شہباز شریف ہی دوبارہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے

نصرت جاوید  ہفتہ 16 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میری بدقسمتی کہ اپنے شہر لاہور میں ترکی کے تعاون سے چلائی جانے والی بس سروس کے افتتاح کی رونق نہ دیکھ سکا۔ پنجاب کی وزارتِ اطلاعات کے ایک افسر نے ٹیلی فون کر کے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ بعد ازاں خادم اعلیٰ کے ذاتی اسٹاف سے ایک ندیم صاحب نے بھی رابطہ کیا۔ دونوں صاحبان نے مجھے یہ اطلاع بڑی وضاحت سے فراہم کی کہ وہ مجھے اپنے وزیر اعلیٰ کی طرف سے مدعو کر رہے ہیں۔ مگر ہرگز اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا کہ مجھے لاہور کیسے پہنچنا ہے۔ ان کے رویے سے البتہ یہ محسوس ہوا کہ شاید مجھے اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوا کر وہاں پہنچنا ہو گا اور اس شہر میں رہائش کا میرے لیے بندوبست کرنے کی ضرورت تو ویسے ہی کسی اور کو محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے ان دونوں صاحبان سے جھوٹ بولا کہ اپنی کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اسلام آباد نہیں چھوڑ پائوں گا۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ آج کل کچھ ٹھوس وجوہات کی بناء پر اپنے مالی معاملات ذرا Tight ہیں۔ محض ایک بس سروس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے اپنی جیب سے دس سے پندرہ ہزار روپے خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں پا رہا تھا۔

میرے اس تقریب میں نہ پہنچ سکنے کے باوجود ریپڈ بس سروس کا افتتاح بڑے دھوم دھام سے ہوا اور اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی میرے بہت سارے ساتھی اپنی تحریروں اور پروگراموں میں اس کا ذکر بڑی ستائش سے کیے چلے جا رہے ہیں۔ اس بس کا ذکر کرتے ہوئے یہ سوال بھی بے ساختہ اُٹھ جاتا ہے کہ امیر حیدر ہوتی، قائم علی شاہ اور نواب اسلم رئیسانی اپنے اپنے صوبوں میں شہباز شریف جیسے جلوے کیوں نہ دکھا پائے؟ میری فکر ذرا دوسری نوعیت کی ہے۔

لاہور میں بس سروس کے افتتاح سے چند ہفتے پہلے مجھے اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ نون کے کچھ ایسے رہ نمائوں نے جو شہباز شریف صاحب کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں سرگوشیوں میں بتانا شروع کر دیا تھا کہ آیندہ انتخابات کے بعد وہ بجائے پنجاب میں ٹکے رہنے کے مرکزی حکومت میں شامل ہو جانا چاہیں گے۔ خدارا یہ نہ فرض کر لیجئے گا کہ میرے کانوں میں سازشی طریقے سے یہ بات ٹپکائی جا رہی تھی کہ پنجاب کے دو مرتبہ محیئر العقول کارنامے سرانجام دینے والے وزیراعلیٰ بن جانے کے بعد اب شہباز شریف صاحب اس ملک کے وزیر اعظم بننا چاہ رہے ہیں۔ میرے شیطانی وسوسوں سے بھرے دل کی تسلی کے لیے بلکہ یہ بات بھی بڑی صراحت سے مجھے بتائی گئی تھی کہ آیندہ کی مرکزی حکومت میں شہباز شریف صاحب وزارتِ پانی اور بجلی کا چارج سنبھالنا چاہیں گے۔ صرف اس مقصد کے تحت کہ وہ پاکستان میں 1980ء کی دہائی سے شروع ہو کر اس صدی کے آغاز سے گھمبیر تر ہوتے ہوئے بجلی کے بحران کو ہنگامی بنیادوں پر حل کر سکیں۔

بجلی کا بحران حل کرنے کی خواہش شہباز شریف کی بہت پرانی ہے۔ مجھے آج بھی 1997ء کے وہ چند مہینے یاد ہیں جب وہ اپنے ملنے والوں سے بڑے اشتیاق سے یہ پوچھا کرتے تھے کہ اگر اے این پی کی صوبہ سرحد کا نام پختون خوا رکھنے والی بات مان لی جائے تو جواباََ اسفند یار وغیرہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر راضی ہو جائیں گے یا نہیں۔ اے این پی نے خیبر لگوا کروہ نام تو اب آصف علی زرداری سے لے لیا ہے۔ ویسے بھی وزیر پانی و بجلی بن جانے کے بعد اگر شہباز صاحب طوفانی رفتار سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کر دیں تو اس کی تکمیل میں کم از کم دس سال ضرور لگ جائیں گے۔

بجلی کے بحران کو فوری بنیادوں پر حل کرنے کے لیے انھیں یقیناً کوئی اور نسخہ استعمال کرنا ہو گا۔ مجھے خبر نہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے۔ مگر کبھی کبھار شک پڑتا ہے کہ شاید وہ چین میں بڑی تیزی سے پھیلائی جانے والی ’’سولرانرجی‘‘ کو دل دے بیٹھے ہیں۔ کوئلے، پانی اور تیل کے متبادل ذرایع سے بجلی پیدا کرنے کے چند امکانات ان کے اپنے صوبے میں بڑے وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔گوبر گیس ایک مستند نسخہ ہے جسے پاکستانی فوج اپنے دور دراز علاقوں میں متعین جوانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہی ہے۔ بے تحاشہ امکانات شوگر ملوں میں آنے والے گنے کے تخلیقی استعمال میں بھی پنہاں ہیں۔ کاش کہ انھوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں ان دونوں ذرایع پر ذرا زیادہ توجہ دی ہوتی۔ شاید ان کے ذہن میں ان ذرایع کے استعمال کی خواہش موجود ہو مگر ڈینگی بخار کے خاتمے اور لاہور میں ریپڈ بس چلانے پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے ان کی تکمیل نہ کر پائے ہوں۔ مرکزی حکومت میں وزارتِ بجلی اور پانی سنبھالنے کے بعد وہ مذکورہ بالا امکانات کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔

لیکن مجھے تو اب یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ ان کی جماعت نے آیندہ کا انتخاب جیت لیا تو شہباز شریف صاحب کو پنجاب والے چھوڑنا ہی نہیں چاہیں گے۔ لاہور میں ترکی کے تعاون سے لال رنگ والی بس چلانے کے بعد وہ تو پنجابی محاورے کا وہ سانپ بن کر سامنے آ رہے ہیں جس کے سامنے کوئی دیا جل ہی نہیں سکتا۔ وہ اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اب لازم و ملزوم دِکھ رہے ہیں۔ ٹچ بٹناں دی جوڑی کی طرح ایک دوسرے کے لیے بنے ہوئے۔ ان کے دوستوں کو اب میرے اوپر رحم کرنا چاہیے۔ بات عیاں ہو گئی ہے۔ آیندہ انتخابات میں اگر پاکستان مسلم لیگ نون جیتی تو مرکز میں وزیر اعظم میاں نواز شریف ہوں گے اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ ایک بار پھر کسی اور کے ہاتھ نہ آ پائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔