نئی امریکی افغان پالیسی

ایڈیٹوریل  جمعرات 24 اگست 2017
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کردیا ۔ فوٹو: فائل

صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کردیا ۔ فوٹو: فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں نظرانداز کر کے درحقیقت ایک فرد جرم جسے وہ افغان پالیسی کا نام دیتے ہیں پاکستان کو پیش کردی ہے جسے نرم سے نرم ترین الفاط میں ایک شدید دھچکا قراردینے میں کسی بخل یا عذر لنگ سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ میں یہ دوسرا امتحانی مرحلہ ہے جب نائن الیون کے بعد بش انتظامیہ نے دھمکی دی تھی کہ ’’ ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف‘‘ غالباً ٹرمپ نے اس سے زیادہ تلخ نوائی، دھونس ، دھمکی ، دباؤ اور انتباہ کی صورت میں حکمرانوں کے ضمیر اور عوام کی اپنے وطن سے محبت اور اس کی سالمیت و خود مختاری کو لاحق خطرات پر جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔

تاہم آزمائش کی اس گھڑی میں حسب سابق چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان پر الزام تراشی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی عظیم قربانیوں اور اہم کردار کو تسلیم کرے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن پر ہے اور اس نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور اس جنگ میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ ان خیالات کا اظہار چینی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ہوا چن ینگ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی صدر کے خطاب پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا۔

ٹرمپ کی طرف سے افغان پالیسی کا اعلان ہوتے ہی وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا ، دوسری جانب حکومت نے امریکی صدر کے افغان پالیسی بیان پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس آج ( جمعرات ) طلب کر لیا ہے، موجودہ صورتحال پر عسکری قیادت سے بھی رائے لی جائے گی، پارلیمانی جماعتوں کو بھی مشاورت میں شامل کیا جائے گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ہمراہ سعودی عرب پہنچے جہاں سعودی ولی عہد اور سینئر حکام سے ان کی خطے کی صورتحال پر دوطرفہ بات چیت ہوئی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی پر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے امریکا کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا، پاکستان نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو یکسر مسترد کردیا، وفاقی کابینہ کا امریکا سے احتجاج اور دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کا بر وقت صائب فیصلہ کیا گیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کردیا اور کھلی وارننگ بھی دیدی کہ دہشتگردوں کی مدد جاری رکھی تو پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا، ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے سے پاکستان کو فائدہ دوسری صورت میں نقصان ہو گا، دہشتگردوں کو پناہ دینے والوں پر اقتصادی پابندیاں لگائیں گے۔ بحیثیت کمانڈر اِن چیف آرلنگٹن کے فوجی اڈے سے امریکی قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہم پاکستان کواربوں ڈالردیتے ہیں لیکن وہ انھی دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے جو ہمارے دشمن ہیں۔

امریکا کی بھارت نوازی اور افغانستان کی امریکی پالیسی کی تشکیل میں دہرے کردار کی پر مسرت غمازی افغان پالیسی کے اعلان کے خیرمقدم سے ہوتی ہے، بادی النظر میں امریکا بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کا ظالمانہ عندیہ اسی پالیسی میں دے چکا ہے تاہم مین اسٹریم امریکی میڈیا میں افغان پالیسی تنقید کی زد میں ہے، میڈیا کے مطابق ٹرمپ خود بھی داخلی گرداب میںپھنسے ہیں، نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ سمیت دیگر موقر اخبارات میں افغان پالیسی پر تجزیئے چھپے ہیں، نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکا کی طویل ترین افغان جنگ میں فتح کے لیے بھارت کو پاکستان پر فوقیت دی گئی، اسی اخبار نے ’’کولڈ شوڈر فار پاکستان‘‘ کے عنوان سے امریکا کو اس سرد مہری کا طعنہ دیا ہے جب کہ افغان جنگ میں امریکی جیت کو ’’ہنوز دلی دور است ‘‘سے تعبیر کیا ہے، واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ ٹرمپ نے بار بار کہا کہ افغان جنگ میں جیت ہماری ہوگی مگر ان کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے اسے بڑھک سے مشابہ سمجھتے ہوئے اہمیت نہیں دی۔ ادھر ایک معتبر امریکی تجزیہ کار ڈیوڈ اگنیشیئس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی حقیقی اسٹرٹیجی ہے۔

اب جب کہ امریکا ، بھارت ،افغانستان ٹرائنگل اپنی خواہشات، الزامات، اور ہولناک عزائم کے ساتھ بے نقاب ہوچکا ہے ، حکمرانوںپر لازم ہے کہ وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کریں، ٹرمپ کارڈ کی تفہیم میں بلاشبہ ارباب اختیار سے لغزش ہوئی ہے، مان لیں کہ ٹرمپ مہینوں افغان پالیسی کی تیاری میں مصروف رہے اورہمیں حالات نے پاناما لیکس اور باہمی اختلافات میں الجھائے رکھا، لہٰذا قوم کو اس حقیقت سے واقف ہونے کا حق حاصل ہے کہ امریکی جنرلوں ،نیٹو کمانڈروں اور امریکی حکام کے فاٹا اور قبائلی علاقوں کے مشاہدے اور تفصیلی دورے بیکار کیوں گئے، کیا سفارتی محاذ پر ہم ہزیمت کا شکار ہوگئے، امریکا نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا یہ صلہ کیوں دیا ۔ کیا امریکی لغت میں نان نیٹو اتحادی ، قابل اعتماد حلیف اور دوستی کے معانی بدل گئے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔