مشرقی پاکستان کے المناک انجام کے بعد جنرل یحییٰ خان کے حوالے سے ایک مشہور کردار جنرل رانی کی وجہ سے آگ بگولہ ہوا اور شہر بھر میں نفرت میں کھولتے ہوئے جلوس نکل رہے تھے۔

وہیں ایک شخص شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے نوکری چھوڑ چھاڑ کر واپس اپنے آبائی شہر آ بسا۔ اس کے نزدیک اس شہر کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے حلقہ ارباب ذوق قائم کرنا تھا۔ یہ شخص آزاد نظم لکھتا تھا اور میرا جی کو اپنا امام تصور کرتا تھا۔ لیکن اسی دوران اسے ایک اور جنون نے گھیر لیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ غزل اور نظم وغیرہ جو ایک خاص وزن اور موسیقی میں ترتیب دی جاتی ہیں‘ سب رجعت پسندانہ اور دقیانوسی چیزیں ہیں۔ آدمی وزن برابر کرنے کے چکر میں پورا سچ نہیں بول سکتا۔

اس لیے نثری نظم لکھنی چاہیے۔ میں ان دنوں غزل اور نظم لکھتا تھا لیکن اس نثری نظم کے تجربے نے مجھے بھی کسی حد تک متاثر کیا اور میں نے بھی چند نثری نظمیں تحریر کر ڈالیں اور اس جنون میں ڈوبے شخص مبارک احمد کے ساتھ ہو لیا۔ ادب سے اس کی محبت کا عالم والہانہ تھا‘ اور نثری نظم سے وابستگی عاشقانہ۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کا سیکریٹری جنرل بن کر پورے ملک میں نثری نظم کو ایک تحریک بنانا چاہتا تھا۔ میں نے ان کا نام پہلی دفعہ مبارک احمد کی زبانی سنا۔ وہ اکثر کہتا یہ جو ایک رجعت پسند‘ غزل گو شاعر شہزاد احمد حلقہ ارباب ذوق کا جنرل سیکریٹری بنا بیٹھا ہے اس نے اس ادب کو آگے نہیں پڑھنے دینا۔

میر تقی میر کے زمانے میں گھسیٹ کر واپس لے جانا ہے۔ مجھے اس شخص کو دیکھنے اور ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ سولہ سال کی عمر میں نفرت اور محبت بڑی خام قسم کی ہوتی ہے۔ اسی عمر میں جب میں نے لاہور کے حلقہ ارباب ذوق میں اپنا افسانہ ’’ایلی ایلی لماشبقتنی‘‘ پڑھا تو اشفاق احمد کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں دو لوگوں نے کھل کر تعریف کی۔ ایک مرحوم سراج منیر اور دوسرے شہزاد احمد کہ جن کے نام کے ساتھ مجھے آج کتنے دکھ سے مرحوم لکھنا پڑ رہا ہے۔ افسانہ استعاراتی تھا اور ان دنوں یہ سکہ رائج الوقت تھا۔ میری حیرت یہ تھی کہ یہ قدیم غزل گو روایت والا رجعت پسند موجودہ افسانے کو کیا جانے۔

کم علمی کے سارے عیب آدمی لا یعنی خود اعتمادی میں چھپاتا ہے۔ شاید اس زمانے میں میرا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ نثری نظم کا وقتی طوفان کافی کی تلخ اور چائے کی گرم پیالیوں سے زیادہ نہ اٹھ سکا کہ اس خطے میں رچی بسی موسیقی نے شاعری کا دامن اس قدر مضبوطی سے پکڑا ہے کہ اب تو ایک روح اور جسم لگتے ہیں۔ میں غزل کی جانب لوٹا تو کتنے شاعروں کے دیوانوں سے ہوتے ایک جگہ آ کر رک سا گیا۔ یہ تھا یاس یگانہ۔ ایسی شاعری تو روح میں اترتی ہے۔

بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لُکنت زبان میں آئی

یگانہ کی شاعری میں گم ہو کر باہر نکلو تو نظریں بس شہزاد احمد پر آ کر ہی رکتی ہیں۔ ایسی شاعری صرف واردات کی نہیں بلکہ علم کے سمندر سے غوطہ لیتی ہوئی واردات کی شاعری ہوتی ہے۔

اس آنکھ سے آنسو نہ بہے ہیں نہ بہیں گے
یہ جھیل کا پانی ہے کناروں میں رہے گا

یوں مبارک احمد کی نثری نظم سے حلقہ ارباب ذوق کی سیکریٹری جنرل شب شہزاد احمد سے چھیننے کی خواہش سے ہوتی ہوئی‘ یاس یگانہ کی رُت میں لکھی گئی شہزاد احمد کی شاعری نے مجھے اس کا دیوانہ سا بنا دیا۔ میں لاہور آیا تو وہ روٹی پلانٹ میں ملازم تھا اور کبھی کبھار یونیورسٹی میں شعیب بن عزیز سے ملنے آتے۔ میں ہاسٹل میں تھا۔ شہزاد احمد پر نظر ڈالتے آپ کو ایک ایسے شخص کا احساس ہونے لگتا تھا کہ علم کی روشنی ان کے چہرے سے پھوٹ رہی ہے۔ عینک کے پیچھے سے جھانکتی ذہین آنکھوں سے زندگی جاگتی نظر آتی تھی۔ شہزاد احمد کی شاعری کے ساتھ ساتھ جب میں نے ان کی فلسفہ‘ تاریخ اور نفسیات پر کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو ایک حیرت کا جہاں مجھ پر کھل گیا۔

اس کے بعد مدتوں مشاعروں میں اکٹھے ہوتے رہے۔ شعروں کی داد‘ کسی کتاب پر گفتگو یا چٹکلوں اور لطیفوں سے بات آگے نہ جا سکی۔ یوں تو شہزاد احمد دوست بنانے اور دوستی کرنے کا فن جانتے تھے لیکن شاید میری افتاد طبع نے مجھے ان کے قریب نہ جانے دیا۔ لیکن ان سے متاثر ہونے کا عمل جاری رہا۔ ایک خالص رومانی شاعر اور اس قدر وسیع المطالعہ کہ مجھے جب کبھی یونانی اور مصری اساتیر میں الجھن پڑتی۔ فلسفہ اور نفسیات میں کسی مقام پر اٹکتا میں شہزاد احمد کو فون کر لیتا۔ اس دوران شہزاد پر ایک عجیب لمحہ‘ ہست و بود کا تجربہ وارد ہوا۔

وہ دل کے عارضے میں اس مقام پر جا پہنچے کہ کافی دیر تک اس جہان سے دور ہو گئے لیکن زندگی کے کچھ سال باقی تھے تو واپس آ گئے۔ مگر عالم بالا کی ایک جھلک دیکھ کر۔ اس تجربے نے تو اس عالم‘ فلسفی اور شاعر کو یقین کی وہ منزل عطا کی کہ بڑے بڑے سالوں کی ریاضتوں میں وہاں پہنچتے ہیں۔ ادھر ان کا یہ عالم حیرت کا جہان ان پر وارد ہوا اور ادھر میں سیکریٹری اطلاعات پنجاب تعینات ہوا۔ اس وقت تک میرا ان سے مستقل سا تعلق بن چکا تھا۔ میں محکمہ آثار قدیمہ میں ڈائریکٹر جنرل تھا اور وہ مجلس ترقی ادب کے چیئرمین لگے تھے۔ ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے میں کوئی نہ کوئی بحث کا موضوع لے کر وہاں چلا جاتا۔

مجلس ترقی ادب کو اگر کسی شخص نے نئی زندگی دی تو وہ شہزاد احمد تھے۔ وہ ہر مہینے کتابوں کا ایک ذخیرہ اٹھا کر میرے پاس لے آتے کہ یہ کلاسیک ادب ہم نے دوبارہ چھاپ دیا۔ جس عمارت میں مدتوں کتابیں ایک گودام کی صورت پڑی تھیں انھیں شہزاد احمد صاحب نے دنوں گرد آلود کمروں میں کھڑے ہو کر ترتیب دیا۔ تمام پرانے رسالوں اور قلمی نسخوں کو اکٹھا کیا۔ جو پرانے ٹائپ شدہ رسم الخط میں چھپیں تھیں انھیں نستعلیق میں دوبارہ چھپوایا۔ میں اس 75 سالہ شخص کی توانائیاں دیکھ کر حیرت میں گم ہو جاتا لیکن جس قوت و خوبی نے مجھے شہزاد کا گرویدہ بنایا وہ صرف ایک مومن کی میراث ہے۔

حق گوئی و بے باکی۔ مجلس ترقی ادب کی زمین ہی وہ متنازعہ جگہ تھی جس پر نظریہ پاکستان کے حوالے سے قبضہ مطلوب تھا۔ میں اس جنگ میں مصروف تھا کہ ایک دن شہزاد میرے پاس آئے۔ ان دنوں مجھ پر سخت پریشر تھا کہ میں انھیں اس عہدے سے ہٹانے کی سمری بھیجوں۔ آئے اور کہنے لگے۔ آپ کیوں یہ پریشانی سر پر لیتے ہیں۔ میں نے تیس سال قلم کی کمائی سے بچوں کا رزق کمایا ہے۔ واپس قلم ہاتھ میں پکڑ لوں گا۔ یہ لمحہ میرے لیے فیصلے کا تھا۔ شہزاد صاحب کے اس ایک فقرے نے میرے اندر کے انسان کو اور مضبوط کر دیا تھا۔ اس محاذ پر وہ میرے ساتھ تھا‘ کشتیاں جلائے۔ جنگ شروع ہوئی‘ میں افسر بکار خاص لگا دیا گیا۔

لیکن اس جنگ میں دو چیزیں بچ گئیں ایک مجلس ترقی ادب کی زمین اور دوسری شہزاد احمد کی وہاں تعیناتی۔ شہزاد بچ گئے اور یہ مجلس ترقی ادب کی خوش نصیبی تھی۔ لیکن میرے وہاں سے چلے جانے سے ہمارا ایک خواب ٹوٹ گیا۔ شہزاد احمد کا ایک خواب ایک بہت بڑے دار الترجمہ کا خواب۔ میں اور شہزاد اس خواب کو لے کر سرکار کی راہداریوں میں بہت گھومے بجٹ منظور کروایا۔ پھر اس زمین پر لوگوں کی نظر ہوئی۔ جھگڑے میں کون کدھر ہو گیا۔ شہزاد ہر دوسرے ہفتے میرے پاس آتے۔کتابوں کا بنڈل لاتے جو انھوں نے چھاپا ہوتا پھر دارالترجمہ کا وہ نقشہ کھولنے کو کہتے۔ میں وہ پوری فائل نکالتا۔ پھر ہم ایک طویل ماتم کرتے‘ اور پھر خواب دیکھتے ہوئے اٹھتے۔ شاید یہ سب بدل جائے۔

شاید کوئی تو اس مزاج کا آئے جسے فوڈاسٹریٹ سے زیادہ بک اسٹریٹ سے اور پُلوں سے زیادہ کتاب سے محبت ہو۔ شہزاد احمد کی زندگی بھر کی دربدری ختم ہو گئی۔ وہ اپنے خواب ساتھ لے گیا اور آدھے خواب کی راہداری پر مجھے بھاگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ انھی کے شعر پر بات ختم کروں گا

کہاں تک در بدر پھرتے رہیں گے
تمہارے دل میں گھر کرنا پڑے گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔