فاروق ستار، مصطفی کمال… حریف سے حلیف تک

مزمل سہروردی  جمعرات 24 اگست 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

کراچی میں ہونے والی سیاسی پیش رفت نہ تو دلچسپ اور نہ ہی حیران کن ہے ۔ یہ اسکرپٹ کے مطابق ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں نہ تو فاروق ستار اسکرپٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور نہ ہی مصطفیٰ کمال کسی بھی اسکرپٹ اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ دونوں نے اپنے طور پر اچھے کھیل کا مظاہر ہ کیا ہے۔ دونوں نے خوب محنت کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں کی کارکردگی ایک جیسی نہیں ہے۔ ایک کی زیادہ اچھی اور ایک کی کم اچھی رہی ہے۔ لیکن سیاست کے بدلتے موسم نے کراچی کے حوالہ سے سیاسی گیم تھیوری میں تبدیلی کا تقاضہ کر دیا ہے۔ اس لیے کراچی کی سیاسی گیم میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔

جہاں تک فاروق ستار کا تعلق ہے تو ان کی کامیابی کی وجہ ایک ہے کہ ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی ابھی تک ان کے ساتھ ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کی پارلیمانی طاقت کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مصطفی کمال کی جماعت نے ضمنی انتخاب نہ لڑنے کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی کو ان کے ساتھ جانے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ اچھی خاصی سیٹ چھوڑنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ سیٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے فاروق ستار کی بھی اہمیت رہ گئی۔لیکن کراچی کے حالیہ ضمنی انتخاب نے فاروق ستار کے ووٹ بینک کے حوالہ سے سوال پید اکیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے امیدوار نے اٹھارہ ہزار ووٹ لیے ہیں۔ لیکن یہ ووٹ اتنے کافی نہیں تھے کہ یہ طے کیا جا سکتا کہ فاروق ستار کی جماعت بلا شرکت غیرے مہاجر ووٹ بینک کی نمایندہ بن گئی ہے۔ اس طرح بے شک اراکین اسمبلی کی حمایت انھیں حاصل تھی لیکن ووٹ بینک پر سوالیہ نشان پیدا ہو گئے تھے۔

دوسری طرف مصطفی کمال کی کارکردگی بہت کامل رہی ہے۔ جس طرح الطاف حسین کو مصطفی کمال نے چیلنج کیا ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے بلا شبہ پاکستان کے لیے الطاف حسین کے ساتھ اگلے مورچے میں لڑائی لڑی ہے۔ پاکستان سے اور بالخصوص کراچی سے اگر کسی نے با آواز بلند الطاف حسین کو للکارا تو وہ مصطفی کمال ہی ہیں۔ ان کے لہجہ میں گرج بھی رہی اور انھوں نے ہر وہ بات کہی جو الطاف حسین کے بارے میں کوئی اور کہنے سے ڈرتا تھا۔ انھوں نے بلا شبہ مہاجروں کو الطاف حسین کا وہ چہرہ دکھایا جو کوئی اور نہیں دکھا سکتا تھا۔ سب سے اہم بات تھی کہ اگر کوئی غیر مہاجر یہ بات کرتا تو اس کی وہ اہمیت نہیں تھی جو مصطفی کمال کے کرنے کی تھی۔ کیونکہ مصطفی کمال خود ایک مہاجر ہیں اور ان کا مہاجروں میں بہرحال ایک عزت و مقام ہے۔ خیال یہی ہے کہ ان کی بات کو مہاجر اس طرح رد نہیں کر سکتے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ مہاجروں نے مصطفی کمال کی بات پر کتنا اعتبار کیا۔ کم کیا یا زیادہ کیا یہ الگ بات ہے۔

فاروق ستار اور مصطفی کمال کی سیاسی حکمت عملی میں ایک واضح فرق رہا ہے۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے گو کہ الطاف حسین سے لا تعلقی کا اظہار کیا لیکن یہ اعلان ایسا نہیں تھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ فاروق ستار نے واقعی الطاف حسین سے بغاوت کر دی ہے۔ یہ واضح بھی تھا اور مبہم بھی تھا۔ یہ تھا اور نہیں بھی تھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ میرے کم کہے کو ہی زیادہ سمجھا جائے اور بار بار اعلان لا تعلقی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ان کی خاموشی نے سوال بھی پیدا کیے۔ کیا لندن سے اعلان تعلقی حقیقی ہے کہ نہیں۔ کیا لندن سے مل کر کوئی ڈبل گیم تو نہیں کھیلی جا رہی۔ لیکن ان سوالات کی موجودگی کے باوجود فاروق ستار نے ریاستی اداروں سے اپنی حیثیت منوائی۔ ریاستی اداروں نے انھیں کھل کر کام بھی کرنے دیا ہے اور ملک کے سیاسی منظر نامہ میں بھی ان کی سیاسی حیثیت کو مانا گیا ہے۔

مصطفی کمال کی جانب سے ضمنی انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ گو کہ ایک اچھی حکمت عملی تھی۔ وہ اپنی مقبولیت اور ووٹ بینک کے حوالہ سے مٹھی بند رکھ رہے تھے۔ وہ ابہام اور سوال رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ انھوں نے ایک ملین مارچ کا اعلا ن کر دیا۔ انھوں نے یک دم سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا۔ اس ملین مارچ میں لوگ توقعات کے مطابق نہیں آئے۔

یہ ان کا پہلا سیاسی ٹیسٹ تھا جس میں وہ پاس نہیں ہوئے۔ وہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ مہاجروں نے انھیں اپنا قائد مان لیا ہے۔ ان کی مقبولیت پر سوالیہ نشان پیدا ہو گئے۔ بہرحال مصطفی کمال کی سیاسی کامیابیوں سے انکار بھی ممکن نہیں۔ یہ انھی کا دباؤ تھا کہ فاروق ستار راہ راست پر رہے۔ یہ انھی کا دباؤ تھا کہ فاروق ستار نے لندن سے اعلان لا تعلقی کیا۔ اگر مصطفیٰ کمال کا الطاف حسین پر دو ٹوک موقف سامنے نہ ہوتا تو فاروق ستار کا کمزور موقف بھی سامنے نہیں آتا۔ اس لیے مصطفی کمال کے کام اور کردار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

لیکن شاید اب وقت آگیا تھا کہ اسکرپٹ بدل دیا جاتا۔دونوں کے الگ الگ رہنے سے دشمن قوتوں کو فائدہ تھا۔ تقسیم کا فائدہ دشمن کو تھا۔ ویسے بھی چودہ اگست کو الطاف حسین نے پاکستان دشمنی کی انتہا کر دی تھی۔ ایسے میں ملک دشمن کو شکست دینے کے لیے اتحاد ہی واحد آپشن تھا۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مصطفی کمال اور فاروق ستار کی قربت پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ اس سے مہاجر قوم میں ابہام ختم ہو گا کہ کس کو ووٹ دیں۔ ان کے سامنے ایک ہی پلیٹ فارم ہو گا۔ مصطفی کمال اور فاروق ستار کی قربت سے مہاجرین میں تقسیم کا پراپیگنڈہ بھی ختم ہو جائے گا اور لندن سے مقابلہ بھی آسان ہو جائے گا۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کراچی کے حوالہ سے عمران خان نے بہت مایوس کیا ہے۔ وہ کراچی کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالانکہ 2013 کے انتخابی نتائج نے یہ امید پیدا کی تھی کہ عمران خان کراچی میں الطاف حسین کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن عمران خان مرکز اور پنجاب کی سیاست میں اس قدر الجھے رہے کہ کراچی ان کی ترجیحات میں نیچے چلا گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ عمران خان کا کراچی میں ووٹ بینک کم ہو گیا۔ ضمنی انتخابات میں ان کی کارکردگی مایوس کن حد تک خراب رہی ہے۔ حتیٰ کہ کراچی میں ان کے جلسے بھی ناکام رہے۔ لوگ ان کو سننے بھی نہیں آئے۔ جن کا یہ خیال تھا کہ الطاف حسین کی طاقت کے ٹوٹنے کا فائدہ جماعت اسلامی کو ہوگا ۔ یہ سیاسی تھیوری بھی غلط ثابت ہو گئی ہے۔ جماعت اسلامی بھی متاثر نہیں کر سکی ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی ناامید ہی کیا ہے۔

ایسے میں فاروق ستار اور مصطفی کمال جہاں ایک دوسرے کے حریف کے طور پر سامنے آئے تھے، دونوں ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ماننے سے انکاری تھے۔ سیاسی منظر نامہ نے ان غیر فطری دوستوں اور سیاسی حریفوں کو سیاسی حلیف بنا دیا ہے۔ ان دونوں کے پاس ہاتھ ملانے قدم سے قدم ملانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ دونوں کو اپنی بقا کے لیے اکٹھے چلنا ہو گا۔ فاروق ستار کے ساتھ موجود اراکین اسمبلی کو بھی معلوم ہے کہ مہاجروں کے ووٹ بینک کی تقسیم سے ان کی سیٹوں کو خطرہ ہے۔

مصطفی کمال خود جیتے یا نہ جیتے لیکن اس کے  کھڑے ہونے سے ان کی ہار یقینی ہے۔ صنم ہم تو ڈوبے ہیں تمہیں بھی لے ڈوبیں گے کے مصداق دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے ڈیتھ وارنٹ بن گئے ہیں۔ اگر دونوں مل جائیں تب ہی دونوں بچ سکتے ہیں۔ دونوں کا اتحاد دونوں کو ہی سیاسی زندگی بخش سکتا ہے۔ اکیلے اکیلے تو لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم والا حال ہوجائے گا۔لیکن دونوں کا اتحاد عمران خان اور جماعت اسلامی کے لیے بھی پیغام ہے کہ وہ کراچی کی گیم سے آؤٹ ہیں۔ گیم تھیوری میں ان کی جگہ نظر نہیں آرہی۔ البتہ پٹھانوں کی پوکٹس میں اے این پی کی گیم بن رہی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی گیم میں ہے۔ اس لیے کراچی واپس اپنے پرانے نقشہ کی طرف لوٹ رہا ہے۔ کچھ نیا نہیں ہے۔ اس لیے حیرانی اور سرپرائز کی کوئی بات نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔