ڈاکٹر کی مریض سے گفتگو بلڈ پریشر کی ادویہ کو مزید موثر بنا دیتی ہے

ویب ڈیسک  جمعرات 24 اگست 2017
اگر ڈاکٹر اپنے مریض سے اسکے مسائل پر بات کرے تو اس سے مریض پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، ماہرین۔ فوٹو: فائل

اگر ڈاکٹر اپنے مریض سے اسکے مسائل پر بات کرے تو اس سے مریض پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، ماہرین۔ فوٹو: فائل

نیویارک: ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر معالج حضرات ہائی بلڈ پریشر مریضوں کو دوا تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے گفتگو کریں تو اس سے دوا کی تاثیر بڑھ جاتی ہے اور مریض کو زیادہ افاقہ ہوتا ہے۔

نیویارک یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر اینٹونیٹ شوئنتھلر نے کہا کہ ڈاکٹر مریضوں سے ادویہ کی بات کرتے ہوئے ان کی ملازمت، تعلقات اور رہائش جیسے موضوعات پر بھی بات کریں تو اس کا مثبت اثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اینٹیونیٹ کے مطابق بے روزگاری دوا کھانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ رقم کی کمی سے مریض دوا نہیں خرید پاتا اور مزید بیمار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں سے کہا گیا ہے کہ وہ غریب مریضوں سے ضرور مکالمہ کریں۔

ماہرین نے نیویارک شہر کی غریب آبادیوں میں 92 مریضوں کا سروے کیا جن میں اکثریت بے روزگار سیاہ فام خواتین کی تھی۔ سروے کے دوران مریض کی دوا کی بوتل یا ڈبے کو تین ماہ تک الیکٹرانک ٹیگ کی مدد سے دیکھا گیا اور ڈاکٹروں کی گفتگو کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔

ماہرین نے نوٹ کیا اگر ڈاکٹر دوا کھانے کی تاکید اور ہدایات نہ دے تو مریض کی جانب سے دوا نہ کھانے کا رحجان تین گنا تک بڑھ جاتا ہے جبکہ اگر ڈاکٹر نے رہائش اور ملازمت وغیرہ پر مریض سے بات نہیں کی تو اس سے دوا نہ کھانے کی شرح چھ گنا تک بڑھ گئی۔

اس تحقیق کی تفصیلی رپورٹ ایک تحقیق جرنل، سرکولیشن، کوالٹی اینڈ آؤٹ کمز کے 22 اگست کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ ڈاکٹر اگر مریض سے دوا کی خوراک اور کھانے کی ہدایات پر بات کرے تو مریض اس کا مثبت نفسیاتی اثر لیتے ہوئے ڈاکٹر کو اپنا ہمدرد سمجھتا ہے۔ اسی سروے کی بنیاد پر ڈاکٹروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر وہ بلڈ پریشر کے مریضوں کے مسائل پر تھوڑی دیر بات کر لیں تو اس سے ہائی بلڈ پریشر کی دوا کے اثرات بڑھ سکتے ہیں تاہم اس کی وجہ نفسیاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔