ہم اور ہماری فوج

عبدالقادر حسن  جمعرات 24 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم صحافی نہ تو سیاستدان اور نہ ہی حکمران ہوتے ہیں ہمارا کام تو صرف عوام کو حالات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ سنگین ہیں یا خوشگوار۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہم میں سے کچھ صحافیوں نے حکمرانوں کی قربت بھی حاصل کی اور ان کی حکمرانی میں حصہ دار بن گئے دوسرے لفظوں میں چوتھا ستون ہونے کی دعویداری کو سچ ثابت کر دکھایا لیکن حکمرانی کے نشے میں ایک اخبار نویس اپنی بنیادی ذمے داریوں سے صحیح طریقے سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا کہ اس پر اضافی ذمے داریوں کے بوجھ کے ساتھ حکمرانی کی قربت بھی اثر اندازہوتی ہے ۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں فوجی یلغار شروع ہوئی تو موجودہ پاکستان جسے اس وقت مغربی پاکستان کہا جاتا تھا میں اس یلغار کی سنگینی کا احساس بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ ابلاغ کے وہ ذرایع مفقود تھے جو کہ آج کل ہیں اور ہم اخبار نویس بھی مغربی پاکستان کے عوام کے سامنے مشرقی پاکستان کی اصل صورتحال پیش کرنے سے قاصر رہے اور قوم صرف اُس وقت کے جرنیل کے نعروں میں ہی ڈوبی رہی ۔ اس سانحہ کے بعد لاہور میں ایک جگہ ہم چند صحافی اکٹھے ہوئے، مجھے یاد نہیں کہ ہم میں سے کسی نے کہا کہ اگر ہم غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچ پیش کر سکتے تو شاید یہ سانحہ نہ ہوتا اور ہمارے رائے عوام کے ساتھ ساتھ اس وقت کے حکمرانوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی تھی۔

ان حالات کی یاد مجھے اپنی فوج کے تعلقات عامہ  کے سربراہ کا بیان پڑھ کر آئی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ سول اور ملٹری کے درمیان کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں اور فوج سول معاملات میں دخل نہیں دیتی ہاں اگر ملکی حالات کے بارے میں کوئی مفصل گفتگو شروع ہوئی تو فوج اس کا حصہ ضرور بنے گی۔ سول اور فوجی تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں ۔ سویلین سیاست کے ماحول میں رہتے ہیں تاہم فوج کا کسی سیاسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔ فوجی ترجمان نے اپنے ادارے کے نقطہ نظر کی سویلین معاملات کے بارے میںبڑی مدلل وضاحت کی ہے جس کی اس وقت ضرورت محسوس کی جارہی تھی کیونکہ کچھ در پردہ طاقتیں سول اور ملٹری تعلقات بارے افواہیں پھیلا رہی ہیں اور موجودہ سیاسی حالات کو اس سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

پاک فوج اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ تو ہے ہی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پچھلی کئی دہائیوں سے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا اپنا بنیادی کام بھی بڑی کامیابی سے ادا کر رہی ہے۔پاک فوج کے کندھوں پر ان گنت افسروں اور جوانوں کے شہداء کے خون کی بھی بھاری ذمے داری ہے جو کہ ملک کی حفاظت اور اس ملک کے رہنے والوں کے کل کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا آج ہم پر قربان کر گئے جو کہ کوئی معمولی بات نہیں، اس بوجھ کے تلے فوج کے ساتھ پاکستانی عوام بھی اسی طرح دبے ہوئے ہیں کیونکہ اصل میں ان شہداء نے قربانی پاکستانی عوام کے لیے دی ہے، دے رہے ہیں اور نہ جانے کب تک دیتے رہیں گے اور ہمارے ناتواں کندھوں کو مزید زیرِ بار کرتے رہیں گے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب ہمیں اپنے فوجی بھائیوں کی قربانی کی خبر نہ ملے ہمارے شہداء کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اس عالمی دہشت گردی کا تن ِتنہا مقابلہ کیا ہے اور بڑی کامیابی سے کیا ہے اور اس کا سارا سہرا ہماری افواج کے سر ہی جاتا ہے جو کہ دن رات مشکل ترین حالات میں دفاع وطن کے لیے سر بکف ہیں اور دشوار گزار علاقوں سے ملک دشمن دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں کامیابی سے مصروف ہیں ۔

ہم بدقسمتی سے اس خطے کے باسی ہیں جہاں پر عالمی طاقتوں کے مفاد وابستہ ہیں اور یہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہمیں تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس چومکھی لڑائی میں حصہ دار بن چکے ہیں جس میں ابھی تک ہم نے سرا سر نقصان ہی اُٹھایا ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ اگر ہم اس میں حصہ دار نہیں بنتے تو ہمارے اپنے وجود کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ہمارا ازلی دشمن ہندوستان ان حالات سے مسلسل فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور کسی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی رہتا ہے ۔ہماری دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو عالمی طور پر بالکل بھی سراہا نہیں گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہمیں اس اندھی جنگ میں دھکیل کر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے کہ خود ہی اپنے زورِ بازو سے اس گہرے ترین سمندر سے تیر کر نکلو۔ ہماری فوج نے بھی اس کے سامنے ہار نہیں مانی اور آج ہم اگر شہروں میں سکھ کے دن گزار اور چین کی نیند سو رہے ہیں تو یہ پاک فوج کی قربانیوں کا ہی ثمر ہے ۔ آپریشن ضرب عضب ہو یا آپریشن رد الفساد اس میں جو کامیابیاںحاصل ہوئی ہیں وہ ایک مثال ہیں اور یہ مثالیں دنیا بھر کے سامنے ہیں کہ کس جوانمردی سے پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔

ملکی حالات کا موجودہ نقشہ وہی پرانا نظر آرہا ہے اورہمارے سیاستدان ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ خدانخواستہ ملکی حالات کو خراب کر کے مشرقی پاکستان والی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہمارا ازلی ’’دوست‘‘ امریکا جو اب مڑ کر دوسری طرف دیکھ رہا ہے، بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن ان ملک دشمن ناپاک سازشوں کے سامنے ہماری فوج سینہ سپر ہے ۔ان نئے اور بدلتے حالات پر ہماری افواج کی گہری نظر ہے جس سے وہ گاہے بگاہے عوام کو خبردار بھی کرتے رہتے ہیں اور اس کا سدباب بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہی تو ایک ادارہ ہے جس پر عوام کا اعتماد ہے مان ہے اور ہماری فوج نے کبھی اس مان کو ٹوٹنے نہیں دیا اور ٹوٹنے بھی کیوں دے کہ اس کی سلامتی میں ہمارے ملک کی سلامتی ہے اور سلامتی کی یہ دیوار ہر حال میں قائم رہے گی کیونکہ یہ قوم اس دیوار کو جانتی پہچانتی ہے ۔ اس میں ہماری زندگی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔