ڈاکٹر قدیر، جماعت اور قوم کی آرزو

عبدالقادر حسن  ہفتہ 16 فروری 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں ان دنوں زیادہ چل پھر نہیں سکتا۔ ’میرے گھٹنے میں درد جگر مام دینا‘ والا مسئلہ ہے جس کسی ہم عمر سے بات کرتا ہوں اور درد گھٹنہ کی شکایت کرتا ہوں تو وہ کہتا ہے، یہ تو اب ایک عام مرض ہے۔ ان دنوں میرا ’گھٹنہ‘ میرا ڈرائیور ہے جس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میں کہیں بھی جا سکتا ہوں۔گھٹنے پر زور نہ پڑے تو میں بالکل ٹھیک ہوں، اس لیے میں چلنے پھرنے سے نیم معذور ہوں چنانچہ اسی نیم معذوری کے عالم میں اہل منصورہ نے جب یاد کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آمد کا لالچ دیا تو میں اس در کی طویل غیر حاضری کے باوجود افتاں و خیزاں حاضر ہو گیا۔

جماعت اسلامی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک قدرتی جوڑا ہیں چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی سیاست میں آمد کی وجہ سے وہ لمحہ آیا کہ ان دونوں کی یہ بر سر عام ملاقات ہوئی۔ ’ویلنٹائن ڈے‘ سے دو دن پہلے۔ محترم ڈاکٹر صاحب وہی ہیں جو جماعت اسلامی کا کوئی پڑھا لکھا شخص ہو سکتا ہے، ایک سائنس دان جو منکر ہونے کے بجائے اسلامی اقدار و نظریات کا قائل اور عامل ہے ورنہ جو سائنس دان ہوا کرتے ہیں وہ اپنی الٹی پلٹی سائنسی توجیہات کی وجہ سے زیادہ تر نظریات سے منکر ہوتے ہیں مگر نظریاتی نہیں عملاً سائنس سے عمر بھر کے تعلق کے باوجود وہ ایک پکے مسلمان ہیں۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ انھیں سائنسی تعلیم کی طرف مائل کرنے والا وہ کوئی روحانی اشارہ تھا جس کا نتیجہ اسلامی دنیا کو پہلا ایٹم بم دلانے کا باعث بنا۔ عہد حاضر کا ایک قابل ’پرستش‘ عمل جس نے نئے دور کے سب سے بڑے اور اہم مسلمان ملک پاکستان کو اس کے ان دشمنوں سے بچایا جو ہر وقت اس کی تاک میں تھے اور اب بھی کسی موقع کی تلاش میں ہیں مگر ان کے سامنے ڈاکٹر قدیر کا بنایا ہوا ایٹم بم ہمالہ بن کر کھڑا ہے۔ ایک طرف یہ سائنسی طاقت اور دوسری طرف جماعت اسلامی کی نظریاتی طاقت کا ملاپ پاکستان کے جدید سیاسی دور کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ منصورہ کی اس تقریب میں دونوں نے آنے والے سب سے بڑے سیاسی عمل اور چیلنج الیکشن میں اتحاد کا اعلان کیا۔

میں جذبات میں آ کر ذرا دور نکل گیا اور یہ بتانا بھول گیا کہ یہ تقریب کیا تھی۔ اپنا کام مکمل کر لینے اور اپنی عمر بھر کی تحقیق اور کامرانی کو حکومت پاکستان کے حوالے کر دینے کے بعد ڈاکٹر صاحب اب آزادانہ گھوما پھرا کرتے ہیں کیونکہ انھیں ان کے اصل دشمن امریکا کے حوالے کرنے والا کوئی بے رحم پرویز مشرف اب اقتدار میں نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس بر سر عام نقل و حرکت سے فائدہ اٹھا کر جماعت والوں نے ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا، یہ تقریب منصورہ کے سبزہ زار میں منعقد ہوئی اور اس میں جماعت سے متعلق لوگوں نے کسی غیر جماعتی ڈاکٹر قدیر خان زندہ باد کے نعرے بلند کیے۔

ڈاکٹر صاحب ایک کھلی سیاست کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو ملک کی کسی موزوں خدمت کے لیے بلا تکلف پیش کر رہے ہیں، وہ جماعت کی طرح محدود اور کسی حد تک بند سیاست کے قائل نہیں ہیں، ان کے پاس ایک عملی کارنامہ ہے، زندگی کی ایک کامیابی ہے اور وہ خود اپنی ذات کی سب سے بڑی سفارش ہیں۔ وہ قوم سے کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک کی باگ ڈور ان کے کامیاب سائنسی ہاتھوں میں دے دی جائے تو وہ قدرتی وسائل سے لبالب بھرے اس ملک کو ایک عالمی طاقت بنا سکتے ہیں اور جو لوگ ان کی ماضی کی کامیابیوں کو دیکھتے ہیں، وہ ان کی بات مانتے ہیں کہ کامیاب ماضی ایک کامیاب مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے جس کا اعتراف اس قوم کو کرنا چاہیے اگر اس کی قسمت میں کچھ لکھا ہے۔

میں ان چند پاکستانی صحافیوں میں سے ہوں جو ڈاکٹر صاحب کی مسلسل نیاز مندی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ میں نے انھیں عملی زندگی میں دیکھا ہے اور ان کی مسلسل کرمفرمائیوں سے لطف اندوز ہوا ہوں۔ انھوں نے جب بم بنا لیا تو مجھے ایک خط لکھا تب تک ان سے غائبانہ تعارف ہی تھا، نہ جانے کیوں انھوں نے مجھے یاد فرمایا، شاید قدرت کو میری یہ سعادت منظور تھی کہ اس سب سے بڑے پاکستانی کی قربت سے سرفراز ہو جائوں۔ ہر پاکستانی طرح میں نے بھی انھیں اس دنیا میں بہت اوپر آسمانوں کی بلندیوں میں دیکھا لیکن انھوں نے جب سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو میں ان سے ناراض ہو گیا۔ میرا دیوتا زمین پر آ رہا تھا اور سیاستدانوں کے اس گروہ میں شامل ہو رہا تھا جن کے ساتھ مفادات تو ہر ایک کے وابستہ ہیں لیکن جن کی عزت شاید ہی کسی دل میں ہو۔

میں ڈاکٹر قدیر خان کو ان ٹکے ٹکے کے سیاستدانوں کی صف میں کیسے دیکھ سکتا تھا۔ میرے لیے اس کا تصور بھی نا ممکن تھا چنانچہ میں اس شخص کو جسے پوری قوم نے خود ہی محسن پاکستان کے خطاب سے یاد کرنا شروع کر دیا تھا کیسے سیاسی دنیا کے بھیڑیوں کے گروہ میں دیکھنا پسند کر سکتا چنانچہ میں احتراماً خاموش ہو گیا اور اس عظیم المرتبت شخصیت کی عظمتوں کو اپنے سینے سے لگا کر چپ چاپ بیٹھ گیا مگر اب جب وہ سیاست میں آ ہی گئے ہیں تو ان کی ذات کے لیے موزوں ترین گروہ اسی جماعت کا ہے، عین ممکن ہے ان کے تعاون سے جماعت میں بھی حرکت پیدا ہو جائے اور وہ بھی سیاست میں تن کر کھڑی ہو جائے کیونکہ پاکستان کے لیے جماعت سے زیادہ موزوں ضروری اور مفید جماعت اس وقت اور کوئی نہیں۔

ایک انگریزی محاورہ استعمال کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اور جماعت ’’سیاہ و سفید کے بعد سب سے زیادہ موزوں امتزاج ہیں‘‘ اس تقریب میں جناب منور حسن اور ڈاکٹر صاحب نے خطاب کیا، ان کی میزبانی جناب لیاقت بلوچ کر رہے تھے۔ دونوں کے خیالات بھی ایک، نیتیں اور ارادے بھی ایک ،کردار بھی ایک اور زندگی کے مقاصد بھی ایک۔ اب دیکھیں عمل کی دنیا میں یہ سیاسی امتزاج کیا چھب اور کارنامے دکھاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تو اب سائنسی لیبارٹریوں سے باہر نکل آئے ہیں، جماعت بھی منصورہ سے باہر نکلے، اپنی جماندرو جھجھک سے نجات پانے کی کوشش کرے، یہ ایک بہت ہی موزوں وقت ہے، سیاست کی دنیا بے چین ہے، قوم کبھی ایک کی طرف بھاگتی ہے تو کبھی کسی دوسری کی طرف کیونکہ اسے اب اپنے بچائو کی پڑی ہوئی ہے۔ کیا یہ دونوں قوم کا جواب بن سکتے ہیں، قوم اس گرد و غبار میں سے کسی شہہ سوار کی برآمد کی منتظر ہے اور بہت جلدی میں ہے کیونکہ فیصلہ کی گھڑی یعنی الیکشن سر پر ہیں اور فیصلے اس کی آمد سے پہلے پہلے کرنے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔